اردو
Saturday 16th of November 2024
0
نفر 0

عورت کے احکام

عورت کے احکام

حیض فطرت کے مطابق ہر عورت کے لیے مخصوص ایام ہوتے ہیں جن میں وہ خون دیکھتی ہے۔ خون کی تین صورتیں ہیں حیض استحاضہ نفاس۔ حیض سرخ رنگ سیاہی مائل تیزی جلن اور حرارت رکھتا ہے جس کی مد ت کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے(حسب العادت عموماً ۶۔۷ دن ہوتا ہے جوعورت کے مزاج پر موقوف ہے ۔ استحاضہ عام پور زرد رنگ پتلاٹھنڈا اور دباؤ ۔ جلن سوزش کے بغیر باہر آتاہے اس کی مقدار و مدت معین نہیں ہے۔ نفاس وقت زچگی خون کا آنا، یہ ایک منٹ کے لیے بھی ہو سکتاہے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور عام طور پر حیض کی عادت کے مطابق ہوتا ہے ۔۔ ارشاد رب العزت ہے: وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللہ إِنَّ اللہ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ۔ "وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجے یہ ایک گندگی ہے پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور وہ جب تک پاک نہ جائیں ان کے قریب نہ جاؤ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اس طریقہ سے جاؤ کہ جس طرح تمہیں اللہ نے حکم دیاہے ۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتاہے ۔"( سورہ بقرہ : ۲۲۲) ارشاد رب العزت ہے: نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا اللہ وَاعْلَمُوْا أَنَّکُمْ مُلَا قُوہُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاونیز اپنے لئے نیک اعمال کو اگے بھیجو اور اللہ کے عذا ب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اسکی بارگاہ میں جانا ہے ۔ اور اے رسول ایمانداروں کو(نجات کی) بشارت سنا دو "۔ (سورہ بقرہ ۲۲۳) اللہ نے عورت اور مرد کے درمیان کھیت اور کسان کا تعلق قراردیا ہے کسان کھیت میں تفریح سیر سیاحت کے لیے نہیں جاتا بلکہ اس لیے جاتاہے کہ پیدا وار حاصل کر ے نسل انسانی کے کسان کو انسانیت کی اس کھیتی میں نسل کیلیے جانا ہے نیز سابقہ آیت میں فرمان ہے کہ فأتو ھنمن حیث امرکم اللہ ان کے پاس اس طرح جاو ٴ جسں طرح اللہ نے حکم دیاہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتاہے کہ دبر میں وطی جائز نہیں اس سے اجتناب کیا جائے قدموا لاانفسکم وہ نسل چھوڑ جائیے جو آپکی آخرت کے لیے کام آئے وہ تربیت یافتہ ہو تاکہ آپ کو یادرکھے۔ ایلا ء میاں بیوی کے درمیان جدائی کے سلسلہ میں ایلاء وہ رسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں عام تھی۔ ایلا کا مفہوم میاں بیوی والے تعلقات ترک کرنے کی قسم کھانا ہے۔جو انسان (میاں) اپنی بیوی سے ناراض ہوتا تو قسم کھا لیتا کہ میں جماع نہیں کروں گا۔ وہ اپنی بیوی کو اپنے اس غیر انسا نی سلوک سے ایک شدید عذاب میں مبتلا کر دیتا ،نہ رسمی طور پر طلاق دیتاہے نہ ہی اس کے قریب بھٹکتاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَا تَجْعَلُوا اللہ عُرْضَةً لِّأَیْمَانِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ وَاللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لاَ یُؤَاخِذُکُمْ اللہ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ وَاللہ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَائِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَائُوْا فَإِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ ۔ اور اللہ کو اپنی ان قسموں کا نشانہ مت بناؤ جن سے نیکی کرنے تقویٰ اختیارکرنے او رلوگوں میں صلح و آشتی سے باز رہنا مقصود ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے ۔ اللہ ان قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرتا جو تم بے توجہی سے کھاتے ہوہاں جو قسمیں سچے دل سے کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا اورا للہ خوب در گذ ر کرنے والابردبار ہے جولوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ما ہ کی مدت ہے اور اوراگر(اس دوران) رجوع کریں تو اللہ یقینا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔( سورہ بقرہ ۲۲۴۔۲۲۵۔۲۲۶) ایسے شخص کو چار ماہ کی مدت دی جائے گی قسم توڑلے اور تعلق قائم کرلے یا طلاق دے ڈالے ،تعلق روابط پیدا کرنے کی صورت میں کفارہ لازم ہے ۔جو کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا نا یا دس مسکینوں کو لباس دینا ہے ۔

