مذکورہ موضوع پر غیر صریح روایتیں
ان روایات کے علاوہ جو بطور صریح اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کو کافر کھنے سے روکتی ھیں، دوسری روایتیں بھی ملتی ھیںجو اس عمل کے مضّر اور منفی اثرات کو بیان کرتی ھیں،عنوان مذکورہ کے علاوہ اور دوسرے عنوان بھی ھیں جنکا اسلام کی نظر میں حرام ھونا مسلّم الثبوت ھے ۔
ان عنوانوں کے روشن مصداقوں میں سے کسی کو کافر کھنا بھی ھے اور مؤمن کی بے حرمتی یا مؤمن پرتھمت لگانا سبّ وشتم کرنا ، لعنت کرنا حقیر اور ذلیل سمجھنا ، نیز مذاق اڑانا ، سرزنش کرنا، مؤمن کی توھین اور اسکواذیّت وآزار پھونچا نا ، اسکے عیب تلاش کرنا اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی و غیرہ وغیرہ بہت سے عنوانات پائے جاتے ھیں جو سب کے سب غیر صریح طور پر مرتبط مسئلہ کی حرمت پر دلالت کرتے ھیں کہ ان میں سے بعض کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ھیں ۔
مؤمن کی بی حرمتی پر اسلام کی واضح مخالفت
اسلامی قانون میں مسلمان کی جان کی طرح اس کا مال اور عزّت و آبروبھی محترم ھے چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ھے :
” اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی المُسلِمِ دَ مَہُ وَ مَالَہُ وَ عِرضَہُ وَ اِن یَظُنُّ بِہِ سُؤءُ الظَّنِّ“
” خداوند عالم نے ھر مسلمان پر ، دوسرے مسلمانوں کی جان ، مال ، عزّت و آبرو اور ان کے بارے میں بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ھے “
جس نے بھی اس عمل کو انجام دیا ،و ہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ھوا اور گناہ کبیرہ پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ھے ۔
خلاصئہ مطلب یہ ھے کہ مؤمن کی آبروریزی اور بے احترامی کسی طرح سے بھی جائز نھیںھے، چاھے اسکا مذاق اڑانے یا مسخرہ کرنے کے ذریعہ ھو یا اسکی سرزنش، توھین، جھوٹاسمجھنا ، لعنت و ملامت اور تکفیر کرنے کے ذریعہ ھو ،چنانچہ ایک مسلمان کو کافر کھنا سب سے زیادہ واضح نمونہ ھے ۔اس سلسلہ میںحضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھےں:
” مَن رَوَیٰ عَلَی مُؤمِنٍ رِوَایَةً یُرِیدُ بِھَا شَینَہُ وَ ہَدمَ مُرُوََّتِہِ لِیَسقُطَ مِن اَعیُنِ النَّاسِ اَخرَجَہُ اللهُ مِن وِلَاَیَتِہِ اِلیٰ وِلاَیَةِ الشَّیطَانِ فَلاَ یَقبَلُہُ الشَّیطَانُ “
” جو شخص بھی مؤمن کی عیب جوئی اور بے احترامی کی غرض سے کوئی بات کھے تا کہ اسکو لوگوں کی نظروںسے گرا دے تو خداوند عالم ایسے شخص کو اپنی رحمت سے نکال کرشیطان کی سرپرستی میں بھیج دیتا ھے ،اور شیطان بھی اسکو قبول نھیں کرتا “۔
تکفیر سے بدتر اور کون سی قبیح بات ھوگی جو مؤمن کی روحانی ،معنوی اور اعتقادی شخصیت کو پامال کرتی ھے ۔
اسلام میں کسی مؤمن پر تھمت لگانے کی ممانعت
تھمت یعنی کسی انسان کی طرف کسی ایسی بری چیز کی نسبت دینا جو اس میں نھیں پائی جاتی ، دین اسلام نے اس طرح کے برے اعمال کی شدّت سے ممانعت کی ھے ، اور بڑے ھی شدید لہجے میں منع کیا ھے نیز اس قبیح فعل کو بڑے گناھوںمیں شمار کیا ھے ،تھمت اور بری نسبت دینے کی بھی بہت سی قسمیں ھیں ، بھرحال کسی پر بے دینی کی تھمت لگانا تھمت کی سب سے بدترین قسم ھے ، تھمت کے متعلق روایتیں ایسے تمام افراد کے شامل حال ھیں ، ( جو دوسروں پر بے دینی و غیرہ کا الزام لگاتے ھیں )
