ایک سے زیاہ ز وجہ
قبل از اسلام تعدد ازواج کا رواج تھا عام طورپر محبت یا بچوں کی کثرت ایک سے زیادہ ازواج کی سبب تھی۔ بعض اوقات یہ تصور بھی کہ خاندان میں عورتیں زیادہ اور مرد کم ہیں اورعورت کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا تعددازواج کا سلسلہ چل نکلا ۔ اسمیں کوئی قید نہیں تھی، امراء مال دار لوگ بہت زیادہ شادیاں رچا لیتے تھے ۔ جو عورت اچھی محسوس ہوتی اسے اپنے گھر لے آتے ۔ اسلام نے فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ عورت کو تحفظ حاصل ہو ۔ جس سے محبت ہے زناکاری میں نہ پڑ جائے یا اس کی خواہش پوری ہو جائے لیکن اس کو محدود کر دیا…صرف چار میں ۔ پھرباقاعدہ حکم و اجازت ایک شادی کی ہے، دوسری شادی مشروط بشرط ہے اور وہ ہے انکے مابین انصاف و عدالت ۔ گویا تعداد کے لحاظ سے مہدود ۔ پھر عدالتسے بھی مشروط۔ تاکہ ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے دوسری شادی کرلی جائے لیکن انصاف کادامن چھوٹنے نہ پاتے۔ایسا نہ ہو کہ یہاں پہلی بیوی کے حقوق غصب ۔ اوردوسری راحت وعیش میں ۔ نہیں نہیں انصاف و عدالت لازم اورپھر خدائی پرستش بھی ہوگی۔ ارشادِ رب العزت ہے: فانکحوا اما طاب لکم من النساء امثنی و ثلاث و رباع فان خفتم الاقد لوا فواحدة او ما ملکت ایمانکم ذلک ادنیٰ ان لا تعولوا۔ جو دوسری عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو یا تین یا چار سے نکاح کرلو۔ تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکوگے کہ تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو کافی ہے ۔ یہ ناانصافی سے بچنے کی بہتر ین صورت ہے ۔ (نساء،۳) جو رواج پہلے چل رہے تھے کہ لوگ کثرت سے شادیاں رچاتے تھے بعض تو سو سے بھی زیادہ شادیاں کرلیتے تھے ۔اسلام نے اسے دو شرطوں سے مشروط کردیا ۔ ۱) صرف چارتک محدود کر دیا ۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دی ۔ ۲) عدالت و انصاف لازمی ہے عدم انصاف کا خوف ہو تو دوسری شادی جائز نہیں یہ سب کچھ کیوں ۔بے سہارا عورت کو سہارا مل جائے۔کثرت سے عورتوں کا نکاح ہو جائے ۔ کسی کی چاہت دل میں ہے تو غلط راستہ کی بجائے صحیح راستہ سے خواہش پوری ہوجائے ۔آج مغرب کی حالت دیکھیں بعض ممالک میں ۳۵فیصدسے زیادہ حرام زادے موجو د ہیں ۔ عورت کھلونا بن چکی ہے کمائی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔عورت کی بے چارگی ا س قدر کہ اس کا کوئی سہارا نہیں چند دن اس کو ساتھ پھر ایا پھر چھوڑ دیا پھر کہیں اور …عظمت عورت کا تقاضا اچھے مرد کا ساتھ ہے جو عزت کا محافظ ،غیرت کا محافظ اور ضروریات زندگی کا ضامن ہو ۔یہ ہے عورت کی شان
مرد عورت کا گھر
اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر میں مرد عورت بچے موجودہوتے ہیں نظام ایسا مثالی ہونا چاہیے کہ یہ گھر جنت بن جائے اکھاڑہ نہ ہو جس میں ہر وقت خرافات لڑائی جھگڑا اور چپقلش ہو ظاہر ہے کہ ایک سربرا ہ ہونا چاہئے کہ اختلاف کی صور ت میں اسکی بات سب کے لیے قابل قبول ہو اسلام نے سر براہی مر د کو دی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے : الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللہ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور یہ کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں نیک عورتیں وہی ہیں جوشوہروں کی اطاعت کرنے والی ہوں ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوں جن کی خدا نے حفاظت ملی ہے ۔ (سورہ نساء : ۳۳ ) اچھی عورت جس کے وجود سے گھر جنت بن جائے جس کی خوش اخلاقی کی وجہ سے مرد گھر میں آنے پر خوشی محسوس کرے ۔ ان کی صفات قرآن مجید نے بیان کی ہیں ارشاد رب العزت ہے: عَسٰی رَبُّہ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَہ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ۔ اگر بنی تمہیں طلاق دے دیں تو بعید نہیں کہ ان کا رب تمہارے بدلے انہیں تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے (بہتر بیویوں کی صفات) وہ عورتیں جو مسلمان مومنہ اطاعت گذار تو بہ کرنے والی عبات گذار رب پربھروسہ رکھنے والی ہوں۔(تحریم،۵) ارشاد رب العزت ہے : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَةٌ وَاللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ "عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں اللہ کی طرف سے مردوں کو عورتوں پر بر تری حاصل ہے ۔ اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے ۔"(سورہ بقرہ :۲۲۸ ) گھر کی چار دیواری میں نظام عورت نے چلانا ہے ۔ مرد کا حق عورت اسکی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے کھانا پکا نا صفائی کرنا دوسرے گھر کے دوسرے کام کاج کرنا عورت کا تفضل ہے مہربانی ہے اچھائی ہے نہ کہ واجبات میں سے ہیں اس میں مرد عورت برابر کے انسان ہیں ۔ تیری تکمیل تیری نسل کی بقا کا دارو مدار عوت پر ہے تیرے گھرمیں تیری دعوت پر دوست کی حیثیت سے بیوی کی حیثیت سے شریک کار کی حیثیت سے آئی ہے ۔ نوکرانی نہیں کنیز نہیں اچھا برتاؤ کرو یاد رکھو مرد ناراض تو عورت جنت سے دور عورت کے حقوق اد ا نہیں ہوتے تو مرد جنت سے بے بہرہ رہے گا۔
نشوزہ( نافرمان) عورت
