اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

انتخاب عورت

انتخاب عورت

شادی سے پہلے انسان سعی و کوشش کرکے بہترین رشتہ تلاش کرے بہترین رشتہ حسن وزبیاتی ۔تعلیم و تربیت ۔اخلاق و کردا رسے متصف ہو ۔خاندان شریف ۔ عورت عفیفہ پاک دامن۔ اور ولود(بچہ جننے والی) بانجھ عقیم سے اجتناب کیا جائے صرف مال و دولت اور خوبصورتی کافی نہیں ہے ۔ بد کردار خاندانی لڑکی ایسے ہے جیسے کوڑا کرکٹ کے وسط میں پھول ۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَةٍ وَّلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلٰئِکَ یَدْعُونَ اِلٰی النَّارِ وَاللہ یَدْعُوْا إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِہ وَیُبَیِّنُ آیَاتِہ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ. "تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں چونکہ مومنہ کنیزاس مشرکہ عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں زیادہ پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا۔ خواہ وہ مشرک تمہیں پسند ہی ہو کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتاہے ۔ اور اللہ اپنی نشانیوں کو لوگوں کے سامنے کھول کر پیش کر تا ہے ۔شائد کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ارشادِ رب العزت ہے: اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیثِیْنَ وَالْخَبِیْثُونَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ أُوْلٰئِکَ مُبَرَّئُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُونَ لَہُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ ۔ "خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کی لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں وہ ان باتوں سے پاک ہیں جو وہ لوگ بناتے ہیں انکے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔" ( سورہ نور:۲۶) پیسہ دیکھ کر شادی عورت کی دولت کی وجہ سے اسکے ساتھ شادی، حسن کو مدنظر رکھتے ہوئے ترویج نہیں بلکہ اصل چیز شرافت دیانت اور اخلاق وکردار کی پاکیزگی ہے ،رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمْ اللہ مِنْ فَضْلِہ "اگر مرد نادار و فقیر ہے تو اسے اللہ اپنے فضل سے غنی کر دے گا ۔ " (سورہ نور : ۳۲ )

حق مہر او ر قرآن

مہر ،اللہ کی طرف سے عورت کے لیے عطیہ ہے مہر دینا مرد کا احسان نہیں بلکہ عورت کا حق اور خدائی ہدیہ ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیئًا مَّرِیْئًا ۔ "اور عورتوں کے مہر انکو خوشی سے دیا کرو اگر وہ کچھ حصہ اپنی مرضی سے معاف کردیں تو اسے خوشگواری لے کر صرف سکتے ہو ۔ " (سورئہ نساء:۴) مہر کی مقدار حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر اسکی قمیت حضور کی خدمت میں پیش کی حضور نے اسی مہر کی رقم ۴۸۰ درہم سے جہیز خرید ا۔ چاند ی کی قیمت جس وقت ۴۵ روپے فی تولہ تھی اس وقت ۴۸۰ درہم یعنی ۱۴۵۵۵ روپے بنتے ہیں یہی مہر فاطمی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مہر فاطمی کے مطابق مہر ادا کرتے ہیں لیکن جہاں تک مہر شرعی کا تعلق ہے اس کی مقدار متعین نہیں بلکہ دونوں خانوادوں کی باہمی رضا مندی جس مقدار پر ہو جائے ۔ وہ جائز ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَإِنْ أَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ وَّآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا أَتَأْخُذُوْنَہ بُہْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِیْنًا وَکَیْفَ تَأْخُذُوْنَہ وَقَدْ أَفْضٰی بَعْضُکُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَّأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا "اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اورایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا کیا تم بہتان اورصریح گناہ کے ذریعہ مال لینا چاہتے ہو اور دیاہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم اسکے ساتھ مباشر ت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد وقرار لے چکی ہیں ۔ " ( سورہ نساء :۲۰۔۲۱ ) حضرت عمر ابن خطاب نے ایک دفعہ کہا حق مہر اگر زیادہ لیاگیاتو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا ایک مخدرہ نے اٹھ کر یہ آیت پڑھی اور کہا جب اللہ نے زیادہ مہر لینے کا کہا تو آپ کیسے منع کرتے ہیں ۔۔ظاہر ہے جب "پل " کی مندرجہ رقم ہوئی تو کافی زیادہ ہوگی۔ بہر حال حق مہر عورت کا حق ہے عورت کے لیے اللہ کی طرف سے عطیہ ہے اور مرد کی محبت کا اظہار ہے ۔ ادائیگی ضروری ہے ۔

وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے

ارشاد رب العزت ہے: حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّ تِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ اللاَّ تِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَائِکُمُ اللاَّ تِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَإِنْ لَّمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلَابِکُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللہ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا وَّالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ کِتَابَ اللہ عَلَیْکُمْ وَأُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَاءَ ذٰلِکُمْ أَنْ تَبْتَغُوْا بِأَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ ۔ "تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں تمہاری بیٹیاں تمہاری بہنیں تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہیں تمہاری پھوپھیاں،تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں ۔ لیکن اگر ان سے تم نے صرف عقد کیا ہو مقاربت نہ کی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا مگر جو پہلے سے ہو چکا ہوبے شک اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے اور شوہردار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں یہ تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کوتم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لاسکتے ہو۔ بشرطیکہ(نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو۔" ارشاد رب العزت ہے: وَلَاتَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ مِّنْ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاءَ سَبِیْلًا ۔ "اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہیں مگر جو کچھ جو چکا ہے سو ہو چکا یہ ایک کھلی بے حیائی ہے اور ناپسندیدہ عمل اور برا طریقہ ہے ۔" (سورہ نساء:۲۲)

