شفاعت کر نے والے
۱۔قرآن مجید:
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:”تَعَلَّمُو ا الْقُرآنَ فَاِنَّہُ شٰافِعٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔“[1]”یعنی قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ قرآن قیامت کے دن شفاعت کر نے والا ھے جیسا کہ حضرت علی (ع) نے بھی قرآن کے بارے میں فرمایا:”فَاِنَّہُ شٰافِعٌ مُشَفَّعٌ“[2]”یعنی قرآن شفاعت کرنے والا ھے اور اس کی شفاعت قبول ھے۔“
۲۔صلہ ٴ رحمی،امانت،محمد و آل محمد علیھم السلام :
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرما یا:”اَلشُّفَعٰاءُ خَمْسَةٌ :اَلقُرْآنُ وَالرَّحِمُ،وَالاَمٰانَةُ وَ نَبِیُّکُمْ،وَاَھْلُ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ۔“[3]
”یعنی شفاعت کرنے والے پانچ ھیں :قرآن ،صلہٴ رحمی،امانت کی ادائیگی،اور تمھارے نبی(ص) اور ان کے گھر والے۔“
۳۔روزے:
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرما یا:”اَلصِّیٰامُ وَالْقُرآنُ یشَفَعانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔“[4]
”یعنی جو لوگ روزہ اور قرآن سے دنیا میں مانوس رھا کرتے ھیں یہ دونوں قیامت کے دن اس کی شفاعت کریں گے۔“
۴۔انبیاء ،علماء شھدا:
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:
”ثَلاثَةٌ یَشْفعُونَ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُشَفَّعُونَ،اَلاَنْبِیاٰءُ ثُمَّ الْعُلَمٰاءُ ثُمَّ الشُّھَداءُ۔“[5]
”یعنی اللہ کی بارگاہ میں تین گروہ شفاعت کریں گے انبیاء پھر علماء اور پھر شھداء۔“
۵۔توبہ:
جیسا کہ حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا:”لاٰشَفِیعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبةِ۔“ ”یعنی اپنے گناھوں پر توبہ سے بڑھ کر کوئی شفاعت نھیں ھے ۔“[6]
۶۔موٴمن :
جیسا کہ امام محمد باقر(ع) ارشا د فرماتے ھیں:
”اِنَّ المُوٴْمِنَ لَیُشْفِعَ فِی مِثْلِ رَبِیْعَةٍ وَمُضِّرٍ،وَاِنَّ المُوٴْمِنَ لَیُشْفِعَ حَتّٰی لِخٰادِمِہِ۔“[7]
”یعنی موٴمن بہت زیادہ اکثریت سے آبادی رکھنے والے قبائل مثلاً ربیعہ و مضر کی تعداد کے مطابق لوگوں کی شفاعت کر سکے گا حتی اپنے خادم کی بھی شفاعت کرسکے گا۔“
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس بارے میں ارشاد فرمایا:
”وَاَقَلُّ المُوٴْمِنینَ شَفٰاعَةً مَنْ یَشْفَعُ ثَلاثِینَ اِنْسٰاناً۔“[8]
”یعنی موٴمن کم از کم ۳۰/ افراد کی شفاعت کرے گا۔“
۷۔پڑوسی اور دوست:
جیسا کہ امام جعفر صادق (ع)نے ارشاد فرمایا:
”اِنَّ لِجٰارَ یَشْفَعُ لِجٰارِہِ ،وَالْحَمِیمَ لِحَمِیمِہِ۔“[9]
”یعنی پڑوسی اپنے پڑوسی کی شفاعت کرے گا اور دوست اپنے دوست کی شفاعت کرے گا۔“
۸۔عمل اور صداقت :
جیسا کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا:
”شٰافِعُ الْخَلْقِ العَمَلُ بِالْحَقِّ وَلزُومُ الصِّدْقِ۔“[10]
”یعنی حق پر عمل کرنا اور صداقت انسان کے لئے شفیع ھیں۔‘ ‘
۹۔اچھا اخلاق:
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:
”اِنَّ اَقْرَبَکُمْ مِنّی غَداً وَاَوْجَلَکُمْ شَفٰاعَةً؛اَصْدَقُکُمْ لِسٰاناًوَاَدّاکُمْ لِلاَمٰانَة،وَاَحْسَنَکُمْ خُلْقاًوَاَقْرَبَکُمْ مِنَ النّٰاسِ ۔“
