قرآن مجید پر اعتراضات کے جوابات
1۔ کیا قرآن مجید میں تحریف ھوئی ھے؟
شیعہ وسنی علماکے یھاں مشھور و معروف یھی ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، اور مو جودہ قرآن کریم وھی قرآن ھے جو پیغمبر اکرم (ص)پر نازل ھوا ، اوراس میں ایک لفظ بھی کم و زیاد نھیں ھوا ھے۔
قدما اور متاخرین میں جن شیعہ علمانے اس حقیقت کی وضاحت کی ھے ان کے اسما درج ذیل ھیں:
۱۔ مرحوم شیخ طوسی(رہ) جو ”شیخ الطائفہ“ کے نام سے مشھور ھیں، موصوف نے اپنی مشھور و معروف کتاب ”تبیان“ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے۔
۲۔ سید مرتضیٰ (رہ) ، جو چوتھی صدی کے عظیم الشان عالم ھیں۔
۳۔ رئیس المحدثین مرحوم شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ (رہ) ، موصوف شیعہ عقیدہ بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے“۔
۴۔ جلیل القدر مفسرقرآن مرحوم علامہ طبرسی، جنھوں نے اپنی تفسیر (مجمع البیان) کے مقدمہ میں اس سلسلہ میں ایک واضح اور مفصل بحث کی ھے۔
۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو علمائے متاخرین میں عظیم مرتبہ رکھتے ھیں۔
۶۔ مرحوم محقق یزدی(رہ) نے اپنی کتاب عروة الوثقیٰ میں قرآن میں تحریف نہ ھونے کے اقوال کو اکثر شیعہ مجتھدین سے نقل کیا ھے ۔
۷۔ نیز بہت سے جید علماجیسے ”شیخ مفید(رہ)“ ، ”شیخ بھائی“، قاضی نور اللہ“ اور دوسرے شیعہ محققین نے اسی بات کو نقل کیا ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اھل سنت کے علمااور محققین کا بھی یھی عقیدہ ھے کہ قرآن کریم میں تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اگرچہ بعض شیعہ اور سنی محدثین جو قرآن کریم کے بارے میں زیادہ معلومات نھیں رکھتے تھے، اس بات کے قائل ھوئے ھیں کہ قرآن کریم میں تحریف ھوئی ھے، لیکن دونوں مذھب کے عظیم علماکی روشن فکری کی بنا پر یہ عقیدہ باطل قرار دیا گیا اور اس کو بھُلادیا گیا ھے۔
یھاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ھیں: ”قرآن کریم کی نقلِ صحت اتنی واضح اور روشن ھے جیسے دنیا کے مشھور و معروف شھروں کے بارے میں ھمیں اطلاع ھے، یا تاریخ کے مشھور و معروف واقعات معلوم ھیں“۔
مثال کے طور پر کیا کوئی مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے مشھور و معروف شھروں کے وجود میں شک کرسکتا ھے؟ اگرچہ کسی انسان نے ان شھروں کو نزدیک سے نہ دیکھا ھو، یا انسان ایران پر مغلوں کے حملے ، یا فرانس کے عظیم انقلاب یا پھلی اور دوسری عالمی جنگ کا انکار کرسکتا ھے؟!
پس جیسے ان کا انکار اس لئے نھیںکر سکتے کہ یہ تمام واقعات تواتر کے ساتھ ھم نے سنے ھیں، توقرآن کریم کی آیات بھی اسی طرح ھیں ، جس کی تشریح ھم بعد میں بیان کریں گے۔
لہٰذا جو لو گ اپنے تعصب کے تحت شیعہ اھل سنت کے درمیان اختلاف پیدھا کرنے کے لئے تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتے ھیں تو وہ اس نظریہ کو باطل کرنے والے دلائل کیوں بیان نھیں کرتے جو خود شیعہ علماکی کتابوں میں موجود ھيں ؟!