کنیزوں سے نکاح

کافر عورتیں جو قید ہوکر آئیں ان سے بھی ان کی مالک کی اجازت سے نکاح کیا جاسکتاہے ۔ان کا حق مہر اور دوسری ضروریات آزاد عورت کی نسبت کم ہوتی ہیں۔ غلط کاری میں سزا بھی کم ہو تی ہے ۔ لیکن کنیزوں سے ویسے مقاربت سے نا جائزہے کسی کو حق نہیں کہ کنیز سے مجا معت کرے یہ کام حرام ہے البتہ نکاح جائز ہے ۔ ارشادِ رب العزت ہے: وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا أَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیَاتِکُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللہ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوْہُنَّ بِإِذْنِ أہْلِہِنَّ وَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوُفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَامُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ "اگر تم میں سے کوئی مالی مشکلات کی وجہ سے آزاد عورتوں سے نکاح کی قدرت نہ رکھتاہو تو اسے چاہئے کہ وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرے اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتاہے ۔ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہذا ان کے سرپر ستوں سے اجازت لے کر ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقہ سے ان کا مہر ادا کرو کہ وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بد چلنی کا ارتکاب کرنے والی نہ ہوں ۔نہ در پردہ آشنا رکھنے والی ہوں پھر نکاح میں آنے کے بعد بد کاری کا ارتکاب کریں توانکے لیے سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کیلیے مقرر ہے یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے شادی نہ کرنے(سے) تکلیف ومشقت کا خطرہ حق ہو لیکن اگر صبر کرو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا ہے رحم کرنیوالا ہے ۔" (نساء:۲۵)

نکاح متعہ

نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و موقت ۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی و متعہ میں چند چیز مشترک ہیں ۔ ۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو ۔ ۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے ۔ ۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں ۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے ۵) مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا ۔ ۷) نکاح میں طلاق کے بعد اورمتعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے ۔ عقدِ متعہ اور عقدِنکاح میں فرق ۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ ۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا ۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے ۔ ۴) نکاح دائمی ۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ ۔مدت کے اختتام پر ختم ہوجاتاہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں دونوں کی حقیقت ایک ہے صرف چند امور میں فرق ہے ۔ فقہاء اسلام سنی و شیعہ سب کا اتفاق ہے کہ نکاح متعہ اسلام میں مشروع ۔ اور جائز قرار دیا گیاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَةً وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا "پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ا نکا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقینا اللہ بڑا جاننے والا حکمت والاہے ۔" ( سورہ نساء :۲۴) متعہ کے جواز :مشروعیت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں لذا مفسر کبیر فخرالدین رازی کاقول ہے ۔یہ واضح ہے اور ہم اس کے منکر نہیں کہ متعہ مباح تھا لیکن داعی ہیں کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے نسخ مشکوک ۔جوازو اباحت یقینی۔ لہٰذا مباح ہی ہو گا۔ متعہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر، حضرت عمر ابن خطاب کے زمانہ تک جائز تھا، حضرت عمرنے منع کیا ۔ ابو نَضرہ کہتے ہیں عہد کہتا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ،ابن زبیر متعہ ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ ابن عباس کے نزدیک جا ئز ہے جابر نے بتایا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر حضرت عمر کے زما نہ میں متعہ کیا لیکن حضرت عمرنے کہا منع کیا۔ رسول اللہ وہی رسول ہیں۔ قرآن وہی قرآن ہے لیکن حضرت عمر نے کہا : متعتان کانتا فی عہد رسول اللہ انا انہی عنہما واعاقب علیہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں دومتعہ جائز تھے میں ان کو ممنوع قرار دیتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو گااسے سزادوں گا ۔ (سنن بیہقی جلد ۷، ۲۰۶) رازی، بخاری، عسقلانی ، اور ابن حجر وغیرہ ذکر کرتے ہیں روایت عمران ابن حصین متعہ کے متعلق آیت نازل ہوئی کسی آیت میں نسخ کیا ،رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا ، پھر منع نہیں فرمایا پھر ایک صاحب (عمر ابن خطاب)نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ممنوع ہے ۔ حضرت امیر کا فرمان ہے : لولاان عمر رضی اللہ عنہ نھی عن المتعة ما زنی الا شقی (تفسیر کبیر جلد۵ ص۱۳) ابو سعید الخدری جابر ابن عبداللہ انصاری حضرت عمر کے نصف زمانہ تک متعہ ہو تا رہا پھر حضرت عمر نے منع کیا۔(عمدة القاری للعینی جلد۸ ص۳۱۰) خلاصہٴ کلام متعہ کا جواز متفق علیہ مشروعیت اجماعی ہے نسخ ہوا یا نہیں، شدیداختلاف ہے۔ کیوں اب نہیں ہورہا چونکہ حضرت عمر نے منع فرمایا ۔ حضرت عمر کا فرمان سیاسی تھا کسی کی مرضی اس فرمان کو لے یا قرآن کے فرمان کو لے ۔ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَةً ۔ پھر جن عورتوں سے تم نے عقد متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر، بطور فرض ادا کرو۔( نساء ۲۴)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
قرآن کی حفاظت
حضرت زهراء سلام الله علیها کی شخصیت کے کونسے ...
میاں بیوی کا ہم کفو ہونا
اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد ۔۔ امام جعفر ...
زبان قرآن کی شناخت
استشراق اور مستشرقین کا تعارف
دس رمضان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکا یوم وفات
اخلاق کے اصول- پہلی فصل ہدایت کرنے والی نفسانی صفت
اولیاء سے مددطلبی

 
user comment