مسلمانوں کی بے ا حترامی اور ان کی تکفیر سے متعلق اسلام کا صاف اور صریح موقف
اب ھم قارئین کرام کی مزید معلومات کے لئے نیز موضوع کی اھمیت کا لحاظ کرتے ھوئے مسلمانوں کو کافر بتانے کے متعلق ایک عمیق اور تفصیلی بحث پیش کرتے ھیں اور اس بحث میں فریقین کے علماء کے نظریات کا بھی جائز ہ لیں گے تا کہ مؤثر اور مفید ھو۔
اسلامی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اگر کوئی کلمہٴ شھادتین زبان پر جاری کرے اورمسلمان ھونے کا دعویٰ کرے تو اسے کافر کھنا جائز نھیں اور فریقین کے اصلی مدارک میں اس موضوع سے متعلق بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں جن میں مسلمانوں کو کافر کھنے سے منع کیا گیا ھے نیز ایسا کھنے یا کرنے والے کی مذمت کی گئی ھے یھاں تک کہ بعض روایات میں تو کافر کھنے والے کو ھی کافر بتایا گیا ھے ان میں سے بعض آیات و روایات کی طرف ھم اشارہ کرتے ھیں۔
خداوند عالم قران مجید میں ارشاد فرماتاھے:
” وَ لَا تَقُولُوا لِمَن اَلقَیٰ اِلَیکُم السَّلاَمُ لَستَ مُؤمِناً “[6]
( جو شخص بھی اسلام کا دعویٰ کرے اس سے یہ نہ کھو کہ تم مسلمان نھیں ھو اس آیہٴ شریفہ کے شان نزول کے متعلق لکھا گیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ” اسامہ بن زید“ کو ان یھودیوں کی طرف بھیجا کہ جو فدک کی کسی آبادی میں زندگی بسر کررھے تھے تا کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں یا کافر ذمّی کے عنوان سے خراج دینے کے شرائط کو قبول کرنے کی دعوت دیں ایک ”مرد اس“ نامی یھودی ، خدا کی وحدانیت نیز پیغمبر(ص) کی رسالت کی گواھی دیتے ھوئے مسلمانوں کے استقبال لئے بڑھا لیکن اسامہ نے اس کے اسلام کو فقط زبانی اسلام ( لقلقہ زبانی) خیال کرتے ھوئے قتل کرڈالا ، اور اسکے مال کو مال غنیمت کے طور پرلے لیا ،اورجب یہ خبر پیغمبر اسلام(ص) تک پھونچی تو آپ بہت رنجیدہ اور ناراض ھوئے اور فرمایا:
تونے مسلمان کو قتل کیا ھے ؟اسامہ نے عرض کی : یا رسول اللہ(ص) وہ شخص اپنی جان بچانے اور مال کی حفاظت کی غرض سے اسلام کا اظھار کررھا تھا تو پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:
” فَھَلاّ شَقَقتَ قَلبَہُ“ تو نے اس کے قلب کو تو چیر کر نھیں دیکھا تھا شاید وہ حقیقت میں مسلمان ھوگیا ھو۔
اسی مضمون کی دوسری روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ھوئی ھے کہ خود اسامہ بن زید راوی ھیں وہ اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ” رسول خدا(ص) نے ھمیں مقام ” جرقَہ“ بھیجااور جب ھم لوگ وھاں پھونچے اورصبح کے وقت ھمارا ان لوگوں سے مقابلہ ھوا اور ان لوگوں کو شکست دی اور باقی لوگ فرار ھوگئے تو ھم نے او رانصار میں سے ایک شخص نے اس فراری کا پیچھا کیا اور جیسے ھی ھم نے اسے پکڑا توفوراً ا سنے” لاالہ الا اللّٰہ “زبان پر جاری کردیا یہ سن کر انصاری شخص نے اس کے قتل کا ارادہ بدل لیا لیکن میں نے آگے بڑہ کر اپنے نیز ے سے قتل کردیا جب ھم لوٹ کر آئے تو یہ خبر اور صورتحال پھلے ھی پیغمبر (ص) تک پھونچ چکی تھی۔
