اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

عالم اسلام کے لئے وھابیت کے بدترین تحفے

عالم اسلام کے لئے وھابیت کے بدترین تحفے

وھابیت کا مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ

وھابیوں کے اھم اور دلنشین ( اپنی دانست میں ) نظریوں میں سے ایک نظریہ مسلمانوں کو کافر اورمشرک سمجھنا ھے ، اس نظریہ نے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں میںبہت ھی برے اور ناگوار اثرات ڈالے ھیںجن کے نتائج بے انتھا ناگوار ثابت ھوئے ، مذکورہ نظریہ کو اسلام دشمن طاقتیں ایک خطرناک اور نھایت مھلک حربے کے طور پر استعمال کررھی ھیں ، وھابی خود کو موحد اور مسلمان تصور کرتے ھیں جبکہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ھیں یہ لوگ تعصب کی بنا پر اپنی گمراھی، کج فکری اور بدعتوںکو بھی دینداری سمجھ کر تمام مسلمانوں پر کفر وگمراھی کے فتوے لگاتے ھیں، اور اس طرح وھابیوں نے امّت اسلامیہ کے پیکر پر ضربیں لگائی ھیں ، چنانچہ یہ فتوے اتحادبین المسلمین کی راہ میں مانع اورایک محکم دیوار ثابت ھوئے ھیں، اسی بناپر مسلمان، اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے متحد نہ ھوسکے ۔

اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ وھابیوں کی فکر اور طریقہ کا رکی کوئی بنیاد نھیں ھوتی  اور نہ ھی ان کے فتوےٰ قرآن و سنت کے مطابق ھوتے ھیں،بلکہ یہ بایتں قطعاً قرآن و سنّت کے خلاف ھونے کے ساتھ ساتھ خطرناک اور تباہ کن بھی ھیں ،اس موضوع سے متعلق پھلے ایک مختصر سی بحث کرتے ھیں اور پھر سنی و شیعہ علماء کے فتووں کو پیش کریں گے ، او رآخر میں اس منحرف اور گندی فکر کے خطرناک ، مضّر اور دکھ دہ نتائج کا جائزہ لیں گے ۔

وھابی حضرات قرآنی توحید کے بارے میں ایک غلط نتیجہ گیری نیز مسائل اعتقادی کے متعلق غلط طرز تفکر کی بناپر تمام مسلمانوںکوجو انھیں کی طرح اسلام کا دم بھرتے ھیں ،کافر و مشرک سمجھتے ھیں اور ان کو مکہ مدینہ اور مسلمانوں کے دوسرے مقد س مقامات پر طعن و تشنیع کا نشانہ اور طرح طرح سے اذیت و آزار پھنچاتے ھیںاور ظلم وتجاوز سے باز نھیں آتے ، ان کا یہ کام سوفیصد خدا و رسول(ص)کی مرضی کے خلاف ھے ،ان کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی ھے چونکہ وہ مسلمانوں کو اپنے سے الگ شمار کرتے میں اس لئے کہ وہ باتیں جنکی نسبت وہ اپنے علاوہ دوسروں کی جانب دیتے ھیں اور ان پر ظلم و تشدّد کو جائز سمجھتے ھیں نہ تو اس کی کوئی دلیل قرآن میں موجود ھے اور نہ ھی نبی اکرم(ص)  کی سنّت میں اسکا کوئی جواز ھے، انکا یہ عمل در حقیقت قرآن و سنت کے سراسر خلاف ھے۔

تعجب اس بات پر ھوتا ھے کہ ان تمام چیزوں کے با وجود ، وہ اپنے آپ کو اھل سنّت سمجھتے ھیں ،جبکہ واقعی اھل سنّت وہ حضرات ھیں جو گفتار و کردار میں سنّت پیغمبر(ص) اور رسول(ص)کے بتائے ھوئے راستے پر عمل پیراھوں، حالانکہ مسلمان علماء اعلام اور اسلامی پیشواؤں کی سیرت سے قطع نظر فقط سنّت اور و ہ شریعت محمدی(ص) جو تمام مسلمانوںکے لئے عمومی حیثیت رکھتی ھے، وھابیوں کے اس طرز تفکر کے خلاف ھے اور ان کے اعمال اور افکار کو مردود اور قابل مذمت بھی شمار کرتی ھے ۔   