”یعنی قیامت کے دن تم میں سے میرے زیادہ نزدیک اور میری شفاعت پانے والا وہ ھوگا جو سچا ،امانت دار اور خوش اخلاق اور لوگوں سے زیادہ نزدیک ھوگا۔“
۱۰۔ولایت آل پیغمبر (ص):
جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:
”اَرْبَعَةٌ اَنَالَھُمْ شَفِیعٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ ،اَلْمُکَرِّمُ لِذُرِّیَّتِی،وَالْقٰاضِیُ لَھُمْ حَوائِجَھُمْ، وَالسّٰاعِی فِی اُمُورِھِمْ مٰاضْطُرُّ واِلَیْہِ،وَالْمُحِبُّ لَھُمْ بِقَلْبِہِ وَلِسٰانِہِ عِنْدَ مَاضْطَرُّ وا ۔“ [11]
”یعنی میں قیامت کے دن چار قسم کے لوگوں کی شفاعت کروں گا ،۱۔وہ جو میری خاطر میری ذریت کاا حترام کرتے ھیں،۲۔وہ جو ان کی ضروریات کو پورا کرتے ھیں، ۳۔وہ جو مشکلات میں ان کے کام آتے ھیں ،۴۔وہ جو قلب و زبان سے سختیوں کے باوجود ان سے دوستی رکھتے ھیں ۔
ایک عالم بیان کر رھے تھے کہ حاجب نامی شاعر نے کھا :
حاجب اگر محاسبہ ٴ حشر علی کے ھاتھ میں ھے
تو میں ضامن ھوں جو مرضی ھووہ گناہ کر
اسی رات خواب میں اس نے حضرت علی (ع) کو دیکھا جو ناراض تھے اور اس سے کھا کہ تو اس شعر کو یوں کہہ :
حاجب اگر محاسبہٴ حشر علی (ع) کے ھاتھ میں ھے
تو شرم کر علی (ع) سے اور گناہ نہ کر
اصحاب رقیم کی داستان
اس داستان کی طرف سورہٴ کہف کی آیت ۹ میں اشارہ ھوا ھے جس کی
تفصیل محاسن برقی اپنی کتاب میںپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روایت نقل کرتے ھوئے یوں ذکر کرتے ھیں کہ تین عابد اپنے اپنے گھروں سے سیر و تفریح کی غرض سے نکلے جب سیر و تفریح کرتے ھوئے پھاڑ کے دامن میں ایک غار کے پاس پھنچے تو غار کے اندر جاکر عبادت میں مصروف ھو گئے اچانک شدید طوفان کے سبب ایک بڑا پتھر پھاڑ کے اوپر سے جدا ھو کر پھسلا اور اس غار پر آگرا اب تو غار کا دھانہ بند ھوگیا اور غار میں اندھیرا چھا گیا اب جو عابدوں نے اپنے آپ کو اس تاریکی غار میں قید پایا تو سرانجام ان میں سے ایک نے کھا:
اب اس کے سوا کوئی چارہ نھیں کہ ھم میں سے ھر ایک اپنے کسی خاص عمل کو خدا کی بارگاہ میں شفاعت کے طورپر پیش کرے تا کہ اس جگہ سے نجات پاسکیں باقی دونوں افراد نے بھی اس کی تجویز کو قبول کیا،ا س طرح پھلے نے کھا :”پروردگار تو جانتا ھے کہ میں فلاں موقع پر فلان خوبصورت عورت پر عاشق ھوگیاتھا جب وہ میرے قبضہ میں آگئی تھی اور میں گناہ پر اس وقت قدرت رکھتے ھوئے تیری نافرمانی اور معصیت سے باز رھا ،لہٰذا تجھے میرے اس عمل نیک کا واسطہ اس پتھر کو غار کے دھانے سے ہٹا دے ،پتھر تھوڑا سا ہٹا اس طرح سے کے غار میں روشنی آنے لگی۔
دوسرے نے دعا کی بار الٰھا تو جانتا ھے کہ میں نے فلاں موقع پر کچھ کاریگروں کو اجیر کیا تھا کہ کھیتی باڑی کے کام کے لئے ھر روز ۲/۱درھم اجرت پر اور سب کے کام کے بعد میں نے ان کی اجرت دیدی اور پھر ان میں سے ایک کاریگر نے کھا کہ میں نے دوکاریگروں کے برابر کام کیا ھے لہٰذا میں ایک درھم سے کم نھیں لوںگا اور اس نے وہ آدھا درھم نھیں لیا اور چلا گیا میں نے اس کے اس آدھے درھم سے کھیتی کی مجھے اس سے کافی فائدہ حاصل ھوا یھاں تک کہ ایک دن وہ کاریگر آیا اور اس نے اپنے اس آدھے درھم کا مطالبہ کیا ،اب جو میں نے حساب کیا تو پتہ چلا اس عرصہ میں میں نے اس کے اس آدھے درھم سے دس ہزار درھم کا منافع کمایا ھے لہٰذا میں نے سب اسے دیدیا اور اس کو راضی کیا اور کیونکہ یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا لہٰذا میرے اس نیک عمل کے سبب اس پتھر کو غار کے دھانے سے ہٹا دے،اب غار کا پتھر اور ہٹا اتنا کہ سورج کی روشنی پوری آرھی تھی مگر کوئی نکل نھیں سکتا تھا ۔
