اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

زوجہ حضرت ایوب

زوجہ حضرت ایوب

ارشاد رب العزت ہے : وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوْبَ إِذْ نَادٰی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہَذَا مُغْتَسَلٌ م بَارِدٌ وَّشَرَابٌ وَوَہَبْنَا لَہ أَہْلَہ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہ وَلاَتَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہ أَوَّابٌ ۔ "اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے ۔ جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا۔ شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے ( ہم نے کہا ) اپنے پاوٴں سے(زمین پر)ٹھوکر مارو! یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے ،ہم نے انہیں اہل و عیال دیئے اور اپنی خاص رحمت سے ان کے ساتھ اتنے ہی اور دے دیئے اورعقل والوں کے لئے نصیحت و عبرت قرار دی۔ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو تھام لو اسے مارو اور قسم نہ توڑ وبتحقیق ہم نے انہیں صابر پایا وہ بہترین بندے تھے بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔" (ص :۴۱تا ۴۴) حضرت ایوب کی حیران کن زندگی صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال تھی ان کی زوجہ محترمہ کا بے مثال ایثار مشکلات میں گھرے ہوئے انسانوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔ حضرت ایوب کی فراوان دولت، کھیتیاں، بھیڑ بکریاں اور آل و اولاد سب ختم ہو گئے اور وہ نان جویں کے محتاج ہوگئے، رشتہ دار اور دوست و احباب اور ماننے والے سب چھوڑ گئے وہ تن و تنہا اپنی پردہ دار زوجہ ،نبی کی بیٹی زوجہ کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ایسی کہ زوجہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے گذر بسر کرتی رہی اورپھر دوسری طرف شماتت اعداء کا ہجوم تھا۔ حضرت ایوب سے پادریوں کا ایک وفد ملا اور کہنے لگا جناب ایوب ! لگتا ہے آپ سے کوئی بہت بڑا گناہ ہوا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی ایوب صابر و شاکر تھے اللہ نے ان کی بہت تعریف کی تو شیطان نے کہا جب ایوب کے پاس سب کچھ موجود ہے تو وہ صبر و شکر نہ کرے تو کیا کرے؟ بات تو تب ہے جب کچھ نہ ہو تو پھر صبر کرے ۔ امتحان شروع ہوا سب کچھ ختم ہوگیایکہ و تنہا ، بے یار و مددگار، مریض اور لاچار ہو گئے لیکن کیا کہنا عظمت زوجہ کا کہ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مزدوری کی زحمت اٹھائی ۔ایک دن کسی حکیم نے کہا میں دوا دیتا ہوں ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ایک شرط ہے۔ آپ کو کہنا ہوگا کہ مجھے حکیم نے شفا دی ہے ان کی بیوی نے ہاں کردی حضرت ایوب نے بہت برا منایا اور سزا دینے کی قسم کھا لی ۔ اب جب مصائب کا تلاطم ختم ہوا اورنصمات لوٹ آئیں تو قسم پوری کرنے کا مسئلہ پیدا ہوا خدا نے فرمایا : ایسی بے مثال زوجہ توکسی کو نصیب نہیں ہوئی اس بے چاری کی اس قدر خدمات ہیں اس کے باوجودتم سزا کا سوچ رہے ہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ کا نام سب سے بڑا ہے تم جھاڑو لے لو اور اسے سزا کا آلہ قرار دو تاکہ قسم نہ ٹوٹے اور بات بھی پوری ہو جائے ۔ ایوب نبی تھے صابر تھے عبد خاص تھے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ان تمام صفات کے ساتھ وہ نبی تھے۔ کیا کہنا زوجہٴ ایوب کا (عورت کی عظمت ) کہ سب چھوڑ گئے لیکن اس کا ایثار اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آئی اسی لئے کہا گیا کہ اے مرد زوجہ کی اچھائی پورے گھر کو جنت میں بدل دیتی ہے عورت کی ذہانت اور اخلاق سے تیرا گھر جنت بن جاتا ہے تو بھی اچھا رہے عورت بھی اچھی رہے جبکہ آج کے زمانے میں برا گھر ہی تیرے لئے جنت بنا ہوا ہے۔ ۷۔ مادر موسیٰ ۔ ۸۔ خواہر موسیٰ ۔