حضرت رسالت مآب(ص) فرماتے ھیں :
”مَن بَہَتَ مُؤمِناً اَو مُؤمِنَةً اَو قَالَ فِیہِ مَا لَیسَ فِیہِ ، اَقَامَہُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ یَومَ القِیَامَةِ عَلیٰ تَلٍّ مِّنْ نَاْرٍحَتیَّ یَخرُجَ مِمَّا قَالَ فِیہِ
”جوشخص کسی مؤمن یا مومنہ پر بہتان لگائے یا ان کے بارے میں کوئی بری بات کھے جو ان میں نھیں پائی جاتی تو خداوند عالم قیامت میں آگ کی سیڑھی پر اسے روکے رھے گا تا کہ جو بدگوئی ( کسی مؤمن کی نسبت ) کی ھے اس کا بھکتان بھگتے ۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
” مَن ِاتّہََمَ اَخَاہُ فِی دِینِہِ فَلاَحُرمَةَ بَینَہُمَا وَ مَن عَامَلَ اَخَاہُ بِمِثلِ مَا عَامَلَ فَہُوَبَرِیٴٌ مِمَّا یَنتَحِل“
”جوبھی اپنے دینی بھائی پر تھمت لگائے تو ان کے درمیان پھر کوئی احترام باقی نھیں رھا اور جو شخص اپنے برادر دینی کے ساتھ ، وھی طریقہ اپنائے اور ویسے ھی ملے جیسا کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتا ھے تو ایسا شخص مذھب سے خارج ھے ۔
اسلام نے کسی مؤمن پر لعنت اور گالی گفتار سے منع کیا ھے
ایک دوسرے کی طرف بری اور نازیبا نسبت دینا ناگوار الفاظ کھنا جیسے خائن، فاسق ، فاجر ، ملعون و غیرہ کھنا اور اس سے بھی بڑھکر مشرک ، کافر و غیرہ کھنا یا ایسے الفاظ کھنا کہ جن سے کسی مسلمان کی حقارت اور ذلّت ھوتی ھو قطعاً اور یقیناً حرام ھے ، اور بہت سی روایتوں میں اس برے عمل سے روکا گیا ھے ۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں :
”سِبَابُ المُؤمِنِ فُسُوقٌ وَ قِتَا لُہُ کُفرٌ وَحُرمَة ُ مَا لِہِ کَحُرمَةِ دَمِہِ“
”مؤمن کو گالی دینا فاسق ھونے کا سبب ھے اسکے ساتھ جنگ کرنا کفر ھے اور اسکا مال بھی اسکی جان کی طرح قیمتی اور محترم ھے ۔
مزید فرماتے ھیں کہ ” وَلَعنُ المُؤمِنِ کَقَتلِہِ “ مؤمن پر لعنت کرنا اسکے قتل کرنے کے برابر ھے ۔
مسلمانوں کی طرف کفر کی نسبت دینا حرام ھے
ھم یھاں پر اسلامی مذاھب کے ائمہ اور بزرگ علماء اسلام کے فتوے مختصر طور پر پیش کرتے میں ،تا کہ یہ بات روشن ھو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر تھمت لگانا ، کفر و تھمت کے لئے راہ ھموار کرنا، نیز کفر کے فتووںکی اسلام کی نظرمیں کوئی اصل و بنیاد نھیں ھے چونکہ قبیح اورگھناؤنی باتیں نہ اسلام کی حیات بخش تعلیم سے سازگارھیں اور نہ ھی آیات وروایات اور علماء اسلام کے فتاویٰ سے اسکی تائید ھوتی ھے۔
شیعہ علماء کرام کے فتوے
شیعہ مذھب میں عظیم اور بزرگ علماء جیسے شیخ صدوق(رہ) کتاب ھدایہ میں ، شیخ مفید(رہ) اوائل المقامات میں ، محقق حلی (رہ) شرایع الاسلام میں صاحب جواھر(رہ)جواھر الکلام میں ، آیت اللہ الحکیم مُستمسک میںاورجناب آملی (رہ)نے مُصباح الھدیٰ میں ، علامہ مجلسی(رہ) نے بحارالانوار میں ، اور الحاج آقاے رضا ھمدانی (رہ) نے مُصباح الفقیہ ، میںتحریر کیا ھے کہ جو شخص شھادتین (لاالہ الاا لله محمد رسول الله)کا اظھار کرے وہ شخص مسلمان ھے ،اور اسلام کے اجتماعی حقوقی او ر عدالتی احکام اس پر جاری ھوں گے۔
