4۔قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟
جیسا کہ ھم سورہ بقرہ میں پڑھتے ھیں:
< وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ ۔۔۔> ([19])
”اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کو ئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤ“۔
یھاں پر یہ سوال اٹھتا ھے کہ دشمنان اسلام قرآن کی مثل کیسے نہ لاسکے؟
اگر ھم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اس سوال کا جواب آسانی سے روشن ھوجاتا ھے، کیونکہ اسلامی ممالک میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اور آپ کی وفات کے بعد خود مکہ اور مدینہ میں بہت ھی متعصب دشمن، یھود اور نصاریٰ رہتے تھے جو مسلمانوں کو کمزور بنانے کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے تھے، ان کے علاوہ خود مسلمانوں کے درمیان بعض ”مسلمان نما“ افراد موجود تھے جن کو قرآن کریم نے ”منافق“ کھا ھے، جو غیروں کے لئے ”جاسوسی“ کا رول ادا کررھے تھے ( جیسے ”ابوعامرراھب “ اور اس کے منافق ساتھی، جن کا رابطہ روم کے بادشاہ سے تھا اور تاریخ نے اس کو نقل کیا ھے یھاں تک کہ انھوں نے مدینہ میں ”مسجد ضرار“ بھی بنائی ، اور وہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کا اشارہ سورہ توبہ نے کیا ھے)۔
مسلّم طور پر منافقین کا یہ گروہ اور اسلام کے بعض دوسرے بڑے بڑے دشمن مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھے ھوئے تھے اور مسلمانوں کے ھو نے والے نقصان پر بہت خوش ھوا کرتے تھے، نیز مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت سے ان واقعات کو نشر کرتے تھے، یا کم از کم ان واقعات کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
لہٰذا ھم دیکھتے ھیں کہ جن لوگوں نے ذرا بھی قرآن سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ھے، تاریخ نے ان کانام نقل کیا ھے، چنانچہ ان میں درج ذیل افراد کا نام لیا جاتا ھے:
”عبد اللہ بن مقفع“ کا نام تاریخ نے بیان کیا ھے کہ اس نے ”الدرة الیتیمة“ نامی کتاب اسی وجہ سے لکھی ھے۔
جبکہ مذکورہ کتاب ھمارے یھاں موجود ھے اور کئی مرتبہ چھپ بھی چکی ھے لیکن اس کتاب میں اس طر ف ذرا بھی اشار ہ نھیں ھے، ھمیں نھیں معلوم کھکس طرح اس شخص کی طرف یہ نسبت دی گئی ھے؟
احمد بن حسین کوفی ”متنبی“ جو کہ کوفہ کا مشھور شاعر تھا اس کا نام بھی اسی سلسلہ میں بیان کیا ھے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے، جب کہ بہت سے قرائن اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ اس کی بلندپروازی، خاندانی پسماندگی اور جاہ و مقام کی آرزو اس میں سبب ھوئی ھے۔
ابو العلای معری پر بھی اسی چیز کا الزام ھے ، اگرچہ اس نے اسلام کے سلسلہ میں بہت سی نازیبا حرکتیں کی ھیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنے کا تصور اس کے ذھن میں نھیں تھا، بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے سلسلہ میں بہت سی باتیں کھی ھیں۔
لیکن ”مسیلمہ کذاب“ اھل یمامہ میں سے ایک ایسا شخص تھا جس نے قرآن کا مقابلہ کرتے ھوئے اس جیسی آیات بنانے کی ناکام کوشش کی ، جس میں تفریحی پھلو زیادہ پایا جاتا ھے، یھاں پر اس کے چند جملے نقل کرنا مناسب ھوگا:
۱۔ سورہ ”الذاریات“ کے مقابلہ میں یہ جملے پیش کئے:
”وَالمُبذراتِ بذراً والحاصداتِ حَصداً والذَّاریات قَمحاً والطاحناتِ طحناً والعاجناتِ عَجناً والخَابِزاتِ خُبزاً والثارداتِ ثَرداً واللاقماتِ لَقماً إھالة وسَمناً“[20]
”یعنی قسم ھے کسانوں کی، قسم ھے بیج ڈالنے والوں کی، قسم ھے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اورقسم ھے گندم کو گھاس سے جدا کرنے والوں کی، قسم ھے آٹا گوندھنے والیوں کی اور قسم ھے روٹی پکانے والیوں کی اور قسم ھے تر اور نرم لقمہ اٹھانے والوں کی“!!