کیا یہ بات جائے تعجب نھیں ھے کہ ”فخر الدین رازی“ جیسا شخص (جو ”شیعوں“ کی نسبت بہت زیادہ متعصب ھے) سورہ حجر کی آیت نمبر ۹ کے ذیل میں کہتا ھے کہ یہ :آیہ ٴ شریفہ <إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ> شیعوں کے عقیدہ کو باطل کرنے کے لئے کافی ھے ،جو قرآن مجید میں تحریف ( کمی یا زیادتی) کے قائل ھیں۔
تو ھم فخر رازی کے جواب میں کہتے ھیں: اگر ان کی مراد بزرگ شیعہ محققین ھیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ھے، اور اگران کی مرادبعض علما ء کا ضعیف قول ھے تو اس طرح کا نظریہ تو اھل سنت کے یھاں بھی پایا جاتا ھے، جس پر نہ اھل سنت توجہ کرتے ھیں اور نہ ھی شیعہ علماتوجہ کرتے ھیں۔
چنا نچہ مشھور و معروف محقق ”کاشف الغطاء“ اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں فرماتے ھیں:
”لارَیبَ اٴنَّہُ (اٴی القرآن) محفوظٌ مِنَ النُّقْصَانِ بحفظِ الملک الدَّیان کما دَلَّ علَیہِ صَریحُ القُرآنِ وَإجمَاع العلماء فِی کُلِّ زمان ولا عبرة بنادر“[1]
”اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، کیونکہ خداوندعالم اس کا محافظ ھے، جیسا کہ قرآن کریم اور ھر زمانہ کے علماکا اجماع اس بات کی وضاحت کرتا ھے اور شاذو نادر قول پر کوئی توجہ نھیں دی جاتی“۔
تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی غلط نسبتیں موجود ھیں جو صرف تعصب کی وجہ سے دی گئی ھیں جبکہ ھم جانتے ھیں کہ ان میں سے بہت سی نسبتوں کی علت اور وجہ صرف اور صرف دشمنی تھی، اور بعض لوگ اس طرح کی چیزوں کو بھانہ بنا کر کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوںکے درمیان اختلاف کر ڈالیں۔
اورنوبت یھاں تک پھنچی کہ حجاز کا مشھور و معروف موٴلف ”عبد اللہ علی قصیمی “ اپنی کتاب ”الصراع“ میں شیعوں کی مذمت کرتے ھوئے کہتا ھے:
”شیعہ ھمیشہ سے مسجد کے دشمن رھے ھیں! اور یھی وجہ ھے کہ اگر کوئی شیعہ علاقے میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک دیکھے تو بہت ھی کم مسجدیں ملتی ھیں“ !![2]
ذرا دیکھے تو سھی ! کہ شیعہ علاقوں میں کس قدر مساجد موجود ھیں، شھر کی سڑکوں پر، گلیوں میں اوربازاروں میںبہت زیادہ مسجدیں ملتی ھیں، کھیں کھیں تو مسجدوں کی تعداد اتنی ھوتی ھے کہ بعض لوگ اعتراض کرنے لگتے ھیں کہ کافی ھے، ھمارے کانوں میں چاروں طرف سے اذانوں کی آوازیں آتی ھیں جن سے ھم پریشان ھیں، لیکن اس کے باوجود مذکورہ موٴلف اتنی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ رھے ھیں جس پرھمیں ھنسی آتی ھے چونکہ ھم شیعہ علاقوں میں رہ رھے ھیں، لہٰذا فخر الدین رازی جیسے افراد مذکورہ نسبت دینے لگیں تو ھمیں کوئی تعجب نھیں ھونا چاہئے۔[3]
2۔ قرآن کریم کس طرح معجزہ ھے؟
ھم پھلے قرآن کریم کی عظمت کے سلسلہ میں چند نامور افراد یھاں تک کہ ان لوگوں کے اقوال بھی نقل کریں گے کہ جن لوگوں پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ھے :
۱۔ ابو العلاء معرّی (جس پر قرآن کریم سے مقابلہ کرنے کا الزام بھی ھے) کہتا ھے:
اس بات پر سبھی لو گ متفق ھیں (چاھے وہ مسلمان ھوں یا غیر مسلمان) کہ حضرت محمد (ص)پر نازل ھونے والی کتاب نے لوگوں کی عقلوں کو مغلوب اور مبھوت کردیا ھے، اور ھر ایک اس کی مثل و مانند لانے سے قاصر ھے، اس کتاب کا طرز ِبیان عرب ماحول کے کسی بھی طرز بیان سے ذرہ برابر بھی مشابہت نھیں رکھتا ، نہ شعر سے مشابہ ھے، نہ خطابت سے، اور نہ کاھنوں کے مسجع سے مشابہ ھے،اس کتاب کی کشش اور اس کا امتیاز اس قدرعالی ھے کہ اگر اس کی ایک آیت دوسرے کے کلام میں موجود ھو تو اندھیری رات میں چمکتے ھوئے ستاروں کی طرح روشن ھوگی!“۔
۲۔ ولید بن مغیرہ مخزومی، ( جو شخص عرب میں حسن تدبیر کے نام سے شھرت رکھتا تھا)اور دور جاھلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ”ریحانہ قریش“ (یعنی قریش کا سب سے بہترین پھول) کھا جاتا تھا، یہ شخص پیغمبر اکرم (ص)سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ”بنی مخزوم“ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ھے:
” خدا کی قسم میں نے محمد (ص) سے ایسا کلام سنا ھے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ھے اور نہ پریوں کے کلام سے، ”إنَّ لَہُ لحلاوة، و إِنَّ علیہ لطلاوة و إنَّ اعلاہ لمُثمر و إنَّ اٴسفلہ لمغدِق، و اٴنَّہ یَعلو و لا یُعلی علیہ“ (اس کے کلام کی ایک مخصوص چاشنی ھے، اس میں مخصوص خوبصورتی پائی جاتی ھے، اس کی شاخیں پُر ثمر ھیں اور اس کی جڑیں مضبوط ھیں، یہ وہ کلام ھے جو تمام چیزوں پر غالب ھے اور کوئی چیز اس پر غالب نھیں ھے۔)[4]
۳۔ کارلائل۔ یہ انگلینڈ کا مورخ اور محقق ھے جو قرآن کے حوالہ سے کہتا ھے:
”اگر اس مقدس کتاب پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس کے مضا مین بر جستہ حقائق اور موجودات کے اسراراس طرح موجزن ھیں جس سے قرآن مجید کی عظمت بہت زیادہ واضح ھوجاتی ھے، اور یہ خود ایک ایسی فضیلت ھے جو صرف اور صرف قرآن مجید سے مخصوص ھے، اور یہ چیز کسی دوسری علمی، سائنسی اور اقتصادی کتاب میں دیکھنے تک کو نھیں ملتی، اگرچہ بعض کتابوں کے پڑھنے سے انسان کے ذھن پر اثر ھوتا ھے لیکن قرآن کی تاثیر کا کوئی موازنہ نھیں ھے، لہٰذا ان باتوں کے پیش نظر یہ کھا جائے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت، پاکیزہ احساسات، برجستہ عنوانات اور اس کے اھم مسائل و مضامین میں سے ھے ھر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ھیں، وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اور سعادت بشری کا باعث ھیں اس میں ان کی انتھا ھے اور قرآن وضاحت کے ساتھ ان فضائل کی نشاندھی کرتا ھے۔[5]
۴۔ جان ڈیون پورٹ: یہ کتاب ”عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن“ کا مصنف ھے، قرآن کے بارے میں کہتا ھے: ”قرآن نقائص سے اس قدر مبرا و منزہ ھے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نھیں ھے، ممکن ھے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھ لے اور ذرا بھی تھکان و افسردگی بھی محسوس نہ کرے“۔[6]
اس کے بعد مزید لکھتا ھے: سب اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلہ قریش کے لب و لہجہ میں نازل ھوا ھے اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیھات سے معمور ھے“۔[7]
۵۔ گوئٹے: جرمنی شاعر اور دانشور کہتا ھے:
”قرآن ایسی کتاب ھے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے روگردانی کرنے لگتا ھے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ھوجاتا ھے او ربے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ھوجاتا ھے“۔
یھی گوئٹے ایک اور جگہ لکھتا ھے:
”سالھا سال خدا سے نا آشنا پوپ ھمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمدکی عظمت سے دور رکھے رھے مگر علم و دانش کی شاھراہ پر جتنا ھم نے قدم آگے بڑھایاتو جھالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نھیں ھوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس نے دنیا کے علم و دانش پر گھرا اثر کیا ھے او رآخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محور قرار پائے گی“۔
مزید لکھتا ھے: ”ھم ابتدا میں قرآن سے روگرداں تھے لیکن زیادہ وقت نھیں گزرا کہ اس کتاب نے ھماری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور ھمیں حیران کردیا یھاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ھم نے سرِتسلیم خم کردیا۔[8]
۶۔ول ڈیورانٹ: یہ ایک مشھور مورخ ھے ، لکھتا ھے:
”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس، عدالت اور تقویٰ پیدا کیا ھے جس کی مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نھیں ملتی“۔
۷۔ ژول لابوم: یہ ایک فرانسیسی مفکر ھے اپنی کتاب ”تفصیل الآیات“ میں کہتا ھے:
”دنیا نے علم و دانش مسلمانوں سے لیا ھے اور مسلمانوں نے یہ علوم قرآن سے لئے ھیں جو علم و دانش کا دریا ھے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نھریں جاری ھوتی ھیں“۔
۸۔ دینورٹ : یہ ایک اور مستشرق ھے، لکھتا ھے: ”ضروری ھے کہ ھم اس بات کا اعتراف کریں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رائج ھیں زیادہ تر قرآن کی برکت سے ھیں اور ھم مسلمانوں کے مقروض ھیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شھر ھے“۔[9]
۹۔ ڈاکٹر مسز لورا واکسیاگلیری: یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ھے، ”پیش رفت سریع اسلام“ میں لکھتی ھے: ”اسلام کی کتاب آسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ھے۔۔۔۔ قرآن ایک ایسی کتاب ھے جس کی نظیر پیش نھیں کی جاسکتی، قرآن کا طرز و اسلوب گزشتہ ادبیات میں نھیں پایا جاتا، اور یہ طرز روحِ انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتا ھے وہ اس کے امتیازات اور بلندیوں سے پیدا ھوتی ھے کس طرح ممکن ھے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب ،محمدکی خود ساختہ ھو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نھیں کی، ھمیں اس کتاب میں علوم کے خزانے اور ذخیرے نظر آتے ھیں جو نھایت ھوش مند اشخاص، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست مدارو اور قانون داں لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ھیں، اسی بنا پر قرآن کریم کسی تعلیم یافتہ مفکر اور عالم کا کلام نھیں ھوسکتا“۔[10]،[11]
قرآن مجید کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ھے کہ پورے قرآن میں کوئی تضاد اور اختلاف نھیں پایا جاتا، اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مطالب پر توجہ فرمائیں:
” انسانی خواھشات میں ھمیشہ تبدیلی آتی رہتی ھے، تکامل اور ترقی کا قانون عام حالات میں انسان کی فکر و نظر سے متاثر رہتا ھے، اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ھے، اگر ھم غور کریں تو ایک موٴلف کی تحریر ایک جیسی نھیں ھوتی، بلکہ کتاب کے شروع اورآخر میں فرق ھوتاھے، خصوصاً اگر کوئی شخص ایسے مختلف حوادث سے گزرا ھو، جو ایک فکری ، اجتماعی اور اعتقادی انقلاب کے باعث ھوں، تو ایسے شخص کے کلام میں یکسوئی اور وحدت کا پایا جانا مشکل ھے، خصوصاً اگر اس نے تعلیم بھی حاصل نہ کی ھو، اور اس نے ایک پسماندہ علاقہ میں پرورش پائی ھو۔
لیکن قرآن کریم ۲۳ سال کی مدت میںاس وقت کے لوگوں کی تربیتی ضرورت کے مطابق نازل ھوا ھے، جبکہ اس وقت کے حالات مختلف تھے، لیکن یہ کتاب موضوعات کے بارے میں متنوع گفتگو کرتی ھے، اور معمولی کتابوں کی طرح صرف ایک اجتماعی یا سیاسی یا فلسفی یا حقوقی یا تاریخی بحث نھیں کرتی ، بلکہ کبھی توحید اور اسرار خلقت سے بحث کرتی ھے اور کبھی احکام و قوانین اور آداب و رسوم کی بحث کرتی ھے اور کبھی گزشتہ امتوں اور ان کے ھلا دینے والے واقعات کو بیان کرتی ھے ، ایک موقع پر وعظ و نصیحت ، عبادت اور انسان کے خدا سے رابطہ کے بارے میں گفتگو کرتی ھے۔
او رڈاکٹر ”گوسٹاولبن“ کے مطابق مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید صرف مذھبی تعلیمات اور احکام میں منحصر نھیں ھے بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور اجتماعی احکام بھی اس میں درج ھیں۔
عام طور پر ایسی کتاب میں متضاد باتیں، متناقض گفتگو اور بہت زیادہ اتار چڑھاؤپایا جاتاھے، لیکن اس کے باوجود بھی ھم دیکھتے ھیں کہ اس کی آیات ھر لحاظ سے ھم آھنگ او رھر قسم کی تناقض گوئی سے خالی ھيں، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ھے کہ یہ کتاب کسی انسان کا نتیجہٴ فکر نھیں ھے بلکہ خداوندعالم کی طرف سے ھے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس حقیقت کو بیان کیا ھے“۔[12] ،[13]
سورہ ھود کی آیت نمبر ۱۲سے ۱۴ تک ایک بار پھر قرآن مجید کے معجزہ ھونے کو بیان کررھی ھیں یہ ایک عام گفتگو نھیں ھے، اور کسی انسان کا نتیجہ فکر نھیں ھے، بلکہ یہ آسمانی وحی ھے جس کا سرچشمہ خداوندعالم کا لا محدود علم و قدرت ھے ،اور اسی وجہ سے چیلنج کرتی ھے اور تمام دنیا والوں کو مقابلہ کی دعوت دیتی ھے ، لیکن خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ کے لوگ بلکہ آج تک بھی، اس کی مثل لانے سے عاجز ھیں ، چنانچہ انھوں نےبہت سی مشکلات کو قبول کیا ھے لیکن قرآنی آیات سے مقابلہ نہ کیا، جس سے نتیجہ نکلتا ھے کہ نوع بشر اس کا جواب نھیںلا سکتا تو اگر یہ معجزہ نھیں ھے تو اور کیا ھے؟
قرآن کی یہ آواز اب بھی ھمارے کانوں میں گونج رھی ھے، اور یہ ھمیشہ باقی رھنے والا معجزہ اب بھی دنیا والوں کو اپنے مقابلہ کی دعوت دے رھا ھے اور دنیا کی تمام علمی محفلوں کو چیلنج کررھا ھے ، اور یھی نھیں کہ صرف فصاحت و بلاغت یعنی تحریر کی حلاوت،اس کی جذابیت اور واضح مفھوم کو چیلنج کیا ھے بلکہ مضامین کے لحاظ سے بھی چیلنج ھے ایسے علوم جو اس وقت کے لوگوں کے سامنے نھیں آئے تھے، ایسے قوانین و احکام جو انسان کی سعادت اور نجات کا باعث ھیں، ایسا بیان جو ھر طرح کے تناقض او رٹکراؤ سے خالی ھے، ایسی تاریخ جو ھر طرح کے خرافات اور بےھو دہ باتوں سے خالی ھو۔[14]