نمونہ کے طور پر شیخ صدوق (رہ) کی کتاب الھدایة کی عبارت پیش خدمت ھے ،موصوف فرماتے ھیں:
”الِاسلاَمُ ہُوَ الاِقرَارُ بِالشَّھَادَتَیںِ وَ ہُوَ الَّذِی یُحقَنُ بِہِ الدِّمَاءُ وَ الاَموَالُ وَ مَن قَالَ لاَ اِلٰہَ اِلّااللهُ مُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ(ص) فَقَد حُقِنَ مَالُہُ وَ دَمُہ‘ُ‘
”اسلام یعنی خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد(ص) کی رسالت کا ا قرار کرنا ،اور جس نے شھادتین کو زبان پر جاری کر لیا اسکی جان و مال ھر طرح کے تجاوز سے محفوظ ھے لہذا جو بھی” لا الہ الاالله محمد رسول الله “کھے اسکی جان و مال محفوظ ھے “
بغیر کسی شک و تردید کے علماء ان فتاویٰ کے ھوتے ھوئے کسی کو بھی، کسی ایسے شخص کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دے سکتے جو کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اگر چہ زبانی ھی اقرار کرے۔
اشعری کا فتویٰ :
”احمدبن زاھرسرخی “جن کا شمار امام ابوالحسن اشعری کے بزرگ شاگردوں میںھوتا ھے، نقل کرتے ھیں کہ وہ(ابوالحسن اشعری ) اپنے زندگی کے آخری لحظات میں میرے غریب خانہ پر تشریف فرماتھے اسوقت مجھے حکم دیا کہ ان کے سبھی شاگردوں اور دوستوں کو ان کے پاس بلاؤں، جب لوگ جمع ھو گئے تو سب کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا:
”اَشھِدُوا عَلَی اِنَّنیِ لَا اُکَفِّرُاَحَداً مِّن اَھلِ القِبلَةِبِذَنبٍ ِلاَنَّہُم کُلُّہُم یُشِیرُونَ اِلَی مَعبُودٍ وَاحِدٍ وَ الِاسلاَمُ یَشمُلُہُم وَیَعُمُُّہُم“
” تم سب لوگ گواہ رھنا کہ میں نے کبھی بھی کسی ایسے شخص کو جوایک قبلہ کا ماننے والا ھے اسکے کسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر نھیں کھا اس لئے کہ وہ سب ایک ھی معبود کی عبادت کرتے ھیں وہ لوگ اسلام میں شامل ھےں، اوروہ سب اسلام کے دائرے میں ھیں “
ابوحنیفہ و غیرہ کا فتویٰ :
”قال ابن حزم ”وَذَہَبَ طَائفَة ٌاِلَی انّہُ لَا یُکَفِّرُ وَلَا یُفَسِّقُ مُسلِمٌ بِقَولٍ قَالَہُ فِی اِعتِقَادٍ اَوفَتیَا … وَہَذَا قَولُ اِبنِ اَبِی لَیلیٰ وَ اَبِی حنیفہ و الشافعی و سفیان الثوری و داؤد ابن علی و ھو قول کل من عرفنا لہ قولاً فی ھٰذہ المساٴلة من الصحابة و لا نعلم فیہ خلافاًفی ذلک“
ابن حزم ( جن کا شمار فرقہ ظاھر یہ کے رھبروں میں ھوتا ھے ) کہتے ھیںکہ علماء کاایک گروہ اور جماعت کا نظریہ یہ ھے کہ کسی مسلمان کو اسکے عقیدہ یا ایسے فتووں پر عمل کرنے کی وجہ سے جومشھو ر نھیں ، فاسق یا فاجر نھیںکھاجاسکتا اور یھی نظریہ ابی لیلیٰ جو ابو حنیفہ کے ھم عصر تھے اور ابو حنیفہ ،شافعی ، سفیان ثور ی ( ابو حنیفہ کے دوسرے ھم عصر ) اور داؤد بن علی کا نظریہ ھے ، اور ھم نے کسی صحابی کو بھی اس نظریہ کا مخالف نھیں پایا ۔
جب شیخ الاسلام تقی الدین سبکی سے اھل ھوا و ھوس اور بدعت کرنے والوں کی تکفیر کے متعلق سوال ھو تا ھے تو وہ جواب میں تحریر کرتے ھیں :
