وھابیوں کے ھاتھوں اھل کربلا کا قتل عام
وھابیوںکی زندگی کی بھیانک اور تاریک تاریخ میں وہ دردناک غم انگیز اور دل، ھلا دےنے والے حادثات نظر آتے ھیں ،جوایک زمانہ گذر جانے کے باوجود بھی بھلائے نھیں جاسکتے ، ان میں سے ایک حادثہ کربلا کے مقدس شھر پر ۲۱۶اھ میں افسوسناک حملہ کی شکل میں پیش آیا ، ھم اس دردناک قتل عام واقعہ کا خلاصہ” ڈاکٹر سید عبدالجواد کلید دار“ کی کتاب” تاریخ کربلا“ نامی کتاب سے نقل کررھے ھیں وہ لکھتے ھیں کہ :
”واقعہ عاشورا کے دردناک واقعہ کے بعد تاریخ کربلامیں جو سب سے بڑا افسوس ناک اور ھولناک واقعہ ھواھے وہ وھابیوں کے ھاتھوں کربلاکے لوگوں کا قتل عام ھے جو ۶ا۲اہجری میں پیش آیا ، یہ دل کو لرزادینے والادردناک حادثہ جس کے شعلہ ، چنگاریاں اور اثرات تمام اسلامی اور یورپی ملکو ں میں اب بھی باقی ھےں ، مسلمانوں اور مغربی تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کے غم انگیز اور دردناک اثرات کے متعلق بہت کچھ لکھاھے اور لکھتے رہتے ھیں نیز اس واقعہ کو کربلاکی تاریخ میں دوسرے دردناک واقعہ کے عنوان سے یادکرتے ھیں ۔
ایک انگیریز ”اسٹیفن ھمیسلی، لوئیکر “ اپنی ” تاریخ عراق کی چارصدیاں “ نامی کتاب میں لکھتا ھے کہ نجدی عربوں کا بار ھویں صدی ہجر ی کے اواخر تک وھی عقیدہ اور مذھب تھا جو باقی سارے مسلمانوںکا عقیدہ اور مذھب تھا اور دونوںمیں کوئی فرق نہ تھا، یہ اس زمانے کی بات ھے جب محمدبن عبدالوھاب نے اپنے نئے نظریات او رافکار کا نشانہ بادیا نشین عربوں کو بنایا تھا ۔
اس زمانے میں محمدبن عبدالوھاب کے نظریات کوسب سے پھلے محمدبن مسعود نے قبول کیا جو عرب کی بادیا نشین آبادی کا بادشاہ تھا ۔
محمدبن عبدالوھاب کہ جس نے بغداد میں تعلیم حاصل کی پھر مدینہ کا رخ کیا تب مقام عوینہ (جو حجاز میں واقع ھے ) کی طرف لوٹ آیا ۔
وہ دردناک واقعہ جو وھابیوںکی قساوت قلبی ، سنگ دلی ، درندگی اور حرص و ھوس پرستی پر دلالت کرتا ھے کہ جسکو وہ ( وھابی ) دین او ردینداری سمجھتے ھیں وہ واقعہ ھے کہ جب وھابیوںکے لشکر نے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پیش قدمی کی ۔
وھابی لشکر کے شھر کربلا کے قریب آنے کی اطلاع اس وقت ھوئی کہ جب کر بلا کے رھنے والے اکثر افراد زیارت کی غرض سے نجف اشرف گئے تھے اور باقی لوگ جو کربلا میں موجود تھے دروازوں کو بند کرنے میں مشغول ھوگئے ۔
وھابیوں کا لشکر چار سو سوار اور چھ سو پیادہ افراد پر مشتمل تھا ، یہ ایک ہزارسپاھیوں پر مشتمل لشکر شھر کے باھر پڑاؤ ڈال کر خیمہ زن ھوا ، پھر اپنی فوج کو تین دستوں میں تقسیم کرنے کے بعد آخر کار ”باب المحیّم“نامی محلہ کی جانب سے شدید حملہ کرنے کے بعد شھر میں داخل ھو گئے ۔
لوگ چار و ںطرف سے تتر بتر ھو کر بھا گ کر جان بچانے کی کوشش کر رھے تھے تب وھابیوں نے امام حسین (ع) کے روضہ کا رخ کیا اور راستہ صاف کرکے روضہ منور تک جا پھونچے روضہ میں گھس کر حضرت کی مقدس ضریح کو توڑدیا اور نھایت بی حرمتی کی اور روضئہ مبارک کی تمام نفیس اشیاء قیمتی ھدایا ، شمعدان ، جھاڑ فانوس بیش بھا قالینیں اور گرانقیمت چراغدان ، گنبد میں لگا ھوا سونا اور تمام ھیرے و جواھرات اور اس طرح کی بہت سی قیمتی چیزوں کو لوٹ کر شھر سے باھرنکل گئے ، اس ظلم و تشدّد پر ھی اکتفاء نہ کیا بلکہ روضہ اقدس کے صحن میں نیز مقدس ضریح کے پاس ظلم و بربریت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت بلبلا اٹھی، شیشہ اور آئینوں سے روضہ مبارک کی مزیّن در و دیوار کو مسمار کرتے ھوئے ضریح کے نزدیک پچاس مؤمنین کو ا ورصحن اطھرمیں پانچ سو بے گناہ زائرین کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا ۔