۲۔یا ضفدع بنت ضفدع، نقيّ ما تنقین، نِصفک فی الماء و نِصفک فِي الطین لا الماء تکدّرین ولا الشارب تمنعین“[21] ([22])
” اے مینڈک بنت مینڈک! جو تو چاھے آواز دے! تیرا آدھا حصہ پانی میں اور آدھا کیچڑ میں ھے، تو نہ پانی کوخراب کرتی ھے اور نہ کسی کو پانی پینے سے روکتی ھے“۔
5۔ قرآن کے حروف مقطّعات سے کیامرادھے؟
قرآن مجید کے ۲۹ سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں، اور جیسا کہ ان کے نام سے ظاھر ھے کہ یہ الگ الگ حروف ھیں اور ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ھیں، جس سے کسی لفظ کا مفھوم نھیں نکلتا۔
قرآن مجید کے حروف مقطّعات، ھمیشہ قرآن کے اسرار آمیز الفاظ شمار ھوئے ھیں، اور مفسرین نے اس سلسلہ میں متعدد تفسیریں بیان کی ھیں، آج کل کے دانشوروں کی جدید تحقیقات کے مد نظر ان کے معنی مزید واضح ھوجاتے ھیں۔
یہ بات قابل توجہ ھے کہ کسی بھی تاریخ نے بیان نھیں کیا ھے کہ دورِ جاھلیت کے عرب یا مشرکین نے قرآن کے بہت سے سوروں میں حروف مقطّعات پر کوئی اعتراض کیا ھو، یا ان کامذاق اڑایاھو، جو خود اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ وہ لوگ حروف مقطّعات کے اسرار سے بالکل بے خبر نھیں تھے۔
بھر حال مفسرین کی بیان کردہ چند تفسیریں موجود ھیں، سب سے زیادہ معتبراوراس سلسلہ میں کی گئی تحقیقات سے ھم آھنگ دکھائی دینے والی تفاسیرکی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱۔ یہ حروف اس بات کی طرف اشارہ ھیں کہ یہ عظیم الشان آسمانی کتاب کہ جس نے تمام عرب اور عجم کے دانشوروں کو تعجب میں ڈال دیا ھے اور بڑے بڑے سخنور اس کے مقابلہ سے عاجز ھوچکے ھیں، نمونہ کے طور پر یھی حروف مقطّعاتھیں جو سب کی نظروں کے سامنے موجود ھیں۔
جبکہ قرآن مجید انھیں الفابیٹ اور معمولی الفاظ سے مرکب ھے، لیکن اس کے الفاظ اتنے مناسب اور اتنے عظیم معنی لئے ھوئے ھے جو انسان کے دل و جان میں اثر کرتے ھیں، روح پر ایک گھرے اثر ڈالتے ھیں ، جن کے سامنے افکار اور عقول تعظیم کرتی ھوئی نظر آتی ھیں، اس کے جملے عظمت کے بلند درجہ پر فائز ھیں اور اپنے اندر معنی کا گویا ایک سمندر لئے ھوٴئے ھیں جس کی کوئی مثل و نظیر نھیں ملتی۔
حروف مقطّعات کے سلسلے میں اس بات کی تا ئید یوں بھی ھوتی ھے کہ قرآن مجید کے جھاں سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں ان میں سے ۲۴ مقامات پر قرآن کی عظمت بیان کی گئی ھے، جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ ان دونوں (عظمت قرآن اور حروف مقطّعہ) میں ایک خاص تعلق ھے۔
ھم یھاں پر چند نمونے پیش کرتے ھیں:
۱۔ <اٰلٰرٰ. کِتَابٌ اٴُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیر>[23]
الرٰیہ وہ کتاب ھے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ھیں اور ایک صاحب علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھیں“۔
۲۔ <طٰس. تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ وَکِتَابٍ مُبِینٍ >[24]
”طٰس ،یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۳۔ <اٰلٰم۔تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیمِ >[25]
” الم ، یہ حکمت سے بھری ھوئی کتاب کی آیتیں ھیں“۔
۴۔ <اٰلٰمص. کِتَابٌ اٴُنزِلَ إِلَیْکَ>[26]
”المص، یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی گئی ھے“۔
ان تمام مقامات اور قرآن مجید کے دوسرے سوروں کے شروع میں حروف مقطّعہ ذکر ھونے کے بعد قرآن اور اس کی عظمت کی گفتگو ھوئی ھے۔[27]