آسیہ زوجہ فرعون

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ایک سو اکیس مرتبہ ہوا ۔ ان کے مفصل واقعات ہیں جنہیں میں کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ولادت کا مخفی ہونا ، بعد از ولادت کے واقعات جس میں موسیٰ کی والدہ کا کردار، صبر و استقامت، بہن کا کردار، جدت و ہوشیاری کے ساتھ اس صندوق کا تعاقب جس میں حضرت موسیٰ سوئے ہوئے تھے اورپھر جناب آسیہ کا کردار جس نے فرعون کے دل میں ان کی محبت ڈالی اسے راضی کیا اور پھر اپنے گھر میں بہترین انداز سے موسیٰ کی پرورش کی ۔ خوف کی حالت میں مصر سے روانگی اور مَدْیَنِ آمد، شادی و تزویج ، خدمت حضرت شعیب۔ شعیب جیسی بہترین شخصیت کا سہارا ثابت ہوئی۔ شادی ہو گئی کام مل گیا اور باعزت زندگی بسر ہونے لگی ۔ ۳۔ مدین سے مصر واپسی ، نبوت کا علان ، فرعون سے تخاطب، جاوگروں کا واقعہ اور اس میں کامیابی اور عصا کے معجزات ۔ ۴۔ فرعون کے غرق ہونے کے بعد قوم میں تبلیغ ، ان میں وحدت قائم رکھنا ، قوم کی ریشہ دوانیاں اور پھر عذاب کی مختلف صورتیں۔ ظاہر ہے سب کا تذکرہ تو ہمارے اس مختصر سے رسالہ میں مشکل ہے صرف بعد از ولادت کے چند واقعات کو آیات قرآن کی حدود میں رہتے ہوئے ذکر کریں گے ۔ ارشاد رب العزت ہے : وَأَوْحَیْنَا إِلٰی أُمِّ مُوْسَیٰ أَنْ أَرْضِعِیْہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَأَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلاَتَخَافِیْ وَلَاتَحْزَنِیْ إِنَّا رَادُّوْہُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ " ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ان کو دودھ پلالو اور جب اس کے بارے میں خوف محسوس کرو تو اسے دریامیں ڈال دو اور بالکل رنج وخوف نہ کرنا کریں ہم اسے تمہاری طرف پلٹا نے والے ہیں اور اسے پیغمبروں میں شامل کرنے والے ہیں ۔ وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَیٰ فَارِغًا إِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہ لَوْلَاأَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَقَالَتْ لِأُخْتِہ قُصِّیْہِ فَبَصُرَتْ بِہ عَنْ جُنُبٍ وَّہُمْ لَایَشْعُرُوْنَ وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلٰی أَہْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہ لَکُمْ وَہُمْ لَہ نَاصِحُوْنَ فَرَدَدْنَاہُ إِلٰی أُمِّہ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلاَتَحْزَنْ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللہ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَیَعْلَمُوْنَ "ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا قریب تھاکہ رازکو فاش کردیتی اگر ہم نے اس کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتاکہ وہ یقین رکھنے والوں میں سے ہو جائے۔ اور مادر موسیٰ نے ان کی بہن (کلثوم)سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ موسیٰ کو (دور سے) دیکھتی رہی کہ دشمنوں کو اس کام پتہ نہ چل جائے اور ہم نے موسیٰ پر دودھ پلانے والیوں کے دودھ کو پہلے سے حرام قرار دیا تھاچنانچہ موسیٰ کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ دوں جو اس بچے کو تمہارے لئے پالیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں۔ " (قصص:۱۰تا۱۴) موسی ٰ کے پیدا ہوتے ہی دایہ نے چاہا کہ حکومت کو خبر کردوں کہ بچے کے نور کی چمک سے اس بچہ کی محبت پیدا ہوگئی دایہ نکلی توحکومتی افراد گھر میں داخل ہوئے ماں نے موسیٰ کو تندور میں ڈال دیا۔ حکومتی افراد کے جانے کے بعدبچے کے رونے کی آ واز آئی دیکھا کہ آتش تندور سلامتی او برد بن چکی تھی صندوق بنایا گیا بہن ساتھ چلی ماں نے آخری بار دودھ پلا کر نیل کی موجوں کے سپرد کر دیا ۔ فرعون اور اسکی ملکہ دریا کے کنارے محل میں موجود دریا کا نظارہ کررہے ہیں صندوق نظر آیا تو حکم ہواکہ فوراً جائیں اور صندوق لے کر آئیں۔ حضرت موسیٰ کی نجات کے لیے صندوق کا ڈھکنا کھولا گیاملکہ نے بچہ دیکھا تو اس کی محبت نے دل میں گھرکر لیا وَقَالَتِ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ لاَتَقْتُلُوْہُ عَسٰی أَنْ یَّنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہ وَلَدًا وَّہُمْ لاَیَشْعُرُوْنَ۔ "اور فرعون کی زوجہ نے کہا یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو ممکن ہے کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو ہم اسے بیٹابنا لیں اور وہ (انجام سے )بے خبر تھے ۔ " (قصص:۹) اللہ کی عجیب قدرت ہے کہ آسمان وزمین کے لشکروں سے کسی قوم کو نیست و نابود کردے یا خود مستکبرین کے ہاتھوں برباد ی کاسامان ظہور پذیر ہو ۔ موسیٰ کی دایہ قبطی دریا سے نکالنے والے، متعلقین فرعون ڈھکنا کھولنے والا فرعون اور پھر موسیٰ غلبہ و اقتدار، موسیٰ جوان ہو گئے، بازار میں دو آدمیوں کو لڑا ئی کرتے دیکھا ایک کے مدد طلب کرنے پر دوسرے کو جان لیوا مکا مارا، اب مخفیانہ طور پر مصر کو چھوڑکر چلے ۔ وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَاءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسَیٰ رَبِّیْ أَنْ یَّہْدِیَنِیْ سَوَاءَ السَّبِیْلِ وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّةً مِّنْ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُوْدَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَانَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ فَسَقیٰ لَہُمَا ثُمَّ تَوَلَّی إِلٰی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ فَجَائَتْہُ إِحْدَاہُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَائَہ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَاتَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔ "اور جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا اور کہا کہ اب پروردگار مجھے سیدھے راستے کی ہدایت فرمائے گا اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو انہوں نے دیکھاکہ لوگوں کی ایک جماعت اپنے جانوروں کو پانی پلا رہی ہے اور دیکھا کہ ان کے علاوہ دو عورتیں اپنے جانور لیے ہوئے کھڑی ہیں موسیٰ نے کہا کہ آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ دونوں بولیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کرواپس نہ چلے جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والدبڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔ موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا یا پھر سایہ کی طرف ہٹ گئے اور کہا کہ پالنے والے جو چیزیں تو مجھ پرنازل کرتاہے میں اس کا محتاج ہوں پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی کہنے لگی میرے والدتم کو بلا رہے ہیں تاکہ تم نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلا یا ہے تمہیں کو اس کی اجرت دیں جب موسیٰ ا ن کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنا یا تو وہ کہنے لگے خو ف نہ کرو تم اب ظالموں سے نجات پا چکے ہو ۔" (قصص:۲۲تا ۲۵)

