عرب کی بد قسمتی کے اسباب
نعمان ابن منذر کے زمانے میں جنگ کے بعد عورتیں (لڑکیاں) قید ہوئی تھیں، مصالحت کے بعد ہر چیز کی واپسی شروع ہو ئی تو بعض لڑکیاں واپس نہ آئیں۔ انہوں نے قبیلے میں آنے سے انکار کر دیا اور اپنے شوہروں کے پاس رہنے کو ترجیح دی یعنی جن کے پاس رہ رہی تھیں وہیں رہنا پسند کیا ۔ عرب پریشان ہوئے ایک تو قید ہونے کا خدشہ تھا دوسرا بیٹے کام کرتے ہیں،کمائی کرنے والے ہوتے ہیں اور بیٹیاں خرچ خرچ کرتی ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ ان دو وجہوں سے یہ (زندہ درگور کرنے کی) قبیح رسم رواج پکڑگئی ہو ۔ اسلام نے جس طرح انسانیت کی عظمت کو اجاگر کیا اور انسان کو اس کے مکرم و محترم اشرف المخلوقات ہونے کی طرف متوجہ کیاہے ۔ اسی طرح عورت کونہ صرف مرد کی طرح مخلوق قرار دیا بلکہ انسانیت میں مکمل حصہ دار قراردیا۔ عورت کی بے چارگی کو دورکیا اور اس کی عزت و عظمت کو واضح کیا ہے ۔ مغربی لوگوں نے عورت کو کھلونا اور کاروبار کا ذریعہ اوراپنی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ بنایا ،یہ آزادی نہیں بلکہ بدترین غلامی ہے ۔اسلام نے واضح کیا کہ (اے مرد)عورت بھی تیری ہی طرح انسان ہے ، تیری ہی طرح اشرف المخلوقات ہے۔ تیری ہی طرح مکرم اورمعزز مخلوق ہے بلکہ(اے مرد ) جب عورت ماں کا درجہ پاتی ہے تو تیری جنت کی ضامن بن جاتی ہے۔ اسی کے قدموں میں جنت ہے، اسی کی خدمت میں صلہ میں تو جنت کا حقداربنتاہے پس(اے مرد) تو انسانیت اختیار کراور عورت کو انسان سمجھ ۔اس کی عزت کر تاکہ تیری عزت ہو ۔ ارشاد خدا وندی ہے۔ یَاأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَاءً ج " لوگو اپنے خدا سے ڈرو جس نے تمہیں ایک فرد سے پیدا کیا اور اسی(خمیر) سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد عورت (روئے زمین پر) پھیلائے۔"(نساء:1) مزیدارشاد ہے: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْہَا۔ "وہی ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے۔ "(اعراف :189) اسلام اور قرآن عورتوں کا مذاق اڑانے اور ان سے مسخرہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَیَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یَّکُونُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلاَنِسَاءٌ مِّنْ نِّسَاءٍ عَسٰی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج "اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے مسخرہ نہ کرلے ہو سکتاہے وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اورنہ ہی عورتیں (یا مرد)عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ ( سورہ حجرات آیت 11) اے مومنون !قرآن ایک دوسرے کی عزت کا درس دیتاہے ایک دوسرے کا احترام اورعورتوں کی عزت ۔عورت مرد ہی کا حصہ ہے۔ مرد کی تخلیق سے بچی ہوئی خاک سے پیداہوتی ہے، مرد کی اولادکا ظرف ہے: مرد کی حصہ دار ہے، مرد کے سکون کا ذریعہ ۔اورمرد کی ساتھی ہے یہ مرد کا لباس ہے اور مرد اس کالبا س ہے۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّط "وہ تمہارے لیے لباس ہیں ا ور تم ان کے لیے لباس ہو"۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۸۷) عورت کی بدقسمتی تذلیل کا ایک سبب یہ غلط تصور ہے کہ حضرت آدم ں کی مشکلات کی موجب جناب حوا ہیں۔ انہیں کی وجہ سے حضرت آدم ں جنت سے نکالے گئے ،انہیں کی وجہ سے در بدر اورپریشان حال ہوئے اور مصیبت میں پھنس گئے۔ اسرائیلی روایات سے قطع نظر اس نظریہ کی کوئی اساس نہیں ہے اور قرآن مجید کے مطالعہ سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ جنت میں عیش وآرام،جنت سے نکلنے اورشیطانی وسوسوں وغیرہ کاجب بھی ذکر ہوا ہے تو آدم و حوا دونوں کا تذکرہ ہو ہے حضرت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ قرار پائے ، فرشتوں کے ساتھ علمی مقابلہ میں غالب رہے۔ حضرت آدم علیہ السلام ہی کو الٰہی نمائندگی ملی لیکن جب جنت میں رہائش اخراج اور پریشانی کا ذکر ہوا تو کسی ایک جگہ بھی حضرت حوا کو مورد الزام نہیں ٹھہریا گیا اور جب بھی ذکر ہوا تو دونوں ہی کا ہوا۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے : وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنْ الظَّالِمِیْنَ ۔ "اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکون کے ساتھ قیا م کرو، جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن ا س درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہوجاوٴ گے۔" (سورہ بقرہ آیت نمبر ۳۵) مزید ارشاد ہوا ہے: وَیَاآدَمُ اسْکُنْ أَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ فَکُلاَمِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَاتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنْ الظَّالِمِیْنَ ۔ "اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کرو جہاں سے چاہو کھاؤ مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں(زیادتی کرنے والوں میں ) سے ہو جاؤگے ۔ " ( سورہ اعراف آیت نمبر۱۹) ان آیات قرآنی میں آدم علیہ السلام و حوا دونوں کا ذکر ہواہے اور جب شیطانی وسوسہ کا تذکرہ ہوتو بھی دونوں کا ذکر کیا گیا ۔ ارشادِ خداو ندی ہے: فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ "پس شیطان نے ان دونوں کو پھسلایا اورجس (نعمت) میں دونوں قیام پذیر تھے اس سے نکلوادیا۔ ( سورہ بقرہ ۳۶) نیز ارشاد ہے : فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا ورِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْآتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ أَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ وَقَاسَمَہُمَا إِنِّی لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ فَدَلاَّہُمَا بِغُرُوْرٍ۔ج "پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرف سے ان دونوں کے لیے پوشیدہ مقامات جو ان سے چھپائے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہوجائیں اور کہا تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا تھا کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا زندہ جاوید نہ بن جاؤ ۔ " (سورہ اعراف آیت نمبر ۲۰۔۲۱) ان قرآنی آیات میں شیطان کے وسوسے کاتعلق دونوں سے ہے اور اس طرح پھسلائے اوربہکائے جانے والے بھی آدم علیہ السلام حوا دونوں ہیں لہٰذا صرف حوا کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہے ۔ پھرجب جنت سے نکل جانے کاحکم ہو اتو دونوں ہی کو بلکہ شیطان کو بھی حکم دیا اورشیطان کی دشمنی کا تذکرہ بھی دونوں کے لیے ہوا۔ جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے : قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا "ہم نے کہا تم سب یہاں سے نیچے اترجاؤ ۔ " (سورہ بقرہ آیت نمبر۳۸) نیزارشاد خدا وندی ہے: قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج وَلَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلٰی حِیْنٍ ۔ "ایک دوسرے کے دشمن بن کے نیچے اتر جاؤ اور زمین پر ایک مدت تک تمہارا قیام و سامان ہوگا۔اللہ کی طرف سے یہ فرمان دونوں کے لیے آیا تھا۔" ( سورہ اعراف آیت نمبر۲۴) مزیدارشاد ہوا ہے: وَنَادَاہُمَا رَبُّہُمَا أَلَمْ أَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَّکُمَا إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ۔ "اور ان کے رب نے انہیں پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت(کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں بتایا نہ تھاکہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ ( سورہ اعراف آیت نمبر۲۲) ارشاد خداو ندی ہے: فَقُلْنَا یَاآدَمُ إِنَّ ہَذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلاَیُخْرِجَنَّکُمَا مِنْ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰی ۔ "پھر ہم نے کہا اے آدم! یہ تم اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے کہیں یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم پر مصیبتیں نہ آپڑیں ۔" ( سورہ طہ ۔۱۲۲) قرآنی آیات کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ درخت سے دونو ں کو منع کیا گیا تھا ۔وسو سہ شیطانی دونوں کے لیے تھا۔ جنت سے اترنادونوں کے لیے تھا۔شیطان کے دشمن ہونے کا تذکرہ دونوں کے لیے تھا۔بلکہ دشمنی کے سلسلہ میں خطاب بھی دونوں کوہوا۔ لہٰذا واضح ہوا کہ اس مسئلہ میں جنا ب حوا ہی تنہا قصور وار نہیں ہیں البتہ شوہر نامدار کی شریک کار ضرور ہیں۔ ایک آیت میں تو براہ راست صرف آدم علیہ السلام کیلئے ہی وسوسہ شیطانی کا ذکر ہوا ۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: فَوَسْوَسَ إِلَیْہِ الشَّیْطَانُ قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلیٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّایَبْلٰی "پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا آے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں ۔ ( سورہ طہ ۔۱۲۰) بہرحال بحسب الظاہر حضرت آدم علیہ السلام ہی کے لیے احکام تھے خدا کے فرامین انہیں کیلئے ہی تھے زحمت ودقت بھی ان کیلئے ہی تھی لباس کااترنا بھی انہی کے لیے تھا حضرت حوا بہ حیثیت زوجہ ان امورمیں مبتلا ہوئیں ۔ جیسا کہ ایک مقام پر خدا وند نے یہاں تک فرمایا ہے : وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا "اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے( ترک کر دیا ) ہم نے ان میں کوئی عزم نہیں پایا ۔ (سورہ طہ ۔۱۲۰) قرآن کاعظیم احسان ہے کہ اس نے عورت کی بے چارگی اورمظلومی کو اجاگرکیااوربتایاکہ حضرت حوا زوجہ ہونے کی وجہ سے شریک کار تھیں ۔خدا کے نمائندے آدم علیہ السلام پر ہی احکام کانزول ہوا اور انہی سے عہد لیا گیا تھا جو پورا نہ ہو سکا۔ کیوں؟ کیا اس کی وجہ سے عصمت میں فرق نہیں پڑے گا ۔ اس کا تذکرہ کسی مناسب مقام پر کریں گے۔ حضرت حوا ان معاملات میں مورد الزام نہیں ٹھہرتیں لہٰذا بے چاری عورت پر اشکال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ عورت بھی انسان ہے، عورت بھی مکلف ہے، مردوں کی طرح سے عورتیں بھی صالح ہیں اور عظمت عورت میں کوئی کلام نہیں ۔مرد کی طرح عورت بھی اشرف المخلوقات اور انسان ہے ۔ عورت مرد کے مساوی ہے فرق صرف فضیلت اور تقویٰ کی وجہ سے ہے ۔ مرد وعورت احکام میں برابر ہیں صرف خون کے مسائل میں عورت کے احکام جدا ہیں اور جہاد عورت سے ساقط… وگرنہ احکام میں مساوی ہیں۔ جز او سزا میں بھی مساوی ہیں ، اعزاز و اکرام اور اہانت و تذلیل میں مساوات ہے، خلقت و زندگی ایک ہے اور اساس زندگی بھی ایک ہی ہے ۔ پس جب معیارِ تفاضل بھی ایک جیساہے لہٰذا جزا وسزا بھی ایک جیسی ہی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے: وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُو۱لٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُونَ نَقِیرًا ۔ "اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوں تو لہٰذا( سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔( سورہ نساء ۔۱۲۴ ) ارشاد خدا وندی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ "جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انہیں ان کے اعمال کی بہترین جزا ضرور دیں گے۔