۲۔ ممکن ھے قرآن کریم میں حروف مقطّعات بیان کرنے کا دوسرا مقصد یہ ھو کہ سننے والے متوجہ ھوجائیں اور مکمل خاموشی کے ساتھ سنےں، کیونکہ گفتگو کے شروع میں اس طرح کے جملے عربوں کے درمیان عجیب و غریب تھے، جس سے ان کی تو جہ مزید مبذول ھو جا تی تھی، اور مکمل طور سے سنتے تھے، اور یہ بھی اتفاق ھے کہ جن سوروں کے شروع میں حروف مقطّعاتآئے ھیں وہ سب مکی سورے ھیں، اور ھم جانتے ھیں کہ وھاں پر مسلمان اقلیت میں تھے، اور پیغمبر اکرم (ص)کے دشمن تھے، آپ کی باتوں کو سننے کے لئے بھی تیار نھیں تھے، کبھی کبھی اتنا شور و غل کیا کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی آواز تک سنائی نھیں دیتی تھی، جیسا کہ قرآن مجید کی بعض آیات (جیسے سورہ فصلت ، آیت نمبر ۲۶) اسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ھیں۔
۳۔ اھل بیت علیھم السلام کی بیان شدہ بعض روایات میں پڑھتے ھیں کہ یہ حروف مقطّعات، اسماء خدا کی طرف اشارہ ھیں جیسے سورہ اعراف میں ”المص“ ، ”انا الله المقتدر الصادق“ (میں صاحب قدرت اور سچا خدا ھوں) اس لحاظ سے چاروں حرف خداوندعالم کے ناموں کی طرف اشارہ ھیں۔
مختصر شکل ( یا کوڈ ورڈ) کو تفصیلی الفاظ کی جگہ قرار دینا قدیم زمانہ سے رائج ھے، اگرچہ دورحاضر میں یہ سلسلہ بہت زیادہ رائج ھے، اور بہت ھی بڑی بڑی عبارتوں یا اداروں اور انجمنوں کے نام کا ایک کلمہ میں خلاصہ ھوجا تا ھے۔
ھم اس نکتہ کا ذکرضروری سمجھتے ھیں کہ ”حروف مقطّعات“ کے سلسلہ میں یہ مختلف معنی آپس میں کسی طرح کا کوئی ٹکراؤ نھیں رکھتے، اور ممکن ھے کہ یہ تمام تفسیریں قرآن کے مختلف معنی کی طرف اشارہ ھوں۔[28]
۴۔ ممکن ھے کہ یہ تمام حروف یا کم از کم ان میں ایک خاص معنی اور مفھوم کا حامل ھو، بالکل اسی طرح جیسے دوسرے الفاظ معنی و مفھوم رکھتے ھیں۔
اتفاق کی بات یہ ھے کہ سورہ طٰہٰ اور سورہ یٰس کی تفسیر میں بہت سی روایات اور مفسرین کی گفتگو میں ملتا ھے کہ ”طٰہ“ کے معنی یا رجل (یعنی اے مرد) کے ھیں ، جیسا کہ بعض عرب شعرا کے شعر میں لفظ طٰہ آیاھے اور اے مرد کے مشابہ یا اس کے نزدیک معنی میں استعمال ھوا ھے ، جن میں سے بعض اشعار یا تو اسلام سے پھلے کے ھیں یا آغاز اسلام کے ۔[29]
یھاں تک کہ ایک صاحب نے ھم سے نقل کیا کہ مغربی ممالک میں اسلامی مسائل پر تحقیق کرنے والے دا نشوروں نے اس مطلب کو تمام حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا ھے اوراس بات کا اقرار کیا ھے کہ قرآن مجید کے سوروں کی ابتداء میں جو حروف مقطّعات بیان ھوئے ھیں وہ اپنے اندر خاص معنی لئے ھوئے ھیں جو گزشتہ زمانہ میں متروک رھے ھیں، اور صرف بعض ھم تک پھنچے ھیں، ورنہ تو یہ بات بعید ھے کہ عرب کے مشرکین حروف مقطّعات کو سنےں اور ان کے معنی کو نہ سمجھيں اور مقابلہ کے لئے نہ کھڑ ے ھوں، جبکہ کوئی بھی تاریخ یہ بیان نھیں کرتی کہ ان کم دماغ والے اور بھانہ باز لوگوں نے حروف مقطّعات کے سلسلہ میں کسی ردّ عمل کا اظھار کیا ھو۔
البتہ یہ نظریہ عام طور پر قرآن مجید کے تمام حروف مقطّعات کے سلسلے میں قبول کیا جانا مشکل ھے، لیکن بعض حروف مقطّعات کے بارے میں قبول کیا جاسکتا ھے، کیونکہ اسلامی منابع ومصادر میں اس موضوع پر بحث کی گئی ھے۔
یہ مطلب بھی قابل توجہ ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ھوا ھے کہ ”طٰہ“ پیغمبر اکرم (ص)کا ایک نام ھے ،جس کے معنی ”یا طالب الحق، الھادی الیہ“ ( اے حق کے طالب اور حق کی طرف ھدایت کرنے والے)
اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ لفظ ”طٰہٰ “ دو اختصاری حرف سے مرکب ھے ایک ”طا“ جو ”طالب الحق“ کی طرف اشارہ ھے اور دوسرے ”ھا“ جو ”ھادی الیہ“ کی طرف اشارہ ھے۔
اس سلسلہ میں آخری بات یہ ھے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لفظ ”طٰہ“ ، لفظ ”یٰس“ کی طرح آھستہ آھستہ پیغمبر اکرم (ص)کے لئے ”اسم خاص“ کی شکل اختیار کرگیا ھے، جیسا کہ آل پیامبر (ص)کو ”آل طٰہ“ بھی کھا گیا، جیسا کہ دعائے ندبہ میں حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ ‘ کو ”یابن طٰہ“ کھا گیا ھے۔[30]