ابن تیمیہ ” منھاج السنة “ کی تیسری جلد کے ۱۹ویں صفحہ پر ان اشکالوں کو جواب دیتے ھوئے جو اس پر اس کے ھم مذھب اھل سنّت حضرات نے کئے ھیں لکھتا ھے ،( مذکورہ امور میں سے بہت سے امور کو گناہ کی فھرست سے خارج کرنے پر عذر شرعی ھے ، اور یہ ان اجتھادی مسائل میں سے ھیں جن میں اگر مجتھد واقعی حکم تک دست رسی پیدا کرے تو دو اجر وثواب ھے اور اگر واقعی حکم کو بیان کرنے میںخطا کرے تو ایک اجر ھے، اکثر وہ باتیں جو خلفاء راشدین سے منقول ھیں،  وہ اسی باب سے تعلق رکھتی ھیں )

ابن تیمیہ نے اپنی اس گفتار میں اس حدیث پر نظر رکھی ھے کہ جس حدیث کو بخاری نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری “ میں عمر و بن عاص سے روایت کی ھے عمربن عاص کہتا ھے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : ”جب کوئی حاکم شرعی کسی مسئلہ میں اجتھادکرے اور اسکے مطابق حکم صادر کرے اگر بیان   شدہ حکم، واقعی حکم کے مطابق ھو، تومجتھد کے لئے دو اجر و ثواب ھےں اور اگر مجتھد نے اجتھاد میں خطا کی ھے تو ایک اجر ملے گا “

اور پھر ابن تیمیہ ، اس کتاب کے بیسویں صفحہ پر لکھتا ھے کہ گذشتہ علماء، مفتی ، مراجع جیسے ابوحنیفہ ، شافعی ، ثوری ، داود بن علی اور دیگر مجتھدوںنے بیان کیا ھے کہ وہ مجتھد جو حکم شرعی کو بیان کرنے میں غلطی کرتے ھیں گناھگار نھیں ھیں غلطی اصول میں سے ھوںیا فرعی مسائل میں سے، جیسا کہ ا بن حزم نے مذکورہ بالا علماء  اور دوسروں سے نقل کیا ھے ۔

اسی وجہ سے ابوحنیفہ ، شافعی ،اور دوسرے علماء ( فرقہ حطابیہ کے علاوہ ) نفس پرست افراد کی گواھی قبول کرلیتے تھے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح سمجھتے تھے حالانکہ کافر کی گواھی مسلمانوںکے یھاں قبول نھیں ھے اوراسی طرح کافرکی اقتداء بھی صحیح نھیں ھے ۔

گذشتہ زمانے کے بزرگ علماء نے فرمایا ھے کہ ” بزرگ صحابہ ، تابعین اور دینی پیشوا کسی مسلمان کو کافر یا فاسق نھیں کہتے تھے اور اس مجتھد کوجو حکم کو بیان کرنے میں اجتھادی خطا کامرتکب ھوجائے ، گناھگار شمار نھیں کرتے تھے چاھے خطا علمی مسائل میں ھویا فقہ کے فرعی مسائل میں “

ابن حزم اُندلُسی اپنی کتاب ” الفِصَل “ کے تیسرے حصہ میں صفحہ ۲۴۷ پر(یہ کتاب اسلامی مذاھب کے عقائد کے متعلق لکھی ھے ) لکھتا ھے کہ ” علماء کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ھے کہ اگر کوئی مسلمان اعتقادی مسائل یا شرعی مسائل یا فتویٰ دینے میں اجتھادی خطا کرے تو  اسکو کافروفاسق شمارنھیں کیا جائیگا اور اگر کوئی شخص اجتھاد کرے او راپنے اجتھاد کردہ مسئلہ کو حق تصور کرے تو ایسے شخض کو ، ھر حال میںاجرملے گا ، اب اگر اسکا نظریہ واقعی حکم کے موافق ھے تو دو اجر ، اور اگر خطا کی ھے تو ایک اجر بھرحال ملے گا “[1]

وھابیت کا مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس کی بے حرمتی کرنا

ان تمام مذکورہ بزرگ علماء کے نظریات اور اقوال جن کو وھابی بھی بزرگ مانتے ھیں اور ان کے نظریات کو تسلیم کرتے ھیں اور ان کتابوں کوسند کا درجہ دیتے ھیں ، مد نظر رکھتے ھوئے ھم اھل سنّت کے دعوے دار وہّابی فرقے سے یہ سؤال کرتے ھیں کہ اگر وہ سب باتیں جو تمھارے بزرگوں نے بیان کی ھیں ، دینی امور میں تمھارے عمل کی اصل اساس او ربنیاد کا درجہ رکھتی ھیںتو پھر کس شرعی دلیل کی بناپر ان تمام مسلمانوںکے فرقوں کو جوتمھارے مسلک کے موافق نھیں ، کافر ومشرک سمجھتے ھو ؟او ران پر ھر طرح کی سختی ،اذیت اور ظلم و تشدّد کو جائز سمحھتے ھو ؟ نیز ان کے ملک اور سرزمین کو کافر حربی کی سرزمین کے مانند خیال کرتے ھو ؟ حالانکہ خداوند عالم فرماتاھے : ”تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں ۔

