مختصر تاریخ عزاداری
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں
واقعہ کربلا
۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی عمر ۲۲ سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ھوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔ نھیں کھا جاسکتاکہ راستہ ھی میں یاکربلا پھنچنے کے بعد کھاں بیمار ھوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شھادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ھے کہ ساتویں سے پانی بند ھونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ھوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باھر تھی . عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رھے اسی لئے کربلا کے جھاد میں اس طرح شریک نہ ھوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ھوئے. قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا . وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ھوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے .ادھر امام حسین علیہ السّلام شھید ھوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اھلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا . اس وقت کااھل حرم کااضطراب، خیام میں تھلکہ اور پھران ھی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ھوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظھار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ھیں مگر کیا کھنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا .آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂ شکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:لاالٰہ الاَّ اللہُ حقّاًحقاً لاَالہ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ اللہ تعبدًاورقاً (یعنی کوئی معبود نھیں سوائے الله کے جو حق ھے یقیناً حق ھے , کوئی معبود نھیں سوائے ایک اللہ کے .ایمان اور سچائی کی روسے کوئی معبود نھیں سوائے ایک اللہ کے . خدا کے سوا کوئی معبود نھیں ھے،میں اسکی گواھی دیتا ھوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ ۔
گیارہ محرم کو فوج دشمن کے سالار نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتھائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رھے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ھوجائے . انھیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارھےتھے
پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ھوا قافلہ دربار میں پھنچا . سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررھے تھے کہ یہ وھی کوفہ ھے جھاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاھزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں رسول ص کاخاندان مقیّد کھڑا ھے . سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتھائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود بھی ایک کوهِ وقار بنے ھوئے خاموش کھڑے تھے . ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمھارا نام کیا ھے امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین .,, وہ کھنے لگا:کیا اللہ نے علی ابن الحسین کو قتل نھیں کیا؟ امام نے جواب دیا .»وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنھیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاھل کھنے لگا .'' نھیں! بلکہ اللہ نے قتل کیا
امام نے یہ آیت پڑھی کہ اَللہ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا یعنی اللہ ھی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ھے اور اللہ کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ھے جو سب کے لئے ھے.اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کھا. تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ھے اور فوراً قتل کا حکم دیا . یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کھا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے . سیّد سجاد علیہ السّلام نے کھا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے . ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں ال محمد ص کے بھتے ھوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ھوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سھم جائیں گے مگر بھادر حسین علیہ السّلام کے بھادر فرزند نے تیور بدل کر کھاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ کیا ابھی تک تجھے نھیں معلوم کہ قتل ھونا ھماری عادت ھے اور شھادت ھمای فضیلت ھے ۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنھوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ھوگیا او رثابت ھوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شھادت سے ان کی اولاد و اھل حرم پر کوئی خوف نھیں چھایا بلکہ قاتل اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ھوچکے ھیں . کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ھوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وھاں کے بازارخاص اھتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شھر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رھے تھے . اس وقت حسین علیہ السّلام کے اھل حرم جو تکلیف محسوس کررھے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ھے , ایسے وقت انسان کے ھوش وحواس بجانھیںرھتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ھر موقع پر ھدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رھا تھا حکومت کے ایک ھوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا . اے فرزندِ حسین کس کی فتح ھوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا . تم کو اگر معلوم کرنا ھے کہ کس کی فتح ھوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت دیکھ لینا
حضرت زينب (س)
حضرت زينب (س)فصاحت و بلاغت کي عظيم دولت و نعمت سےبہرہ مند تھيں
تاريخ اسلام ميں حضرت زينب (س)نے ايک منفرد مقام پايا اور ايساعظيم کارنامہ سرانجام ديا جو رہتي دنياتک دنيائے انسانيت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گيا۔
زينب سلام عليہا کي عظمت و شان وشوکت کے لئے يہي کافي تھا کہ انھيں خالق حکيم نے عظيم علم سے سرفراز فرمايا تھا زينب(س) ايک فردنہیں بلکہ اپنے مقدس وجود ميں ايک عظيم کائنات سميٹے ہوئے ہيں ايک ايسي عظيم کائنات جس ميں عقل و شعور کي شمعيں ا پني مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانيت کے دروبام کو روشن کئے ہوئے ہيں اور جس کے مينار عظمت پر کردار سازي کا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے زينب کے مقدس وجود ميں دنيائے بشريت کي تمام عظمتيں اور پاکيزہ رفعتيں سمٹ کر اپنے آثار نماياں کرتي ہوئي نظر آتي ہیں زينب(س) کا دوسري عام خواتينوں پر قياس کرنا يقينا ناانصافي ہے کيونکہ امتياز وانفردي حيثيت اور تشخص ہي کے سائے ميں ان کي قدآور شخصيت کے بنيادي خدو خال نماياں ہو سکتے ہیں اور يہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں کہ زينب ايک ہوتے ہوئے بھي کئي ايک تھيں زينب نے کربلا کي سرزمين پر کسب کمال ميں وہ مقام حاصل کيا جس کي سرحديں دائرہ امکان ميں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئيں اور زينب کي شخصيت تاريخ بشريت کي کردار ساز ہستيوں ميں ايک عظيم و منفرد مثال بن گئي ہم فضيلتوں کمالات اور امتيازي خصوصيات کي دنيا پر نظر ڈالتے ہیں تو زينب کي نظير ہميں کہیں نظر نہیں آتي اور اس کي وجہ يہي ہے کہ زينب جيسا کہ ميں نے بيان کيا ہے کہ اپنے وجود ميں ايک عظيم کائنات سميٹے ہوئے جس کي مثال عام خواتين ميں نہیں مل سکتي ہے اور يہ بات يہ ايک مسلم حقيقت بن چکي ہے کہ انساني صفات کو جس زاو يے پر پرکھا جائے زينب کا نام اپني امتيازي خصوصيت کے ساتھ سامنے آتا ہے جس ميں وجود انساني کے ممکنہ پہلوؤں کي خوبصورت تصوير اپني معنوي قدروں کے ساتھ نماياں دکھا ئي ديتي ہے۔
حضرت زينب (س)ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کي عظيم دولت و نعمت سے بھي بہرہ مند تھي زينب بنت علي تاريخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفريں کردار کا دوسرا نام ہے صنف نازک کي فطري ذمہ داريوں کو پورا کرنے اور بني نوع آدم عليہ السلام کو حقيقت کي پاکيز ہ راہ دکھانے ميں جہاں مريم و آسيہ و ہاجرہ و خديجہ اور طيب وطاہره صديقہ، طاہر ہ فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہم کي عبقري شخصيت اپنے مقدس کردار کي روشني ميں ہميشہ جبين تاريخ کي زينت بن کر نمونہ عمل ثابت ہوئي ہیں وہاں زينب بھي اپنے عظيم باپ کي زينت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ و جھوٹ ايمان و کفر اور عدل وظلم کے درميان حد فاصل کے طور پر پہچاني جاتي ہیں زينب نے اپنے عظيم کردار سے آمريت کو بے نقاب کيا ظلم و استبداد کي قلعي کھول دي دنيا کے زوال پزير حسن وجمال پر قربان ہونے والوں کو آخرت کي ابديت نواز حقيقت کا پاکيزہ چہرہ ديکھا يا صبرو استقامت کا کوہ گراں بنکر علي عليہ السلام کي بيٹي نے ايسا کردار پيش کيا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگي اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا زينب کو علي و فاطمہ عليہما السلام کے معصوم کردار ورثے ميں ملے اما م حسن عليہ السلام کا حسن وتدبير جہاں زينب کے احساس عظمت کي بنياد بنا وہاں امام حسين عليہ السلام کا عزم واستقلال علي عليہ السلام کي بيٹي کے صبر و استقامت کي روح بن گيا ، تاريخ اسلام ميں زينب نے ايک منفرد مقام پايا اور ايساعظيم کارنامہ سرانجام ديا جو رہتي دنياتک دنيائے انسانيت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گيا