۵۔ علامہ طباطبائی ( علیہ الر حمہ) نے ایک دوسرا احتمال دیا ھے جس کو حروف مقطّعات کی ایک دوسری تفسیر شمار کیا جاسکتا ھے، اگرچہ موصوف نے اس کو ایک احتمال اور گمان کے عنوان سے بیان کیا ھے۔
ھم آپ کے سامنے موصوف کے احتمال کا خلاصہ پیش کررھے ھیں:
جس وقت ھم حروف مقطّعات سے شروع ھونے والے سوروں پر غور و فکر کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ مختلف سوروں میں بیان ھو ئے حروف مقطّعات سورہ میں بیان شدہ مطالب میں مشترک ھیں مثال کے طور پر جو سورے ”حم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے فوراً بعد جملہ <تَنْزِیْلُ الکِتَابِ مِن الله> (سورہ زمر آیت۱) یا اسی مفھوم کا جملہ بیان ھوتا ھے اور جو سورے ”الر“ سے شروع ھوتے ھیں ان کے بعد <تِلْکَ آیاتُ الکتابِ> یا اس کے مانند جملے بیان ھوئے ھیں۔
اور جو سورے ”الم“ سے شروع ھوتے ھیں اس کے بعد <ذٰلک الکتابُ لاریبَ فِیْہ> یا اس سے ملتے جلتے کلمات بیان ھوئے ھیں۔
اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ حروف مقطّعات اور ان سوروں میں بیان ھوئے مطالب میں ایک خاص رابطہ ھے مثال کے طور پر سورہ اعراف جو ”اٴلمٰص“ سے شروع ھوتا ھے اس کا مضمون اور سورہ ”الم“ اور سورہ ”ص“ کا مضمون تقریباً ایک ھی ھے۔
البتہ ممکن ھے کہ یہ رابطہ بہت عمیق اور دقیق ھو، جس کو ایک عام انسان سمجھنے سے قاصر ھو۔
اور اگر ان سوروں کی آیات کو ایک جگہ رکھ کر آپس میں موازنہ کریں تو شاید ھمارے لئے ایک نیا مطلب کشف ھوجائے۔[31]([32])
6۔ قرآن مجید پیغمبر اکرم کے زمانہ میں مرتب ھوچکا تھا یا بعد میں ترتیب دیا گیا؟
جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید کے پھلے سورے کا نام ”فاتحة الکتاب“ ھے ، ”فاتحة الکتاب“ یعنی کتاب (قرآن) کی ابتدااور پیغمبر اکرم (ص)سے منقول بہت سی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خود آنحضرت (ص)کے زمانہ میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔
یھیں سے ایک دریچہ اسلام کے مسائل میں سے ایک اھم مسئلہ کی طرف وا ھوتا ھے اور وہ یہ کہ ایک گروہ کے درمیان یہ مشھور ھے کہ ( پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں قرآن پراکندہ تھا بعد میں حضرت ابوبکر یا عمر یا عثمان کے زمانہ میں مرتب ھوا ھے)، قرآن مجید خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اسی ترتیب سے موجود تھا جو آج ھمارے یھاں موجود ھے، اور جس کا سر آغاز یھی سورہ حمد تھا، ورنہ تو یہ پیغمبر اکرم (ص)پر نازل ھونے والاسب سے پھلا سورہ نھیں تھا اور نہ ھی کوئی دوسری دلیل تھی جس کی بناپر اسے ”فاتحة الکتاب“ کے نام سے یاد کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اور بہت سے شواھد اس حقیقت کی تائید کرتے ھیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں جمع ھوچکا تھا۔
”علی بن ابراھیم(رہ)“ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: قرآن کریم حریر کے کپڑوں ،کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر متفرق ھے لہٰذا اس کو ایک جگہ جمع کرلو“ اس کے بعد مزید فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس نشست سے اٹھے اور قرآن کو ایک زرد رنگ کے کپڑے پر جمع کیا اور اس پر مھر لگائی:
”وَانطلقَ عَليَّ (ع)فَجمعہُ فِي ثوبٍ اٴصفرٍ ثُمَّ خَتَم علَیْہِ“[33]
ایک دوسرا گواہ: ”خوارزمی“ اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلف اپنی کتاب ”مناقب“ میں ”علی بن ریاح“ سے نقل کرتے ھیں کہ قرآن مجید کو حضرت علی بن ابی طالب اور ابیّ بن کعب نے پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ ھی میں جمع کردیا تھا۔
تیسرا گواہ: اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلفحاکم نیشاپوری اپنی کتاب ”مستدرک“ میں زید بن ثابت سے نقل کرتے ھیں:
زید کہتے ھیں: ” ھم لوگ قرآن کے مختلف حصوں کو پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں جمع کرتے تھے اور آنحضرت (ص)کے فرمان کے مطابق اس کی مناسب جگہ قرار دیتے تھے، لیکن پھر بھی یہ لکھا ھوا قرآن متفرق تھا ،حضرت رسول خدا (ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں ، اور ھمیں اس کی حفا ظت کے لئے تا کید کیاکرتے تھے“۔
عظیم الشان شیعہ عالم دینسید مرتضیٰ کہتے ھیں:قرآن مجید پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اسی موجودہ صورت میں مرتب ھوچکا تھا“[34]
طبرانی اور ابن عساکر دونوں ”شعبی“ سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں انصار کے چھ افراد نے قرآن کو جمع کیا۔[35] اور قتادہ نقل کرتے ھیں کہ میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ تو انھوں نے :ابیّ بن کعب، معاذ،زید بن ثابت اور ابوزید کا نام لیا جو سبھی انصار میںسے تھے[36] اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ھیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ اگر ھم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ھوجائے گی۔
بھر حال شیعہ اور سنی کتب میں نقل ھونے والی روایات جن میں سورہ حمد کو ”فا تحة الکتاب“ کا نام دیا جانا، اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کافی ھے۔
سوال:
یھاں ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کس طرح اس بات پر یقین کیا جاسکتا ھے جبکہ بہت سے علماکے نزدیک یہ بات مشھور ھے کہ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا ھے (حضرت علی ﷼کے ذریعہ یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ)
اس سوال کے جواب میںھم یہ کہتے ھیں : حضرت علی علیہ السلام کا جمع کیا ھوا قرآن خالی قرآن نھیں تھا بلکہ قرآن مجید کے ساتھ سا تھ اس کی تفسیر اورشان نزول بھی تھی۔
البتہ کچھ ایسے قرائن وشواھد بھی پا ئے جا تے ھیںجن سے پتہ چلتا ھے کہ حضرت عثمان نے قرائت کے اختلاف کودور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا (چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نھیں تھا) بعض لوگوں کا یہ کھنا کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نھیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم یا حضرت عثمان کونصیب ھوا، تو یہ بات فضیلت سازی کا زیادہ پھلو رکھتی ھے لہٰذا اصحاب کی فضیلت بڑھا نے کے لئے نسبت دیتے ھیں اورروایت نقل کرتے ھیں۔
بھر حال اس بات پرکس طرح یقین کیا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)اتنے اھم کام پر کوئی توجہ نہ کریں جبکہ آنحضرت (ص)چھوٹے چھوٹے کاموں کو بہت اھمیت دیتے تھے،کیا قرآن کریم اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم اعتقادات نیز اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نھیں ھے؟! کیا پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں قرآن کریم کے جمع نہ کرنے سے یہ خطرہ درپیش نہ تھا کہ اس کا کچھ حصہ نابود ھوجائے گایا مسلمانوں کے درمیان اختلاف ھوجائے گا؟!
اس کے علاوہ مشھور و معروف حدیث ”ثقلین“ جس کو شیعہ اور سنی دونوں فر یقوں نے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں :ایک کتاب خدا (قرآن) اور دوسرے میری عترت (اھل بیت (ع))۔۔۔“ اس حدیث سے بھی ظاھر ھوتا ھے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا۔
اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ بعض روایات میں بیان ھوا ھے کہ خود آنحضرت (ص)کی زیرنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا ، اوروہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ھيں تواس سے کوئی مشکل پیدا نھیں ھوتی، کیو نکہ ممکن ھے کہ ھر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندھی کرتی ھو۔[37]