اور دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے: ” ان نعمتو ں کو یاد کرو جو خدا نے تمھیں عطا کی ھیں جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے او رخداوندعالم نے تمھارے دلوں کو ملادیا اور اس طرح نعمت خدا سے تم ایک دوسرے کے بھائی ھوگئے ۔

پھر ارشاد فرماتا ھے : ” ھم نے مومنوں کے دلوں سے ھر طرح کی کدورتوں کو نکال پھینکاھے تاکہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ھو جائیں اور جب ایک دوسرے سے ملاقات کریں توخوشی کا احساس کریں ۔

اور دوسری جگہ پر ارشاد ھوتاھے:  ” جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام انجام دے خدا ان سے محبت کرتا ھے “ ۔

اور ایک جگہ یہ فرماتا ھے:  ” اگر وہ توبہ کریں نماز پڑھیں او رزکواة ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ھیں اس طرح ھم اپنی آیتوں کو ان کے لئے بیان کرتے ھیں جوجاننا چاہتے ھیں یا جاننے کے خواہشمندھیں ۔

پیغمبر اسلام (ص) کی معتبر حدیثوں میں بیان ھوا ھے کہ ” اگر کوئی الله کی وحدانیت او رمحمد(ص)کی نبوت کی گواھی دے اسکی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ھے اور ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے “

صحیح بخاری میں ایک روایت عبداللهبن عباس ۻسے نقل ھوئی ھے کہ جسوقت معاذبن جبل کو یمن بھیجا تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ” بہت جلد اھل کتاب( یھود ونصاریٰ) سے ملاقات کروگے، جس وقت ان کے پاس  پھونچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا کہ وہ خداکی وحدانیت یعنی لاالہ الاالله اور رسول(ص)کی رسالت کااقرار کریں ، اگر انھوں نے تمھاری اس بات کو قبول کر لیا تو پھر ان سے یہ کھنا کہ خدائے یکتا نے تم پر ھرروز پانچ وقت نماز کو واجب کیا ھے اگر اسکو بھی قبول کرلیں توپھر ان سے کھنا کہ خدا نے تم پر زکوٰةادا کرنا واجب کیا ھے اور ان کے مالداروں سے زکوٰة وصول کرکے ان کے غریب افراد میں تقسیم کردینا اگر اس بات کو بھی مان لیں تو پھر ان کے اموال پر کوئی تعرّض یا تجاوز نہ کرنا چو نکہ پھر ان کے اموال محفوظ ھیں “

اس طرح کی ایک اور روایت بخاری نے ابن عباسۻ سے نقل کی ھے کہ جب پیغمبر(ص) نے لوگوں کو خدائے یکتا پرایمان لانے کا حکم دیا تو ارشاد فرمایا ” کیا تم جانتے ھو کہ خدا پر ایمان لانے کامطلب کیا ھے “ لوگوں نے جواب دیا ، خدا او ر اسکا رسول(ص)بہتر جانتے ھیں ، تب آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا ” خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانا یعنی اس بات کی گواھی دیں کہ خدا ئے یکتا کے علاوہ کوئی خدا اور معبود نھیں اور محمد(ص) الله کے رسول(ص) ھیں اور نماز پڑھیں ،زکوٰة دیں ، ماہ رمضان میں روزہ رکھیں اور جو بھی مال غنیمت حاصل ھو  اس میں سے خمس ادا کریں “

اسی کتاب خدا سے آشنا ئی اور سیدالمرسلین کی شریعت سے آگاھی رکھنے والو! ذرا انصاف سے بتاؤ کہ کیا اھل حق او رتمھاے مسلمان بھایئوں سے وھابیوں کی عدالت اور دشمنی ، احکام الٰھی کی حدودسے تجاوز اوران کو پائمال کرنا نھیں ھے ؟!

