آٹھویں امام : حضرت علی رضا علیہ السلام
آپ (ع)کا مشهور لقب ”رضا“ ھے۔
آ پ (ع)کی ولادت باسعادت ۱۱/ ذیقعدہ ۱۴۸ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔
آپ (ع)کے زمانہ میںسب سے پھلاعباسی خلیفہ بنا او رآپ اپنے پدربزرگوار پر پڑنے والی تمام مشکلات میں شریک تھے، جس وقت مامون کو خلافت ملی تو اسلامی علاقوں میں بہت سی اھم مشکلات پیدا هوگئیں جن میں سے بعض یہ ھیں:
امین ومامون کے درمیان هوئی جنگ کے نتیجہ میں حکومت کی ساکھ کمزور پڑگئی اور چونکہ مامون نے ایران کو دار السلطنت بنالیا تھا لہٰذا عباسی افراد اور ان کے طرفدار برائی کیا کرتے تھے اور اسی طرح علویوں کی طرف سے مکہ مکرمہ، یمن، کوفہ، بصرہ اور خراسان سے قیام هوئے۔
چنانچہ ان تمام مشکلات کو حل کرنے کے لئے ھمیشہ مامون پریشان رہتا تھاچنانچہ اس کو کوئی چارہ کار دکھائی نہ دیا مگر یہ کہ امام علیہ السلام کو ”مرو“ (خراسان کا ایک علاقہ) میں بلالیا اور جب آپ سے ملاقات هوئی تو خلافت آپ کے سپرد کرنے کی پیش کش کی، (لیکن امام علیہ السلام نے قبول نھیں کی) اس کے بعد مامون نے ولی عہدی کے لئے بہت اصرار کیا (چنانچہ امام علیہ السلام نے مجبوراً ومصلحتاً قبول کرلیا)
مامون اس کام کے ذریعہ موجودہ حالات سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا خصوصاً عالم اسلام کے بعض مناطق میں حکومت کی مخالفت میں قیام هوچکے تھے۔لہٰذا اس حکومت میں امام رضا علیہ السلام کی شرکت (اگرچہ برائے نام ھی کیوں نہ هو) بھڑکے هوئے آگ کے شعلوں کو خاموش کرنے میں مددگار ثابت هوئی، کیونکہ ان مناطق میں حب آل علی پائی جاتی تھی اور چونکہ امام علیہ السلام اولاد علی میں سے تھے لہٰذا ان کا قیام ختم هوگیا۔
امام علیہ السلام جانتے تھے کہ مامون کا اصرار صرف ایک چال ھے کیونکہ یھی مامون مستقبل میں میرے خلاف ایک زبردست مھم چلائے گا یا بعض علویوں کے ضمیروں کو خرید کر اس تحریک کا علمدار بنادے گا۔
لیکن امام علیہ السلام اس علم کے باوجود یہ احساس کررھے تھے کہ اگر اس پیش کش (ولی عہدی) کو قبول نہ کیا تو باعث عسر وحرج هوگا کیونکہ اگر آپ قبول نہ کرتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ آپ اصلاً مستحق خلافت نھیں ھیں یا خلافت کی مھار سنبھالنے کی لیاقت نھیں رکھتے۔
اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ولی عہدی کو قبول کرلیا تاکہ مامون کا امتحان لیا جاسکے اور اس کو آزماسکیں۔
چنانچہ امام علیہ السلام رسمی طور رپر ولی عہد هوگئے۔
اس کے بعد بہت سے واقعات رونما هوئے اور امام علیہ السلام کی وفات ایسے حالات میں هوئی جن کو دیکھ کر انسان شک میں پڑجاتا ھے (اور وہ یہ کہ آپ کی شھادت مامون کے ذریعہ هوئی ھے) لیکن ان تمام تفصیلات کو یھاں ذکر نھیں کیا جاسکتا۔
امام علیہ السلام کے علمی آثار وہ عظیم مجموعہ ھے جن کا اسلامی منابع میں شمار هوتا ھے ان میں سے ایک رسالہ جس کو مامون کے لئے لکھا تھا جس کا نام ”الذھبیہ“ تھا جو طبی مسائل میں تھا اور ”طب الرضا“ کے نام سے مشهور هوا، اس رسالہ کی شرح ڈاکٹر زینی صاحب نے کی ھے، اور اس رسالہ کے مطالب او رعلم طب کے درمیان مقایسہ کیا ھے،چند سال قبل یہ رسالہ بغداد سے شایع هوچکا ھے۔
آپ کی شھادت صفر ۳۰۳ھ [87]کو طوس میں هوئی اور طوس (خراسان) میں دفن هوئے ھیں، آج آپ کے مدفن کو ”مشہد“ کھا جاتا ھے۔
نویں امام : حضرت محمدتقی علیہ السلام