( سورہ نحل ۔ ۹۷) بہرحال عورت و مرد اعمال اور جزا میں مساوی ہیں ہرکسی نے اپنا انجام خود بنانا ہے اورہر فرد اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو گا ۔ جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ أُخْرٰی "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( سورہ بنی اسرائیل ۔۱۵) یہ تصور کہ مرد حاکم ہے ۔یہ انتظامی معاملہ ہے اورنظام کی درستگی کیلئے ہے ، جیسے مرد حاکم ہے اورکئی اشخاص اس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ گھر کا سربراہ مرد ہے وگرنہ کوئی مرد ہے جو سیدہ سلام اللہ علیہا کے ہم پلہ ہو ؟ کوئی ہے جس کی کار گزاری اورجس کا کام ثانی زہراء جیساہو پس مساوات ہی مساوات ہے اور فضیلت کا معیار تقویٰ ہے ۔ بہر حال قرآن مجید کی رو سے مرد و زن کی خلقت کا طریق کار ایک ہے، معیار تفاضل و تفاخر ایک ہے اوروہ ہے عمل خیر ! جیساکہ ارشاد خدا وندی ہے: أَنِّی لَاأُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ "تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں ہو گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت کیونکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہو۔" ( سورہ آل عمران ۔۱۹۵) مرد عورت دونوں کی اہمیت ہے اور دونوں کا عمل وزنی ، معتبر اور قابل اعتبار ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہیں تو پھرفوقیت اور چودھراہٹ کیسی ؟ نظام خانوادگی میں ایک ہیں، نظام تناسل میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، سکون حاصل کرنے میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔دونوں ایک ہیں اورمن تو شدم تو من شدی کے مصداق ہیں۔ جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے: وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَ وَ اُنْثیٰ وَھُوْ مَوٴْمِنٌ فَاوٴُلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ " اورجو نیکی کرے گا مرد ہو یا عورت اوروہ صاحب ایمان بھی ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں بے شمار رزق ملے گا ۔ ( سورہ مومن ۔۴۰) درحقیقت بعضکم من بعض فرما کر یہ واضح کردیا گیا کہ زندگی کی َضروریات اور تدبیر امور میں دونوں برابر ہیں اور ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ دونوں (مرد عورت) ایک جیسے ہیں ،اس کے علاوہ عورت کودو امتیازی صفات دی گئیں ہیں۔ ۱۔ عورت کی وجہ سے نوع انسان کی بقا و ارتقا ء ۲۔ عورت واجد لطاقت و حساسیت ہے جس کی معاشرہ میں اہمیت ہے اور پھردنیاو آخر کے سب امور میں اشتراک ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَط وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ ط اِنَّ کَانَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْیءٍ عَلِیْمًا۔ "اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی اسکی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل وکرم مانگتے رہو حقیقتاً اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتاہے۔" (سورہ نساء ۔ ۳۲) بحسب الظاہر دنیاکا کام نظرآرہا ہے لیکن آیت میں عمومیت ہے ۔ دنیا وآخرت کا کام جو بھی کرے گا ۔ جس قدر کرے گا ۔ جس خلوص و محنت سے کرے گا ۔ اسی قدر نتیجہ اورثمر حاصل کرے گا ۔(خواہ وہ مرد ہو یا عورت ) اے انسان مومن توتکبر سے باز آ۔ غرور نہ کر ۔ خود کو کسی سے برتر بہتر نہ سمجھ ۔ تیرے گھر میں مزدوری کرنے والا، اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ عزت والا ہو ہوسکتا ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تیری زوجہ عمل و کردار میں تجھ سے زیادہ بہتر ہو پس معیار فضیلت تقوی ٰ ہے۔