قارئین محترم کو یاد دھانی کرانے کی ضرورت نھیں کہ مذھب اسلام اور وہ شریعت جو خدا کے منتخب بندے حضرت محمد(ص) پر خدا کی جانب سے نازل ھوئی ھے ، وھابی فرقے کے اعمال ، کردار اور غلط رویّہ کے سراسر خلاف ھے ، وھابیوں کو یہ بتا دینا ضروری ھے کہ خداوند عالم کا حکم ھے:

 ” اَفَحُکمُ الجَاہِلِیّةِ یَبغُونَ وَ مَن اَحسَنُ مِنَ اللهِحُکماًلِقَومٍ یُوقِنُونَ“[2]

”کیا ایام جاھلیت کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ھو ؟ خداوند عالم کی شریعت اوراحکام جن کو خدانے مومنوںکے لئے  نازل فرمایا ھے ، کیا اس سے بہتر کوئی شریعت ھے“

اس لئے اگر کوئی اپنی جانب سے کوئی حکم بیان کرے تو گویا اس نے اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی اور ایسا کرنے سے خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو بھی روکا اورمنع فرمایا ھے ، خداوند عالم فرماتا ھے ”وَلَا تَتَّبِعِ الہَوَیٰ “ خواہش نفسانی کی پیروی نکرو ، اور خداوند عالم کا حکم ھے کہ فقط ھمارے نازل کردہ قانون کے مطابق عمل کرو ۔

لہٰذا اگر کوئی شخص خدا کے اس حکم پر عمل نکرے تو اس نے خدا کے حکم سے سرپیچی کی ھے وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب حق اس کے لئے ظاھر اور آشکار ھوگیا ھو اور حقیقت کی علامتوں کو دیکھ رھاھو“[3]

وھابیوںکاخدا کے حکم کی نافرمانی کرنا

بھر حال حق کی پیروی کا معیار یہ ھے کہ جو بھی قرآن نے حکم دیا اس کو تہہ دل سے قبول کرےںاور اس پر سر تسلیم خم کردےں ،ورنہ اس طرح سے تو ھر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ھے اور دعویدار ھے کہ انصاف اور احسان کی راہ پر گامزن ھے جیسا کہ یہ طریقہ نادان اور جاھل افراد کے یھاں رائج ھے بالکل ویسے ھی وھابیت کے روز مرّہ کا معمول بن چکاھے ، چونکہ وھابیوں کے ملاّ اور مفتی اور دین کے بزرگان اکثر اوقات اپنی عادت اور خواہشوں کے مطابق فتویٰ دیتے ھیں نہ کہ قرآن اور پیغمبر(ص)کی سنّت کے مطابق ۔

اس لئے اس آیہٴ شریفہ کا مضمون وھابی فرقہ پر صادق آتاھے:

 ” اگر انھوں نے حق سے روگردانی کی تو اے پیغمبر جان لیجئے کہ خدا یھی چاہتا ھے کہ وہ لوگ اپنے بعض گناھوں میں مبتلا ھوجائیں چونکہ ان میں سے بہت لوگ فاسق ھیں“

اور اس آیہٴ شریفہ کا مضمون بھی انھیں کے حال پر صادق آئے گا :

” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ (قرآن ) کے مطابق حکم نھیں کرتے ،فاسق ھیں“۔

یہ بھی اس صورت میں ھے کہ جب خدا اور رسول کی مخالفت کو جائز نہ سمجھتے ھوں ورنہ اگر جائز سمجھیں تو کافر ھو جائیں گے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ھے ” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکم نھیں کرتے ، وہ کافر ھیں“۔

  ھاں البتہ اگر فرض کریں کہ مسلمان آپس میں کسی مسئلہ سے متعلق اختلاف یا نزاع کریں تو ان پر واجب ھے کہ اس اختلافی موضوع کوخدا اور رسول(ص) پر چھوڑ دیں جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ھے کہ” اگرکسی چیز کے بارے میں نزاع اور اختلاف رکھتے ھو تو خدا اور رسول(ص)کی طرف رجوع کرو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو ۔

اور دوسری جگہ پر فرماتا ھے ” جب بھی کسی چیز کے متعلق  شدید اختلاف نظر ھو جائے تو اس کے حکم کو خدا اور اسکے رسول پر چھوڑدو“ مندرجہ بالا مطلب کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی مسلمانوں کے قول میں سے کسی ایک فرقے کے اعتقاد کا مسخرہ اور مذاق اڑائے نیز اس پرلعن و طعن کرے اور کفرو الحاد سے نسبت دے تویہ سب اور اس طرح کے دوسرے کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا اور تفرقہ اندازی ھے حس سے خداوند عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں منع فرمایا ھے:

” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پھیلا یا اور مختلف فرقوںمیں تقسیم ھوگئے ایسے لوگوں سے کوئی امید نہ رکھو“ ۔

اور فرماتا ھے ” اے ایمان لانے والوں خدا کو اس طرح پہچانو جیسا کہ پہچاننے کا حق ھے اور ایسے کام کرو کہ جب تم مرو تو با ایمان مرو“

اور اس آیہٴ شریفہ میں ارشاد ھواھے ” ان لوگوں کے مانند نہ ھوجاؤ کہ جو لوگ مختلف فرقوں میں تقسیم ھوگئے اور اللہ کی طرف سے روشن اور واضح دلائل آنے کے باوجود آپس میں اختلاف کر بیٹھے چونکہ ان کے انتظار میں ایک عظیم عذاب موجود ھے“۔

قارئین محترم ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم با ایمان لوگوں کو حکم دیتا ھے کہ اس کی رسیّ (دین) کو مضبوطی سے پکڑلیں اور تفرقہ اندازی سے پرھیز کریں“ اور اپنی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے کی تفسیر بھی یہ کی ھے اسکے دین کو قبول کریں اور اسپر ایمان لے آئیں ۔

اس میں کوئی شک نھیں کہ اس آیہٴ شریفہ کی روسے اللہ کا پسندیدہ دین فقط سلام ھے:

 ” اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّٰہِ الاِسلاَم “( بیشک خدا کا پسندیدہ دین اسلام ھے)  اسلام ایمان بھی ھے جیسا کہ اس بات کی تفسیر کلمہ شھادتین میں ھوئی ھے ( یعنی لا الہ الاّ اللّٰہ و محمد رسول اللّٰہ )،اس بنا پر بھی مسلمان ایک ھی دین کے ماننے والے ھیں خداوند عالم نے مسلمانوں کے لئے کچھ حدیں معین کردی ھیں جن سے تجاوز کرنا جائز نھیں ، اس طرح خداوند عالم نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا حرام قرار دیا ھے نیز مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس پر تجاوز اور تعرّض کوبھی ایک دوسرے پر حرام کیا ھے،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ھے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ”تمھاری جان و مال و عزت اور ناموس ایک دوسرے پر حرام ھے جیسے کہ آج تم لوگ محرم ھو،اور احرام حج باندھے ھوئے ھو اس محترم مھینہ ( ذی الحجہ) اور اس محترم شھر مکہ میں تمھاری جان و مال و عزّت اور آبرو نیز ایک دوسرے کا خون بھانا حرام ھے پھر آپ نے سب لوگوں سے پوچھا:

”کیا میںنے تم لوگوں تک اسلام کا پیغام نھیںپھونچا یا؟  آگاہ ھو جاؤ اور حاضرین ، غائبین کو مطلع کریں“صحیح بخاری میں یہ روایت مختلف راویوں سے نقل ھوئی کہ رسول اکرم(ص) نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ” غور سے دیکھو اور توجہ سے سنو اور اسلام کے حقائق اور معارف کو خوب اچھی طرح سمجھو“ کھیں ایسا نہ ھو کہ میرے بعد کافر ھو جاؤ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاوٴ۔

اس مقدمہ کو بیان کرنے سے ھمارا مقصد یہ ھے کہ یہ ثابت کریں کہ وھابیوں کے کارنامے اور اعمال کتاب و سنّت کے خلاف ھیں چونکہ قرآن اور سنّت کافرمان ھے کہ مسلمان کو دوستی و محبت کی فضا ھموار کرنی چاہئے نہ یہ کہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بوئیں اور ان کے درمیان دشمنی ایجاد کریں ان میں سے بعض کو کافر شمار کریں اور مارپیٹ اور برا بھلا کہہ کرظلم و تجاوز کریں ھم اسکے علاوہ وھابیوں سے اور کچھ نھیں کھنا چاہتے :” تِلکَ آیَاتُ اللّٰہِ نَتلُوہَا عَلَیکَ بِالحَقِّ“[4] ،[5]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید
خدا ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتا
شیعہ اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں
ولایت
اور وحدانیت پروردگارپر ایمان کا نتیجہ، عبادت میں ...
اس روایت کے کیا معنی ہیں کہ: " جس نے اپنے نفس کو ...
بندوں کی خدا سے محبت
تمت بالخیر-2
انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
ولي (امام ) کي خصوصآيت

 
user comment