آپ کے دو مشهور لقب تھے ”جواد “ اور ”تقی“ ،آپ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک ۱۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی، آپ نے خلیفہ مامون کے زمانہ میں اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ مامون جو اھل بیت (ع) اور ان کی ولایت کا جھوٹا مظاھرہ کررھا تھا۔
اور جس وقت امام رضا علیہ السلام کی وفات واقع هوئی تو لوگوں کی زبان پر امام علیہ السلام کے قتل کا الزام مامون پر لگایا جارھا تھا چنانچہ مامون نے اس افواہ کو جھوٹا ثابت کرنے اور عملی طور پر دلیل قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے امام تقی علیہ السلام سے محبت کا اظھار کیا او راپنی بیٹی امّ الفضل سے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ دونوں خاندانوںمیں جدید رشتہ داری کی بنا پر محبت پیدا هوجائے، لیکن اس کام کے لئے دوسرے عباسیوں نے اپنی ناراضگی ظاھر کی اور اصرار کیا کہ اس شادی سے صرف نظر کرے او ریہ مطالبہ کیا کہ علویوں کے ساتھ گذشتہ خلفاء کا رویہ اختیار کرے یعنی ان کے ساتھ جنگ ودشمنی کی جائے،لیکن مامون نے ان کی یہ بات نہ سنی او ران کو جنگ ودشمنی سے روکا کیونکہ اسے آل علی (ع) سے قطع تعلق کی کوئی خاص وجہ نھیں دکھائی دی اور ان کے سامنے وضاحت کی کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی عاطفہ او رمحبت کی بنا پر نھیں کررھا هوں بلکہ امام علیہ السلام کی شخصیت وفضیلت تمام علماء اور ماھرین پر واضح ھے درحالیکہ ان کاسن بھی کم ھے۔
لیکن جب ان لوگوں نے مامون کو اپنے فیصلہ پر مصمم پایا تو کھا کہ امام علیہ السلام کو مزید علم وفقہ میں مھارت حاصل کرنے دو اس وقت مامون نے کھا: ”یہ اھل بیت (ع) کی ایک فرد ھیں ان کا علم خدا کی طرف سے هوتا ھے اور اگر تم نھیں مانتے تو ان کا امتحان کرلو تاکہ تم پر بھی حقیقت واضح هوجائے۔“
چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ امام علیہ السلام کا امتحان لیا جائے اور ان میں سے بعض لوگ امتحان کے لئے تیار هوگئے، اور قاضی القضاة یحيٰ بن اکثم کو آمادہ کیا کہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کرکے شکست دیدے۔، چنانچہ امتحان کی تاریخ پهونچ گئی اور امام ویحيٰ بن اکثم کے درمیان مناظرہ هوا جس کے نتیجہ میں یحيٰ بن اکثم کو منھ کی کھانی پڑی او رامام علیہ السلام کی شخصیت فقہ اسلامی کے میدان میں روز روشن کی طرح عیاں هوگئی،اس مناظرہ میں امام علیہ السلام کی قابلیت کو دیکھ کر مامون نے اپنی لڑکی سے شادی کردی اور امام ومامون کے درمیان تعلقات بہتر هوگئے۔(ظاھراً)
لیکن جب مامون کے بعد معتصم کو خلافت ملی تو اس نے امام علیہ السلام کو بغداد بلالیا اور آپ کو ایک مخصوص گھر میں رکھا گیا لیکن آپ کی وفات ان مبھم حالات میں هوئی جن کی بنا پر معتصم پر الزام لگایا جانے لگا کہ اس نے ام الفضل کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زھر پلایا۔
اور چونکہ امام علیہ السلام معتصم کے زیر نظر تھے لہٰذا بغداد کے ان حالات میں بھی امام علیہ السلام نے وہ علمی آثار چھوڑے جن سے مشهور اسلامی کتابیں منور ھیں۔
آپ کی شھادت ذی الحجہ ۲۲۰ھ [88] میں هوئی او رآ پ کو آپ کے دادا کے پاس ”کاظمیہ“ (کاظمین) میں دفن کیا گیا۔
دسویں امام : حضرت علی نقی علیہ السلام