”اے میرے بھائی یہ بات ملحوظ خاطر رھے کہ کسی مؤمن کے کفر کے متعلق اظھار کرنا نھایت مشکل اور سخت کام ھے ، لہذا جوشخص مؤمن ھو اسکے لئے کسی ایسے شخص کو جو” لا الہ الاالله محمدرسول الله“ کا اقرار کرتا ھے ، فقط ھوا پرستی یاکسی بدعت کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت ھی خطرناک کام ھے اور کسی کی طرف بھی کفر کی نسبت دینا کوئی آسان کام نھیں ۔
اور دوسری جگہ پر جب ان سے غالی ، بدعتی اور ھوا پرست متکلمین او ر فلاسفہ سے متعلق سؤال ھو تا ھے تو فرماتے ھیں کہ یہ جان لینا چاہئے جسکے دل میں الله عزو جل کا خوف ھو وہ کسی ایسے شخص کے کفر کے متعلق زبان کھولنے گی ھرگزجرات نھیںکر سکتا جو ” لاالہ الاالله او ر محمد رسول الله “کا اقرار کرنے والاھے ۔۔۔ نیز انھوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا کہ کوئی شخص بھی کسی مؤمن کو کافر نھیں کہہ سکتا مگر یہ کہ خود اصول دین سے خارج اور کلمہ شھادتین کا منکر ھوجائے نتیجہ میں ایسا شخص اسلام کے دائرے سے خارج ھوجائیگا “ ۔
اوزاعی کہتے ھیں:
” خدا کی قسم اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے تب بھی شھادتین کا اقرار کرنے والے کوکافر نھیں کہہ سکتا “
حسن بصری فرماتے ھیں:
جب ان سے نفس پرستوں کے متعلق سؤال کیا گیا تو اپنے جواب میں فرمایا کہ تمام وہ افراد جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ، ھمارے رسول(ص) کے امّتی ھیں اور یقیناً جنّت میں جائیں گے۔
زھری ، سفیان ثور ی اور سعیدبن مسیّب و غیرہ جیسے بزرگ علماء بھی کسی مسلمان کو کافر کھنے کی اجازت نھیں دیتے اور اس کی تکفیر کو حرام جانتے ھیں ۔
لہٰذا جب یہ ثابت ھوگیا کہ کسی پر تھمت لگانا یا کسی مسلمان کو کافر کھنا بے بنیاد بات ھے اورآیات و روایات کی روشنی میں اسلام کی شدید مخالفت بھی اس موضوع سے متعلق ظاھر اور روشن ھوگئی تو تمام مسلمانوں پر خصوصاً ان علماء پر کہ جو دین اور شریعت کے محافظ ھیں ، واجب اور ضروری ھے کہ معاشرے کے دامن سے اس کثیف اور ننگین دھبّہ کو مٹانے کی کوشش کرےں اور ان منحوس باتوں کا معاشرے سے نام ونشان تک مٹا دیں اور مسلمانوں کو ان بے بنیاد باتوں سے جو مصیبتیں مشکلات، کدورتیں، تفرقہ بازی اور جنگ و جدل سے نجات دلاکر آسودہ خاطر کریں عقیدہ اور فرعی احکام میں فقط اسلامی اصولوں پر اعتماد کرتے ھوئے معاشرے میں اخوت اور بھائی چارگی کی فضا دوبارہ ھموار کریں، آپس میں سماجی رابطوں اور تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور تمام مسلمانوں کو متحد ھوکر الله کی رسّی ( دین )کو مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت دیں ، یہ الٰھی اور اسلامی انقلاب جو سرزمین ایران پر ظھور پذیر ھوا اسکی قدردانی کرتے ھوئے آپس میں بے وجہ کینہ اور کدورتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سب کو ایک صف میں کھڑے ھوکر ایک جسم وجان کے مانند اسلام کے لئے ایک مضبوط حصار میں تبدیل ھوجائیں اور سامراج اور ظالم طاقتوں کا نام ونشان مٹادیں ،اس امید کے ساتھ کہ الله کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوریکجہتی کی فضاقائم ھو ، اور اس کے سایہ میں اسلامی برادری اپنی عزت و عظمت کو دوبارہ حاصل کرلیں تا کہ پھرکسی کو اپنی عظمت رفتہ کا ماتم نہ کرناپڑے ۔[7]