ظہار

شوہر بیوی سے کہے انت علیّ کظہر امی تم میری ماں جیسی ہو یااس طرح کا کوئی لفظ جس میں بیوی کو ماں جیسا قرار دے زمانہ جاہلیت میں یہ طلاق تھی اسلام نے اس کا کفارہ معین کیا ہے ۔ ارشادِ رب العزت ہے: قَدْ سَمِعَ اللہ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْ إِلَی اللہ وَاللہ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا إِنَّ اللہ سَمِیْعٌ م بَصِیْرٌ الَّذِیْنَ یُظَاہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَائِہِمْ مَّا ہُنَّ أُمَّہَاتِہِمْ إِنْ أُمَّہَاتُہُمْ إِلاَّ اللاَّئِیْ وَلَدْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنْ الْقَوْلِ وَزُوْرًا وَإِنَّ اللہ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُوْنَ مِنْ نِّسَائِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ یَّتَمَاسَّا ذٰلِکُمْ تُوْعَظُونَ بِہ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللہ وَرَسُوْلِہِ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ أَلِیْمٌ "اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار اوراللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی اوراللہ آپ دونوں میں گفتگو سن رہا تھا اللہ یقینا بڑا سننے والا دیکھنے والاہے ۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (انہیں ماں کہہ دیتے ہیں )وہ ان کی مائیں نہیں انکی مائیں تو صرف وہی ہے جنہوں نے انہیں جناہے ۔ اور بلا شبہ یہ لوگ نا پسندیدہ باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اورا للہ یقینا بڑا در گذر کرنے والا مغفرت کرنے والاہے ۔ اور جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں پھر اپنے قول سے ہٹ جائیں تو انہیں باہمی مقاربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اس طرح تمہیں نصیحت کی جاتی ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبرہے ۔پس جسے غلام نہ ملے وہ باہمی مقاربت سے پہلے متواتر دو ماہ کے روزے رکھے اور جو ایسا بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا ئے یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھویہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور کفار کیلئے درد ناک عذاب ہے۔"( سورہ مجادلہ۱۔۴)

ولادت و رضاعت

بعد از شادی جو بچہ متولد ہووہ انہی ماں باپ کا ہو گا خدانخواستہ زناکاشائبہ ہو تب بھی بچہ باپ کا ہی سمجھاجائے گا ۔ان امھاتھم الّا لایٴ ولدنھمان کی مائیں وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور باپ وہی ہے جو شوہر ہے الولد للفراش ولد ماھر الحجر بچہ شوہر کاہوتا ہے زانی کے لئے پتھراوٴ کی سزا ہے ۔ استقرار نطفہ کے بعد سقط کرانا ناجائز او ر حرام ہے۔سقط کرانا قتل سمجھا جائے گا۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا "او رتم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں رزق دیں گے او رتم کو بھی ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے ۔" ( سورہ بنی اسرائیل: ۳۱) عورت بیما رہو معاملہ دائر ہو بچہ بچ جائے یا بچے کی ماں سقط نہ کرانے کی صورت میں ماں کی زندگی کو خطرہ ہے توسقط میں حرج نہیں ارشاد رب العزت ہے لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ م بِوَلَدِہَا وَلَامَوْلُوْدٌ لَّہ بِوَلَدِہ ۔ ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے او ر نہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے ضرر پہنچایا جائے ( سورہ بقرہ :۲۳۳) خرچ اخراجات کے معاملہ میں بھی او رزندگی کے معاملہ میں بھی ۔شادی کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو توباپ ہی کا ہو گا کسی او ر کا نہیں ! ارشادِ رب العزت ہے : وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہ وَفِصَالُہ ثَلاَثُوْنَ شَہْرًا ۔ "ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا اسکی ما ں نے تکلیف سہ کراسے پیٹ میں اٹھائے رکھا او رتکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اسکے حمل او ردودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں دودھ پلانا دوسال حمل چھ ماہ ہو جائیں گے۔ ۳۰ ماہ رضاعت دودھ پلائے۔"( سورہ احقاف : ۱۵) بچہ کا حق ہے کہ اسے دو سال دودھ پلایا جائے ۔ ارشاد رب العزت ہے : وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لاَتُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌم بِوَلَدِہَا وَلَامَوْلُودٌ لَہ بِوَلَدِہ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِمَا وَإِنْ أَرَدْتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوْا أَوْلَادَکُمْ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَاتَّقُوا اللہ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ "او رمائیں اپنے بچوں کو پو رے دوسال دودھ پلائیں ( یہ حکم )ان لوگوں کے لئے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں او ر بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کی روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا کسی پر اسکی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے نہ ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے او رنہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اس طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے ۔ پھر اگر طرفین باہمی رضا مندی او رمشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔" نیز "اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی اور سے ) دودھ پلوانا چاہوتوتم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو او راللہ کا خوف کرواو رجان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے ۔ "( سورہ بقرہ :۲۳۳) کسی عورت سے دودھ پلوایا جائے تووہ رضا عی ماں کہلوائے گی ۔ ارشادِ رب العزت ہے: وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّ تِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخْوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ ۔ او روہ مائیں جو تمہیں دودھ پلوا چکی ہیں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں۔ ( سورہ نساء :۲۳) رضاعی ماں ، ماں ہے اور رضاعت کا سلسلہ خاندان میں جاری رہے گا۔ دودھ پلانے کے لیے اجرت بھی دینی چاہیے ارشاد رب العزت ہے : فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ ۔ اگر وہ تمہارے کہنے پردودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دے دیا کرو۔ (سورہ طلاق : ۶) خواہ چپقلش کے بعد ما ں دودھ پلا رہی ہو او راجرت کی طلبگا رہو یا او رکو ئی عورت دودھ پلا نے والی ہو ۔ماں کی طرح دودھ پلانے والی بھی (رضاعی ) ماں کہلائے گی۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

كونسا قانون انسان كى كاميابى كا ضامن ہے ؟
امام محمد باقر علیہ السلام کی سیرت کے نکات
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
تمام عالم اسلام کو عید شجاع (س) مبارک ہو
قضاء وقدر الہی(حصہ سوم)
کعبہ کی اہمیت
نہج البلاغہ بطور تفسیر قرآن
برائيوں کي گندگي سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے ديں
خیر و فضیلت کی طرف میلان
بہترين عبادت کون سي ہے ؟

 
user comment