آپ ”نقی“ او ر”ھادی“ کے لقب سے مشهور تھے۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۵/ ذی الحجہ ۲۱۲ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔
آپ کی کچھ زندگی معتصم کے زمانہ میں گذری اور یھی وہ زمانہ تھا جس میں ”سرمن رائے“ تشکیل پائی کیونکہ اس زمانہ میں ترکوں او رممالک نے حکومت اسلامی کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کردی تھیں لہٰذا معتصم ان مشکلوںکا مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھا۔
اس کے بعد واثق کا زمانہ آیا یہ وہ زمانہ تھا جس میں امام علیہ السلام او رخلیفہ کے درمیان اچھے تعلقات رھے ھیں۔
اس کے بعد متوکل کا زمانہ آیا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں اھل بیت (ع) سے علی الاعلان دشمنی او رمقابلہ کیا جانے لگا اور لوگوں کو ان سے منحرف کیاجانے لگا۔
اور جب مدینہ میں متوکل کے والی کو امام علیہ السلام کی شان وشوکت کو دیکھ کر اپنی حکومت کے ڈگمگانے کا خوف لاحق هوا تو اس نے متوکل کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امام علیہ السلام تیری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ھیں۔
جب ان تقاریر کا سلسلہ بڑھنے لگا تو متوکل نے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر سرمن رائے بلایا تاکہ آپ او رآپ کے اھل بیت وھاں پر رھیں تاکہ لوگوں کا رجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے اور والی مدینہ کو لکھا کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کچھ محافظین بھیجے تاکہ امام علیہ السلام کے احترام واکرام کا مزید مظاھرہ هوسکے۔
چنانچہ امام علیہ السلام نے ان حالات کو دیکھ کر سفر کا ارادہ کرلیا اور سرمن رائے جانے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا اور جب امام علیہ السلام متوکل کے تیار کردہ مکان میں پهونچے، چند روز رہنے کے بعد آپ نے اس کا مکان چھوڑ دیا اور اپنے مال سے ایک مکان خریدا تاکہ خلیفہ کے مھمان بن کر نہ رھیں ، یھی وہ مکان تھا جس میں آپ کو دفن بھی کیا گیا، جو آج بھی لاکھوں افراد کی زیات گاہ ھے۔
امام علیہ السلام نے مجبوراً سرمن رائے میںقیام فرمایا، یھاں تک کہ آپ کی شھادت واقع هوئی کیونکہ ھمیشہ آپ کے خلاف سازش هوتی رھی او رآپ کو ھر طرح کی اذیت دی جانے لگی،اس جرم میں کہ یہ ھماری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے او رھماری حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔
ان تمام حالات کے بعد بھی خلیفہ کو جب بھی کوئی شرعی مشکل پیش آتی تھی تو وہ امام علیہ السلام کے پاس آکر پنا ہ لیتا تھا کیونکہ خلیفہ میں مسائل شرعی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی او رنہ ھی وہ شرعی سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔
امام علیہ السلام کے علمی آثار نفیس وقیمتی ھیں جن میں ”جبر وتفویض“ کے موضوع پر بہترین رسالہ ھے جس میں مسئلہ کے ھر پھلو پر روشنی ڈالی گئی اور اس میں موجود ہ پیچیدگیوں کا مکمل حل بیان کیا گیا ھے خلاصہ یہ کہ اس مسئلہ میں مکمل وضاحت کی گئی ھے او رآپ کے جد امجد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول: ”لا جبر ولا تفویض ، بل امر بین الامرین“ [89]کی مکمل شرح کی گئی ھے۔
آپ کی شھادت رجب ۲۵۴ھ[90] کو سامرہ میں هوئی اور آپ کو اپنے ھی گھر میں دفن کیا گیا جو ہزاروں مومنین کی زیارت گاہ بنا هوا ھے۔