تیسرے نے دعا کی پروردگار تو جانتا ھے کہ فلاں دن میرے ماں باپ سورھے تھے میں ان کے لئے دودھ لے کر پھنچا تو یہ سوچ کر کہ کھیں میں یہ دودھ اسی طرح کھلا رکھ کر چلا جاوٴں تو کھیں اس میں کوئی کیڑا مکوڑا نہ گر جائے دوسری طرف ان کو میں نے بیدار کرنا بھی مناسب نھیں سمجھا لہٰذا میں نے اتنا ؟صبر کیا کہ وہ بیدار ھوئے اور اس دودھ کو پیا ،لہٰذا تو کیونکہ جانتا ھے کہ یہ میرا صبر کرنا صرف تیری خوشنودی کے لئے تھا لہٰذا میرے اس عمل نیک کے سبب ھمیں اس پریشانی سے خلاصی عطا کر جیسے ھی اس کی دعا ختم ھوئی تو پتھر اتنا پیچھے ہٹا کہ وہ تینوں آرام سے غار سے باھر آگئے اور نجات پاگئے اسی لئے پیغمبر اکرم (ص)نے ارشاد فرمایا:”مَنْ صَدَّقَ اللّٰہَ نَجٰا“جو اللہ کے ساتھ سچا ھو جائے گا وہ نجات پاجائے گا۔
حضرت ابو طالب(ع) کی شفاعت
جب حضرت ابو طالب (ع) کا انتقال ھوا (بعثت کے دسویں سال )تو حضرت علی(ع) پریشان حال پیغمبر (ص)کے پاس آئے اور ا ن کو خبر دی تو پیغمبر(ص) کو بھی یہ سن کر دکھ ھوا اور آپ نے علی (ع) سے کھا جاوٴ ان کے غسل و کفن کا سامان کرو اور جب میت کو آمادہ کرلو تو مجھے اطلاع دینا،حضرت علی (ع)نے ایسا ھی کیا جب جنازہ تیار ھوا تو آنحضرت(ص) حضرت ابو طالب (ع) کے جنازے کے کنارے آئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے حضرت ابو طالب (ع) کو خطاب کر کے کہتے ھیں ”آپ نے صلہٴ رحمی کو پورا کیا اپنی نیک جزاء کو پھنچیں گے اور آپ نے یتیم کی پرورش کی اور اسے بڑا کیا اور اس کی مدد کی “پھر آنحضرت(ص)نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کھا ”لَاَ شْفَعُنَّ لِعَمّیِ شَفٰاعَةً یُعْجِبُ بِھٰا الثَّقَلَیْن “یعنی میں ضرور اپنے چچا کی شفاعت کروں گا کہ جس پر تمام جن و انس تعجب کریں گے ۔
امام حسین (ع) نقل کرتے ھیں میرے بابا علی (ع) کوفہ کے مقام رحبہ میں ایک دفعہ بیٹھے ھوئے تھے اور اطراف میں لوگوں کا حلقہ تھا ایک شخص نے اٹھ کر کھا اے امیر الموٴمنین (ع) آپ تو اس عظیم مقام پر ھیں مگر آپ کے والد اس وقت دوزخ کی آگ میں ھیں ؟ امیرالموٴمنین (ع)نے اس کو جواب دیا:”فَضَّ اللّٰہُ فٰاکَ وَالَّذیِ بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِیّاً لَوْ شَفَّعَ اَبِی فِی کُلِّ مُذْنِبٍ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ لَشُفِّعَہُ اللّٰہُ “”یعنی خدا تیرے منہ کو چاک کرے خدا کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اگر میرے باپ زمین کے تمام گناھگاروں کی بھی شفاعت کریں تو خدا ان کی شفاعت کو قبول کرے گا،پھر آپ نے فرمایا:”یہ کیسے ممکن ھے کہ جس کا بیٹا جنت اور جھنم کو لوگوں میں تقسیم کرنے والا ھو اس کا باپ دوزخ کی آگ میں جائے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی قسم کہ ابو طالب (ع) کا نور قیامت کے دن تمام خلائق کو اپنے گھیرے میں لے لے گا سوائے نور محمد(ص) و فاطمہ(ع) و حسن (ع)و حسین (ع)اورد یگر ائمہ معصومین (ع) کے ،یاد رکھو نور ابو طالب (ع)ھمارے ھی انوار سے ھے جس کو اللہ تعالیٰ نے خلقت آدم (ع) سے دو ہزار سال پھلے خلق کیا ھے [12]