یھاں تک سید قطب اپنی تفسیر ”فی ظلال“ میں بیان کرتے ھیں کہ (سابق) روس کے مستشرقین نے ۱۹۵۴ء میں ایک کانفرس کی تو بہت سے مادیوں نے قرآن مجید میں عیب نکالنا چاھے
تو کھا:یہ کتاب ایک انسان (محمد) کا نتیجہ فکر نھیں ھوسکتی بلکہ ایک بڑے گروہ کی کاوشوں کا نتیجہ ھے! یھاں تک کہ اس کے بارے میں یہ بھی یقین نھیں کیا جاسکتا کہ یہ جزیرة العرب میں لکھی گئی ھے بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ اس کا کچھ حصہ جزیرة العرب سے باھر لکھا گیا ھے!![15]
چونکہ یہ لوگ خدا اور وحی کا انکار کرتے ھیں ،دوسری طرف قرآن مجید کو جزیرة العرب کے انسانی افکار کا نتیجہ نہ مان سکے، لہٰذا انھوں نے ایک مضحکہ خیز بات کھی اور اس کو عرب اور غیر عرب لوگوں کا نتیجہ فکر قرار دے دیا، جبکہ تاریخ اس بات کا بالکل انکار کرتی ھے۔[16]
3۔ کیا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت میں منحصرھے؟
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ قرآن مجید کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت اور شیریں بیانی سے مخصوص نھیں ھے (جیسا کہ بعض قدیم مفسرین کا نظریہ ھے) بلکہ اس کے علاوہ دینی تعلیمات ، اور ایسے علوم کے لحاظ سے جو اس زمانہ تک پہچانے نھیں گئے تھے، احکام و قوانین، گزشتہ امتوں کی تاریخ ھے کہ جس میں کسی طرح کی غلط بیانی اور خرافات نھیں ھے، اور اس میں کسی طرح کا کوئی اختلاف اور تضاد نھیں ھے ، یہ تمام چیزیں اعجاز کا پھلو رکھتی ھیں۔
بلکہ بعض مفسرین کا تو یہ بھی کھنا ھے کہ قرآن مجید کے الفاظ اور کلمات کا مخصوص آھنگ اور لہجہ بھی اپنی قسم میں خود معجز نما ھے۔
اوراس موضوع کے لئے مختلف شواھد بیان کئے ھیں، منجملہ ان میں مشھور و معروف مفسر سید قطب کے لئے پیش آنے والے واقعات ھیں،موصوف کہتے ھیں:
میں دوسروںکے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں گفتگو نھیں کرتا بلکہ صرف اس واقعہ کو بیان کرتا ھوں جو میرے ساتھ پیش آیا، اور ۶ افراد اس واقعہ کے چشم دید گواہ ھیں ( خود میں اور پانچ دوسرے افراد )
ھم چھ مسلمان ایک مصری کشتی میں” بحراطلس“ میں نیویورک کی طرف سفر کر رھے تھے، کشتی میں ۱۲۰ عورت مرد سوار تھے، اور ھم لوگوں کے علاوہ کوئی مسلمان نھیں تھا، جمعہ کے دن ھم لوگوں کے ذھن میں یہ بات آئی کہ اس عظیم دریا میں ھی کشتی پر نماز جمعہ ادا کی جائے، ھم چاہتے تھے کہ اپنے مذھبی فرائض کو انجام دینے کے علاوہ ایک اسلامی جذبہ کا اظھار کریں، کیونکہ کشتی میں ایک عیسائی مبلغ بھی تھا جو اس سفر کے دوران عیسائیت کی تبلیغ کررھا تھا یھاں تک کہ وہ ھمیں بھی عیسائیت کی تبلیغ کرنا چاہتا تھا!۔
کشتی کا ”ناخدا “ایک انگریز تھا جس نے ھم کو کشتی میں نماز جماعت کی اجازت دیدی، اور کشتی کا تمام اسٹاف افریقی مسلمان تھا، ان کو بھی ھمارے ساتھ نماز جماعت پڑھنے کی اجازت دیدی ، اور وہ بھی اس بات سے بہت خوش ھوئے کیونکہ یہ پھلا موقع تھا کہ جب نماز جمعہ کشتی میں ھورھی تھی!
