اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

دوسری حدیث

دوسری حدیث

((إن رسول اللّٰہ (ص) خرج إلی تبوک واستخلف علیا فقال اٴتخلفنی فی الصبیان والنساء، قال: اٴلاترضی اٴن تکون منی بمنزلة ھارون من موسی إلا اٴنہ لیس نبی بعدی))[40]

یہ روایت، اھل سنت کی معتبر کتب صحاح اور مسانید میں ذکر هوئی ھے۔ اکابراھل سنت نے اس حدیث کے صحیح هونے پر اتفاق کو بھی نقل کیا ھے۔ ان کی گفتار کا نمونہ یہ ھے ((ھذا حدیث متفق علی صحتہ رواہ الائمة الحفاظ، کاٴبی عبد اللّٰہ البخاری فی صحیحہ، ومسلم ابن الحجاج فی صحیحہ، واٴبی داود فی سننہ، واٴبی عیسی الترمذی فی جامعہ، و اٴبی عبد الرحمان النسائی فی سننہ، وابن ماجة القزوینی فی سننہ، واتفق الجمیع علی صحتہ حتی صار ذلک اجماعا منھم، قال الحاکم النیسابوری ھذا حدیث دخل فی حدّ التواتر))[41]

اس روایت میں منزلت کے عمومی بیان کا تقاضا یہ ھے کہ حضرت موسی    (ع) کی نسبت جناب ھارون  (ع) کو جو مقام حاصل تھا پیغمبر  (ص) کی نسبت حضرت علی    (ع) کے لئے بھی وہ مقام ثابت ھے اور استثناء مقام نبوت اس عموم کی تاکید ھے۔

قرآن مجید میں حضرت ھارون (ع) کی نسبت، حضرت موسیٰ (ع) سے اس طرح بیان فرمائی گئی ھے <وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِّنْ اٴَھْلِیْةھَارُوْنَ اٴَخِیْةاشْدُدْ بِہ اٴَزْرِیْةوَاٴَشْرِکْہُ فِیْ اٴَمْرِیْ>،[42] <وَقَالَ مُوْسٰی لِاٴَخِیْہِ ھَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اٴَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ>[43]

اور یہ مقام ومنزلت پانچ امور کا خلاصہ ھے:

۱۔وزارت :

 وزیر وہ ھے جو بادشاہ کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لیتا ھے اور ان امور کو انجام دیتا ھے، اور حضرت علی(ع) کے لئے یہ مقام نہ فقط اس حدیث منزلت، بلکہ اھل سنت کی دیگر معتبر کتب ِحدیث وتفاسیر میں بھی ذکر هوا ھے۔ [44]

۲۔اخوت وبرادری :

چونکہ حضرت موسی اور ھارون علیھما السلام کے درمیان نسب کے اعتبار سے برادری تھی، رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ اس منزلت کو عقد اخوت کے ذریعے قائم فرمایا، کہ اس بارے میں شیعہ اور سنی روایات کثرت سے موجود ھیں، جن میں سے ایک روایت کا پیش کردینا کافی ھے : 

عبداللہ بن عمرکاکھنا ھے: مدینہ میں داخل هونے کے بعد پیغمبر اکرم  (ص) نے اصحاب کے درمیان اخوت وبرادری کا رشتہ برقرار کیا۔ حضرت علی(ع)  آبدیدہ هو کر آپ  (ص) کی خدمت میں  حاضر هو کر گویا هوئے: یارسول اللہ!آپ نے تمام اصحاب کو اخوت اور برادری کے رشتے میں پرو دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی قرار نھیں دیا، آپ   (ص) نے فرمایا((یا علی اٴنت اٴخی فی الدنیا و الآخرة))[45]

یہ اخوت اس امر کی نشاندھی کرتی ھے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة۔[46] کے نزول کے وقت حضرت علی علیہ السلام کی منزلت ھر مومن سے اعلی و ارفع تھی۔ کیونکہ فریقین کے منابع و مآخذ کے مطابق آنحضرت  نے اصحاب کے مقام و منزلت کے مطابق انھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تھا۔

جیسے کہ ابوبکر و عمر، عثمان و عبدالرحمن اور ابوعبیدہ و سعد بن معاذ و غیرہ کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تھا۔[47] جبکہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنی اخوت کے لئے چنا تھا۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام بنی آدم کے درمیان سب سے افضل و اشرف کیوں نہ هوں؟ جبکہ رسول اکرم  (ص) نے دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ اپنی اخوت کا صراحتاً اعلان بھی فرما دیا هو۔ یہ اخوت اس امر کو واضح کردیتی ھے کہ حضرت علی اور کائنات کی افضل ترین مخلوق یعنی رسول اکرم  (ص) کے درمیان روحی، علمی، عملی اور اخلاقی مشابہت و مساوات وجود میں آچکی تھی <وَلِکُلٍّ دَرَجَاتُ مِمَّا عَمِلُوْا>[48]