حضرت(ص) نے اسامہ کو دیکھتے ھی فرمایا :اے اسامہ تم نے اس کو اللہ کی وحدانیت کی گواھی دینے کے باوجود قتل کرڈالا؟! اسامہ کا بیان ھے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)یہ شخص اس طرح سے اپنے کو قتل ھونے سے بچانا چاہتا تھا ،آنحضرت(ص) نے اپنے اس کلام کو بار بار دھرایا :” لا الہ الاّاللّٰہ “کھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا؟! آنحضرت(ص) نے اس جملہ کو اس قدر دھرایا کہ میں نے تمنا کی کہ اے کاش میں اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتا۔
اسامہ بن زید نے حضرت کے رویّہ سے جو مطلب اخذ کیا وہ یہ ھے کہ اسکے تمام اعمال نماز وروزہ جھاد وغیرہ اس گناہ کے خلع کو پورا نھیں کرسکتے اور گناہ کے بخشے نہ جانے کا خوف رھا، اسی وجہ سے تمناکی کہ اے کاش اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ھوا ھوتااور اس حادثے کے بعد مسلمان ھوتا۔
ان آیات و روایات سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ اگر کوئی اسلام کا اظھار کرے یعنی کلمہ شھادتین کھے تووہ مسلمان ھے اس کو کافرکھنا یا سمجھنا جائز نھیںھے، اگر ھمارے پاس صرف یھی آیات وروایات ھوتیں، تو مذاھب اسلامیہ اور مسلمانوں کو ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے روکنے کے لئے کا فی تھیں چونکہ جو شخص خودکو ” لا الہ الاّ اللّٰہ “ کی پناہ میں قرار دے وہ محترم ھے اوراسکی جان و مال بھی محترم ھے بلکہ جو افراد اسی نیّت سے کلمہ شھادتین پڑھیں ان کے لئے تو اور زیادہ احترام ھونا چاہئے ،ان سے بغض و عناد رکھنا سب وشتم کرنا، نیز ان کوکافر و فاسق کھنا جائز نھیں حالانکہ اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی صاف اور صریح الفاظ میں بہت سی روایتیں فریقین کے یھاں مختلف روایوں سے نقل ھوئی ھیں۔
ان میں سے ایک روایت یہ ھے نبی مرسل نے ارشاد فرمایا :
” َمن کَفََّرَ مُومِناً صَارَ کاَفِراً“ جو شخص کسی مومن کو کافر کھے وہ خو د کافر ھو جائیگا ۔
اور امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
” مَا شَہِدَ رَجُلٌ عَلَی رَجلٍُ بِکُفرٍ قَطُّ الَابَاءَ بہ اَحَدِہِمَا اِن کَانَ شَہِدَبہ عَلیَ کَافِرٍ صَدَقَ وَ اِن کَانَ مُؤِمنًا رَجَعَ الکُفرُ اِلَیہِ فَاِیَّاکُم وَالطَّعنَ عَلَی المُوٴمِنِینَ“۔
”کوئی شخص بھی کسی کے کفر کی گواھی نھیں دے سکتا مگر یہ کہ ان دونوں میں سے ایک کفر کا مستحق ھو، اگر یہ گواھی کافر کی نسبت تھی ( یعنی مخاطب واقعی کافر تھا) تو گواھی سچی ھے اور اگر مؤمن کے بارے میں کفر کی گواھی دی ھے تو خود گواھی دینے والاھی کافر ھے لہذا مؤمن پر طعنہ زنی سے پرھیز کرو۔
اس مضمون کی روایت کنزالعمال میں وارد ھوئی ھے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا:
” اَیَّمَا إِمرَءٌ قَالَ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَقَد بَاءَ بہَا اَحَدَہُما اِن کَانَ کَمَا قَالَ وَ اِلاّ رَجَعَتْ عَلَیہِ“ ۔
”جو شخص بھی اپنے برادر مؤمن کو کافر کہہ کر خطاب کرے ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر کھلانے کا حق دار ھے اگر مخاطب واقعی کافر تھا تو صحیح کھا لیکن اگر مخاطب کافر نھیں تھا تو خود کھنے والا کفر کا مستحق ھے۔
ایک ا ور روایت صاد ق آل محمد حضرت امام جعفر صادق(ع)سے نقل ھوئی ھے کہ آپ نے فرمایا:
” مَلعُونٌ مَلعُونٌ مَن رَمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍوَ مَن َرمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍ فَہُوَکَقَتلِہِ “
ملعون ھے ملعون ھے وہ شخص جو کسی مومن پر کفر کی تھمت لگا ئے او رجو بھی ایسی تھمت لگائے گویا ایسا ھے کہ جیسے اس نے اسے قتل کر دیا ھو ۔
اور اسی مضمون کی روایت کنز الاعمال میں وار د ھوئی ھے کہ رسول اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:
”اِذَا قَالَ رَجُلٌ ِلاَخِیہِ کَافِرٌ فَہُوَ کَقَتلِہِ وَ لَعَنُ المُومِنِ کَقَتْلِہِ“
”جو بھی اپنے برادر مومن کو کافر کھے ایسا ھے کہ جیسے کسی نے اسے قتل کردیا ھو نیز کسی مومن پر لعنت کرنا بھی اسکو قتل کر دینے کے برابر ھے ۔
ھم اگرگذرے ھوئے زمانہ پر نظرکر یں اور اسلامی مذاھب اور مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کر یں تو ھمیں پتہ چلے گا کہ بہت مرتبہ ایسا ھوا ھے کہ کسی کو فاسق یا کافر کھنا ، بہت سے بے گناہ افرا د کے قتل کا باعث بن گیا ۔
روایت میں ملتا ھے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو لایا جائیگا کہ جس نے دنیا میں اچھے کام انجام دئے ھیں لیکن حساب و کتاب کے وقت اپنے اعمال نامے میں ایک عظیم گناہ کو مکتوب دیکھ کر یہ اعتراض کرے گا ( کہ میں نے یہ گناہ انجام نھیں دئے) تو اسکو جواب دیا جائیگا کہ فلاں کے قتل کا گناہ تیری گردن پر ھے تو وہ کھے گا کہ میں نے کسی ایسے شخص قتل کو نھیں کیا او رمیرے ھاتھ کسی کے خون سے آلودہ نھیں ھیں ، تو اسے جواب ملے گا کہ تم نے فلاں شخص کے بارے میں کوئی بات سنی اور اسکو دوسروں کے سامنے نقل کر دیا ،و ھی بات اثر انداز ھوئی او رآخر کار وہ قتل ھو گیا ،لہٰذا تو اس بات کونقل کر نے کی بنا پر تم اسکے قتل میں شریک ھو ۔
ان تمام روایات کو مدنظر رکھتے ھوئے جو فریقین کے حوالے سے نقل کی ھیں ھم اس نتیجہ پر پھونچتے ھیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کھنا یا کافر سمجھنا ، گا لیاں دینا اورجاھلانہ بغض و عناد اسلامی مذاھب او رمسلمانوں میں فرقہ وارنہ جنگ ، صدر اسلام سے ابتک رواج پاچکی ھے یہ قطعاً حرام ھے ا ورفریقین کی روایات کے صریحاً مخالف ھے ۔
مندرجہ بالا آیات و روا یات نیز اسی طرح کی اور بہت سی روایات کو پیش نظر رکھتے ھوئے بڑی جرآت کا کام ھے کہ روایات میں ان تمام صراحتوں کے با وجود کوئی مسلمان فقط اس نیّت سے کہ اسکے دینی عقائد اور اصول کی طرف قلباً مائل نھیں یا بعض صحابہ کے نا مناسب سلوک اور اعمال کی بنا پر یا اس سے بھی بڑ ھ کر اپنے سیاسی یا اقتصادی مقاصد کی وجہ سے یا اپنے علوم اسلامی سے متعلق، مختلف فھم و فراصت کی بنا پر دوسرے مسلمان پر فسق اور کفر کی تھمت لگائے یا اسلام سے منحرف ھونے کی نسبت دے ۔
( یہ بڑی جرائت کا کام ھے ) لیکن افسوس کہ اسلام کے ماننے والے ، اسلامی اصول اوربنیاد ی مسائل سے جھالت کی بنا پر آپس میں نامناسب سلوک رکھتے ھیں اور یھی نامناسب اور غیر منطقی سلوک مسلمانوں میں تفرقہ اور گروہ گروہ تقسیم ھونے کا سبب بنا ، اس بنا پرھرگروہ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ھے اور ایک دوسرے کو گالی گفتار سے نوازتے ھوئے کفر کے فتوے لگاتا ھے ۔