حقیر (سید قطب) نے نماز جمعہ کی امامت کی ، اور قابل توجہ بات یہ ھے کہ سبھی غیر مسلم مسافر ھمارے چاروں طرف کھڑے ھوئے اس اسلامی فریضہ کے ادائیگی کو غور سے دیکھ رھے تھے۔
نماز جمعہ تمام ھونے کے بعد بہت سے لوگ ھمارے پاس آئے اور اس کامیابی پر ھمیں مبارک باد پیش کی، جن میں ایک عورت بھی تھی جس کو ھم بعد میں سمجھے کہ وہ عیسائی ھے اور یوگو سلاویہ کی رھنے والی ھے اور ٹیٹو او رکمیونیزم کے جھنم سے بھاگی ھے!!
اس پر ھماری نماز کا بہت زیادہ اثر ھوایھاں تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ خود پر قابو نھیں پارھی تھی۔
وہ سادہ انگریزی میں گفتگو کررھی تھی اور بہت ھی زیادہ متاثر تھی ایک خاص خضوع و خشوع میں بول رھی تھی، چنانچہ اس نے سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ تمھارا پادری کس زبان میں پڑھ رھا تھا، ( وہ سوچ رھی تھی کہ نماز پڑھانے والا پادری کوئی روحانی ھونا چاہئے، جیسا کہ خود عیسائیوں کے یھاں ھوتا ھے ، لیکن ھم نے اس کو سمجھایا کہ اس اسلامی عبادت کو کوئی بھی باایمان مسلمان انجام دے سکتا ھے) آخر کار ھم نے اس سے کھا کہ ھم عربی زبان میں نماز پڑھ رھے تھے۔
اس نے کھا: میں اگرچہ ان الفاظ کے معنی کو نھیں سمجھ رھی تھی، لیکن یہ بات واضح ھے کہ ان الفاظ کا ایک عجیب آھنگ اور لہجہ ھے اور سب سے زیادہ قا بل تو جہ بات مجھے یہ محسوس ھو ئی کہ تمھارے امام کے خطبوں کے درمیان کچھ ایسے جملے تھے جو واقعاً دوسروں سے ممتاز تھے، وہ ایک غیر معمولی اور عمیق انداز کے محسوس ھورھے تھے، جس سے میرا بدن لرز رھاتھا، یقینا یہ کلمات کوئی دوسرے مطالب تھے، میرا نظریہ یہ ھے کہ جس وقت تمھارا امام ان کلمات کو اداکرتا تھا تو اس وقت ”روح القدس“ سے مملو ھوتا تھا!!
ھم نے کچھ غور و فکر کیا تو سمجھ گئے کہ یہ جملے وھی قرآنی آیات تھے جو خطبوں کے درمیان پڑھے گئے تھے واقعاً اس موضوع نے ھمیں ھلاکر رکھ دیا اور اس نکتہ کی طرف متوجہ ھوئے کہ قرآن مجید کا مخصوص لہجہ اتنا موٴثر ھے کہ اس نے اس عورت کو بھی متاثر کردیا جو ایک لفظ بھی نھیں سمجھ سکتی تھی لیکن پھر بھی اس پر بہت زیادہ اثر ھوا۔[17]([18])