ایک ہی جگہ ایک ہی ہے گھر میں رہنے والے انسا ن آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں اورکبھی کبھی اختلاف لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتاہے عورت خیال کرے کہ مرد کی توجہ میری طرف نہیں مرد مجھ سے نفرت کر رہاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ م بَعْلِہَا نُشُوْزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللہ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کیطرف سے بے رخی کا اندیشہ ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں ( عورت و مردصلح کی خاطر اپنے کچھ حقوق سے صرف نظر کرکے) اور صلح کر لیں اور صلح توبہرہال بہتر ہی ہے اور بخل تو ہر نفس کے سامنے دھرا رہتاہے ۔ لیکن اگر تم نیکی کرو تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارے سارے اعمال سے یقینا خوب واقف ہے ۔( سورہ نساء ۱۲۸) اختلاف کی بنیاد عام طو رپر ذات اور انا ہوتی ہے ۔ باہمی رفاقت کے لیے اگر اس سے صرف نظر کیا جائے تو مصالحت ہو جاتی ہے مصالحت کے ساتھ اکٹھے وقت گزارنا ہی اچھائی بردباری اور کامیابی کی علامت ہے ۔ عورت نافرمان ہوجائے تو اسکا طریقہ کار قرآن میں ارشا د ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا (۳۴) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ أَہْلِہ وَحَکَمًا مِّنْ أَہْلِہَا إِنْ یُّرِیْدَا إِصْلاَحًا یُّوَفِّقٰ اللہ بَیْنَہُمَا إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا ۔ "اور جن عورتوں کی سر کشی کا تمہیں خوف ہو تو انہیں نصیحت کرو اور اگر وہ باز نہ آئیں تو اپنی خوابگاہ سے الگ کردو۔پھر بھی نہ سمجھیں تو انہیں مارو پھر اگر وہ فرمانبرداربنا جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو یقینا اللہ بالا تر ااور بڑا ہے ۔ اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیاں ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں مقرر کرو اور اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کی کوشش کریں تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کرے گا یقینا اللہ بڑا علم والا ہے اور باخبر ۔"( سورہ نساء ۳۴۔۳۵) کردار سازی عورت مرد کی اچھائی ،نیکی تقویٰ اور پرہیزگاری میں ہے ۔ عورت کے لئے کسی اور مردسے تعلق رکھنا بہت بڑا گناہ ہے اور اسی طرح مرد کے لئے بھی۔ شرافت و دیانت مردو عورت کا زیور ہے عور ت مرد میں جب کردار کی خرابی پید اہو جائے وہ بدکردار ہو جائیں تو اسلام نے اس غلط کا م کی بیخ کنی کیلیے سخت سزا معین کی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِاللہ شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِیْنَ ۔ "اے نبی! جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آپ کے پاس آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکا ب کریں گیں تو( آپ بیعت لے لیں ۔"(سورہ ممتحنہ آیت ۱۲) ارشادِ رب العزت ہے : وَلَاتَقْرَبُوْا الزِّنٰیْ إِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا ۔ اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقینا یہ بڑ ی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔(سورہ اسرائیل :۳۲) ارشاد رب العزت ہے: اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَتَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَأْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللہ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَةٌ مِّنْ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ زنا کار مرد اور عورت دونوں کو ایک سو کوڑے مارو اور دین خدا کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آنا چاہیے اگرتم اللہ او ر روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور انکی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت موجود رہے۔ (سورہ نور:۲) زنا کی سزا سخت ہے لیکن زنا ثابت نہ ہونے پر تہمت کی سزا بھی بہت زیادہ ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِأَرْبَعَةِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَةً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَةً أَبَدًا وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَأَصْلَحُوْا فَإِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ۔ "اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسی(۸۰) کوڑے مارے جائیں اور انکی گواہی (پھرکبھی )ہر گز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اس صور ت میں اللہ بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والاہے ۔" (سورہ نور ۴۔۵) ارشاد رب العزت ہے : اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ إلاَّ زَانِیَةً أَوْ مُشْرِکَةً وَّالزَّانِیَةُ لَایَنْکِحُہَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ۔ زانی مرد صرف زانی یامشرکہ سے نکاح کرے گا اور زانیہ صرف زانی یا مشرک سے نکاح کرے گی اور یہ کام مومنوں پر حرام کیا گیا ہے ۔(سورہ نور : ۳) زنا بہت ہی گھناوٴنی برائی ہے زنا نسل کی خرابی۔ زنا سے برکت کا اٹھ جانا۔ زنا بارانِ رحمت کا انقطاع۔ ایسے خاندان میں نکاح نہ ہو جن کی شرافت مسلم نہیں ، ایسے نکاح بدکاروں کو ہی راس آتے ہیں۔ شرفاء کو چاہیے کہ شریف گھرانہ تلاش کریں اگرچہ وہاں افلاس نے سایہ ڈال رکھا ہو لیکن بدکاروں سے نکاح و ارتباط نہ کریں۔