 جبکہ دنیا و آخرت کے مراتب انسان کی سعی و کوشش اور کسب و اکتساب ھی کے مرھون منت ھیں:<وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَومِ الْقِیَامَةِ فَلاَ تَظْلَمُ نَفْسُ شَیْئاً >[49]

 یقینا خداوند متعال علی بن ابی طالب علیہ السلام کے اس حق جھاد کو بہتر جانتا ھے جو آپ علیہ السلام نے خداوند متعال کے لئے انجام دیا۔ یھاں تک کہ آپ علیہ السلام اس دنیا میں اس ھستی کے ھم مرتبہ هوگئے کہ جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے یہ فرمایا: <وَ عَسٰی اَنْ یَبْعَثَکَ رَبّکَ مَقَاماً مَحْمُوداً>[50]

اس مقام و منزلت کو بجز آنحضرت کے الفاظ کے علاوہ کسی اور الفاظ میں بیان نھیں کیا جاسکتا کہ جن میںآپ  (ص)نے فرمایا: (انت اخی فی الدنیا والآخرة) اور حضرت امیر علیہ السلام، عبودیت الٰھی کے بعد اسی اخوت کے مرتبے پر افتخار کیا کرتے تھے، جیسا کہ خود آپ نے فرمایا:”انا عبد اللہ واخي رسولہ“[51]میں خدا کا بندہ اور رسول خدا  (ص) کا بھائی هوں۔ اور بروز شوری آپ(ع)نے فرمایا: کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ھے جسے رسول خدا  (ص) نے اپنا بھائی قرار دیا هوں۔[52]

پشت پناھی

بعض دیگر مروی احادیث کے مطابق رسول اکرم(ص) نے اپنی پشت کو حضرت علی(ع) کے ذریعے مضبوط و مستحکم قرار دینے کی خدا سے درخواست کی۔ خداوند متعال نے بھی نیز حضور کی دعا کو مستجاب فرمایا۔[53]

 بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے عائد کردہ فرائض میں سے ختم نبوت کا فریضہ سب سے زیادہ کٹھن اور پر خطر ھے، خاتم المرسلین کے علاوہ، جو خود بھی پشت و پناہِ انبیاء ھیں، کوئی اور اس خطیر و سنگین ذمہ داری کا بوجھ نھیں اٹھا سکتا۔

لہٰذا خداوند متعال کی جانب سے اس سنگین ذمہ داری کو صبر و تحمل سے سنبھالنے کے بعد آپ(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ذریعے اپنی پشت و بازو اور طاقت و قوت کو مستحکم و مضبوط بنانے کی خداوند تعالی سے دعا کی۔ خدا نے حضرت موسی کی دعا کی مانند آپ کی دعا کو بھی مستجاب فرمایا۔ <سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ> [54]

 رسول خدا(ص) کی یہ دعا اور خدا کی جانب سے استجابت اس امر کا ثبوت ھے کہ امر رسالت کا پایہٴ تکمیل تک پھنچا صرف اس علی بن ابی طالب کے دست و زبان کے ذریعے ھی ممکن ھے کہ جس کا ھاتھ قدرت الٰھی کے ذریعے ھر شئے پر غالب اور جس کی زبان حکمت خداوندی کے سبب ناطق ھے۔

کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ھے کہ رسول اکرم(ص)کے بعد اس ھستی کے علاوہ کوئی اور اس امت کا حامی و مددگار قرار پائے کہ جو خود رسول اکرم(ص) کا بھی حامی و مددگار تھا۔

نیز کیا یہ ممکن ھے کہ رسول اکرم(ص) کے یارو مددگار کے علاوہ امت کسی اور کو اپنا یارو مددگار قرار دے سکے؟

اصلاح امر:

<وَقَالَ مُوسیٰ لِاَخِیْہِ ھَارُوْنَ اٴخْلُفْنِي فِی قَومِی وَاَصْلِحْ>[55]

 

 

جس طرح سے جناب ھارون، حضرت موسیٰ کی قوم کے مصلح اور اصلاح امت کے سلسلے میں حضرت موسیٰ کے جانشین تھے، اسی طرح سے اس امت میں یہ مقام و منزلت حضرت امیر علیہ السلام سے مخصوص ھے۔ اور بغیر کسی قید و شرط کے ھر قسم کی اصلاح کرنا اسی شخص کی شان هوسکتی ھے جو خود ”ھر قسم“ کی صلاح و کمال سے متصف هو۔ لہٰذا کسی بھی قسم کی صلاح کے کسی بھی مرتبے و درجے پر فائز شخص مذکورہ بالا منزلت پر فائز نھیں هوسکتا۔ وھی صلاح جو قرآن مجید میں حضرت یحیی < وَسَیِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِیًّا مِنْ الصَّلِحِینَ>[56]