دختر جناب شعیب

حضرت شعیب کی خدمت میں موسیٰ کی آمد ۔ شعیب کی طرف سے شادی کی پیش کش ۔حق مہر کا تعین ۔کئی سال کاکام ۔پھر واپس روانگی۔ راستہ میں بچے کی ولادت اور نبوت کا ملنا ان واقعات میں موسیٰ کی ماں کا مامتا پر ضبط، خواہر موسی کی جفا کشی اورخبرداری پھر زوجہ ٴ فرعون کا ہر مرحلہ میں حضرت موسیٰ کا تحفظ ۔ان مراحل میں عورت کی عظمت، عورت کی محبت وایثار اورنبی کی جان کے تحفظ ۔ایسے واقعات ہیں جن سے عورت کی عظمت واضح و آشکار ہوتی ہے ۔ تزویج موسیٰ قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ قَالَ إِنِّی أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلٰی أَنْ تَأْجُرَنِی ثکَلنِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَعُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللہ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ "ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا اسے نوکر رکھ لیں کیونکہ جیسے آپ نوکر رکھنا ہو تو ان سب سے بہتر وہ ہے جو طاقت ور، امانت دار ہو شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں ایک کا نکا ح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی ہے اور میں تمہیں تکلیف نہ دوں گا انشا ء اللہ تم مجھے صالحین میں سے پاوٴگے ۔موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو اوریہ جو کچھ ہم یہ کہہ رہے ہیں ا س پر اللہ ضامن ہے ۔" (قصص:۲۶تا۲۸) فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِأَہْلِہ امْکُثُوْا إِنِّیْ آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْ آتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِی مِنْ شَاطِئِی الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبَارَکَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ یَّامُوسٰی إِنِّیْ أَنَا اللہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوْسٰی أَقْبِلْ وَلَاتَخَفْ إِنَّکَ مِنَ الْآمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ ۔ "پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کی اور وہ اپنے اہل کو لیکر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی وہ اپنے اہل سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شائد وہاں سے کوئی خبر لاوٴں یاآگ کا انگارہ لے کر آوٴں تاکہ تم تاپ سکو جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی اے موسیٰ میں ہی عالمین کا پر ورد گار اللہ ہوں ۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے پھر جب موسیٰ نے عصا کوسانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم نے کہااے موسیٰ آگے آیئے اور خوف نہ کیجیے یقینا آپ محفوظ ہیں اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈل دیجیے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا ۔" (قصص:۲۹تا۳۲) حضرت موسیٰ کے واقعہ کا عجیب منظر ہے ۔ایک طرف ماں کی مامتا پھر بہن کی جفا کشی اوربھائی کے صندوق کے ساتھ چل کر اپنی محبت کا ثبوت۔ آسیہ کا اخلاص اور نور کی چمک سے ا س کے دل کی روشنی پھر مصیبت میں مبتلا حضرت موسیٰ کوان کی نیکی ۔بے چاروں کی مدد سے اب شفیق و مہربا ں بزرگ سے ملاقات۔ جس نے ان کے کام سے خوش ہوکر داماد بنا لیا ۔ جہاں حضرت موسیٰ جیسے بیٹے اور دامادکی طرح آٹھ دس سال سکون سے رہے۔ قدم قدم عورت وسیلہ سکون و راحت حضرت موسیٰ بن رہی ہے۔ کیا کہنا عظمتِ عورت کا ۔ (۱۱) ملکہ ٴ سبا حضرت سلیمان کی حکومت عظیم تھی چرند پرند حیوانات جن وغیرہ انکے تابع ، جب سفر کر تے ہوا کے دوش پر سوار سائیباں کے طور پر پرندے بالا سر ہوتے تاکہ دھوپ سے بچ جائیں ،جگہ خالی دیکھی معلوم ہوا کہ ہد ہد نہیں ہے ۔ ناراضگی کا اظہار کیا ہد ہد نے حاضری کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا تذکرہ کیا۔ ارشا د رب العزت ۔: إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَةً تَمْلِکُہُمْ وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیمٌ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہ ۔ " میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اسکے پاس ہر قسم کی نعمت موجود ہے اور اسکاایک عظیم الشان تخت ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ " (نمل: ۲۲تا۲۳) حضرت سلیمان نے خط دیا کہ وہاں ڈال آئے ۔ خط کا مضمو ن إِنَّہ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہ بِاِسْمِ اللہ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ أَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ (ملکہ نے کہا دربار لگاؤ میری طر ف ایک محترم خط آیا ہے یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے) خدا کے رحمان و رحیم کے نا م سے شروع ۔ تم میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ (نمل: ۳۰تا۳۱) امراء و وزراء سے مشورہ کیا۔ عام طور پر بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو معزز لوگ بھی ذلیل ہو جاتے ہیں ۔ طے ہوا کہ ہدیہ بھیج کر دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے۔ حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا۔ فرمایا کون ہے ۔ جوتخت بلقیس کو لائے۔ عفریت (جو جن تھا)کہنے لگا میں حاضر۔ لیکن ایک وزیر آصف بن برخیا تھا عرض کرنے لگا۔ پلک جھپکنے میں پیش کر سکتا ہوں پھر دیکھا کہ تخت سامنے موجود ہے۔ جب ملکہ بھی آ گئی ۔ تو اسے محل کی طرف بلایا گیا۔ ارشاد رب العزت : قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّةً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ إِنَّہ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ . "ملکہ سے کہا گیا محل میں داخل ہو جائیے ۔ جب سامنے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمان نے کہا یہ شیشہ سے مرصع محل ہے۔ ملکہ نے کہا۔ پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔" (نمل:۴۴) جب تک یہ عورت سورج پرست تھی ۔ کافرہ مشرکہ سزا کی مستوجب جب ایمان لائی۔ صالح عمل بجا لائی تو بارگاہ رب العزت میں معزز و مکرم ٹھہری۔ اصل مسئلہ ارتباط بہ خدا ہے اوریہاں مرد و عورت میں مسابقت ہے پس جو بازی لے جائے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا
يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟
تقویٰ اور رزق کا تعلق
مومن کی بیداری اور ہوشیاری

 
user comment