اور حضرت عیسی کے لئے <وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَمِنْ الصَّلِحِینَ >[57] بیان کی گئی ھے۔

شرکت در امر:

جس طرح سے حضرت ھارون، حضرت موسی کے شریک تھے، مذکورہ حدیث کے مطابق سوائے نبوت کے یھی مقام و منزلت حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ھے۔

پیامبر اکرم(ص) کے مناصب میں سے ایک منصب اس کتاب کی تعلیم ھے جس میں تمام چیزیں بیان کردی گئی ھیں۔ نیز اس حکمت کی تعلیم بھی آپ(ص)ھی کی ذمہ داری ھے جس کے بارے میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ھے۔ <یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اٴُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا>[58]

 <وَاٴَنزَلَ اللهُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیمًا> [59]

  بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے حضور اکرم(ص) پر نازل کردہ کتاب و حکمت کے علوم صرف سابقہ انبیاء و مرسلین پر نازل کردہ علوم کے ھی حامل نھیں بلکہ مزید علوم کے بھی حامل ھیں اور یہ از دیاد و اضافہ آنحضرت(ص)کی نبوت عامہ رسالت خاتمیت نیز تمام انبیاء اور دیگر تمام مخلوقات الٰھی پر آپ کی برتری و بزرگی کے سبب ھے۔

اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان حکم صادر کرنا بھی آنحضرت کے فرائض رسالت میں سے ھے۔<لِیُبَیِّنَ لَہُمْ الَّذِی یَخْتَلِفُونَ فِیہِ >[60]

< إِنَّا اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللهُ >[61]

مزید برآں حضرت ختمی مرتبت کی شان رسالت میں مومنین پر خود ان سے زیادہ باختیار اور اولی هونا بھی شامل ھے۔ بنا برایں حضرت علی علیہ السلام اس ھستی کے شریک کار ھیں جس کے ھاتھ نظام تکوین و تشریع کی ولایت ھے۔

خلافت:

جس طرح سے جانب ھارون، حضرت موسی کے خلیفہ تھے، مذکورہ، حدیث کے ذریعے جناب امیر علیہ السلام کی خلافت بلا فصل بھی ثابت هوجاتی ھے۔

خلیفہ اور جانشین اس شخص کا وجود تنزیلی اور قائم مقام ھے جس کے مقام پر وہ خلیفہ مسند نشیں هوا ھے، اس کی غیبت اور عدم موجودگی کے ذریعے پیدا هونے والے خلاء کو خلیفہ ھی پر کرتاتھا۔

جناب خاتم الانبیاء کا جانشین کسی بھی نبی کے جانشین، بلکہ تمام کے تمام انبیاء کی بیک وقت جانشینی کے ساتھ بھی قابل مقایسہ و موازنہ نھیں۔ کیونکہ ختمی مرتبت کا جانشین اس ھستی کا جانشین ھے کہ آدم سے عیسیٰ بن مریم (ع)تک تمام انبیاء اس کے لواء و علم تلے ھیں۔ عرش کے سائے سے کس طرح اس شئے کا موازنہ کیا جاسکتا ھے جو عرش کے سائے سے بھی ادنی هو۔

جی ھاں جناب ھارون، حضرت موسی کے خلیفہ ھیں، اس کے جانشین ھیں کہ جس کی منزلت کے بارے میں خداوند متعال نے یوں فرمایا ھے: <وَنَادَیْنَاہُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْاٴَیْمَنِ وَقَرَّبْنَاہُ نَجِیًّا>[62]

لیکن علی بن ابی طالب، خاتم النبیین کا خلیفہ ھے۔ اس کا جانشین ھے کہ جس کی منزلت کو خدا نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ھے <ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اٴَوْ اٴَدْنَی >[63]

ابان احمر سے روایت صحیحہ میں منقول ھے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے ابان! لوگ کس طرح سے امیر المومنین کی اس بات کا انکار کرتے ھیں کہ آپ(ع)نے فرمایا: اگر میں چاھوں تو اپنے پیر کو دراز کرکے شام میں پسر ابوسفیان کے سینے پردے ماروں اور اسے اس کے تخت سے نیچے لاکھینچوں لیکن اس بات کا انکار نھیں کرتے کہ آصف، وصیٴ سلیمان، سلیمان کے دربار میں سلیمان کی پلک جھپکنے سے قبل تخت بلقیس کو لانے کی طاقت رکھتاتھا!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر ...
عید فطر احادیث کی روشنی میں
عصمت انبيائ
قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب ...
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم تحفہ
امير المۆمنين حضرت علي (ع) شيخ مفيد کے مقتديٰ
بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اچھے گھرانے کي خوبياں
دربارِ یزید میں اثراتِ خطباتِ جنابِ زینب۴ اور ...
کیا انسانوں کی سعادت و شقاوت ذاتی ھوتی ہے؟

 
user comment