سفّاک ، سنگدل اور وحشی درندوں نے شھر میں ھر طرف تباھی، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا جو بھی نظر آیا ذرّہ برابر رحم کئے بغیر اسے قتل کردیا ،گھروں کو تاراج اور شھر کو ویران کردیا، اس قتل و غارت گری میں مرد عورت پیرو جوان ضعیف و کمزور یھاں تک کہ بچوں پر بھی رحم نہ کیا ، کوئی بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکا ، مورخین نے قتل ھونے والوں کی تعداد اکی ہزار اور بعض نے فقط زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی ھے،مدینہ کے وھابی ملاؤں نے ۳۴۴اھ میں جنّت البقیع اور دوسری جگھوں پر مقدس قبروں کو مسمار اور منھدم کرنے کا فتویٰ صادر کردیا اس سال ۸شوال کو شہزادی کو نین صدیقہ طاھرہ دختر رسول(ص) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبّہ مبارک کو منھدم کرنے کا فتویٰ جاری کیا اس فتوے کے فوراً بعد شہزادی کو نین کی قبر مبارک کو منھدم کردیا گیا ۔
اسکے بعد ھمارے چار امام یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) امام زین العابدین (ع) امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے مبارک مرقدوں اور رسولخدا کے چچا جناب عباس پیغمبر اکرم(ص) کے فرزند جناب ابراھیم (ع) اور آنحضرت(ص) کی پھوپھیوں اور بیویوں کی قبروں نیز جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر مبارک اور اسلامی لشکر کے سردار رسول خدا کے چچا جناب حمزہۻ کی قبر مقدس کوبھی منھدم کردیا یھاں تک کہ نشان قبر بھی مٹا نے کی کوشش کی گویا یہ بھیانک جرائم کرکے اس آیہٴ شریفہ پر عمل کرنے کا ثبوت دیا :
” قُل لَااَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ “[8]
اے پیغمبر ان سے کھدو کہ میں اپنے اقرباء کی مودّت اور محبت کے سوا ء تم لوگوں سے کسی اجر کا طلبگار نھیں ھوں ۔
شیعہ مذھب کے عالی مقام مجتھد اور عظیم مرجع آقائے محمد باقر اصفھانی کہ جو وحید بھبھانی کے نام سے مشھور ھیں ، ان کے نواسے ایک بزرگ اور مشھور عالم علامہ آقائے احمد کرمانشاھی جو اس زمانہ کے مشھور علماء میں سے ھیں اپنی ” مرآةالاحوال جھاں نما “ نامی کتاب میں وھابیوں کے کربلا پر ظالمانہ حملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ھیں یھاں پر اس کتاب سے کچھ باتیں پیش کردینا مناسب سمجھتے ھیں ،علامہ احمد کرمانشاھی جو اسوقت ( کربلامیں وھابیوں کے ظالمانہ حملہ کے موقع پر ) کرمانشاہ میں تشریف فرماتھے اس طرح تحریر فرماتے ھیں:
” ان دنوں وھابی جماعت کی کربلائے معّلیٰ اور اس پاک ومقدس شھر میں قتل و غارت گری جو خبریں موصول ھوئی ھیں ان کا خلاصہ یہ ھے اس مقدس شھر ( کربلا) اور اسکے اطراف وجوانب میں ساکن افراد ۶ا۲اھ میں عید غدیر کے موقع پر حضرت علی (ع) کے روضئہ اقدس کی زیارت اور حضرت کی ڈیوڑھی پر بوسہ دینے کی غرض سے نجف اشرف گئے ھوئے تھے اور اس شھر میں موجود نہ تھے ، بدنھاد اور منحوس سعود (بادشاہ وقت ) کو جب اس بات کی خبر ھوئی کہ کر بلا کامقدس شھر خالی ھے ، اس نے اس شھر مقدس کو راتوں رات گھیر لیا ، جس وقت ذی الحجہ کے مھینے میںغدیرکے دن مومنین زیارت اور عید کی تیاری میں مشغو ل تھے ، قلعہ کو پوری طرح سے محاصرہ میں لے لےا ،افرادکی کمی اور سامان جنگ کی قلّت اور وھاں کے حاکم ” عمد ناصبی “ کی سستی کی وجہ سے مومنین کی کمر ٹوٹ گئی اور لوگوں کی قوت دم توڑگئی اور مرکز ضلالت کی گمراہ فوج نے قلعہ کے دروازہ کو توڑکر نیز اطراف و جوانب سے شھر میں داخل ھوکر قتل و غارت گری شروع کردی چنانچہ تین ہزار مقدس مجاور اور زائرین درجہ شھادت پر فائز ھوئے ، اور قبہ مبارک نیز حضرت سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کے روضہ اقدس کو ناقابل تلافی نقصان پھونچا اور ضریح مقدس کے جوارمیںبسنے والوں کے گھروں کو تاراج کرڈالا اور زوال کے بعد اس منحوس فوج کے مقام درعیّہ کی طرف چلے جانے کے بعد ظلم اور بربریت کا یہ کھیل ختم ھوا ۔[9]
میر عبداللطیف شوشتری جو شھر شوشتر کے نورانی سلسلہ سادات اور سید نعمت الله جزائری کی نسل میں سے ھیں اور صفوی حکومت کے آخر ی دور کے مشھور ومعروف مجتھد اور فقیہ ھیں ، موصوف اپنی” تحفہ العالم “نامی کتاب میں جو ایک سفرنامہ ھونے کے باوجودتاریخی جغرافیائی شعر و ادب اور ھندسہ شناسی کے متعلق اپنے دامن میں بہت سے اھم نکات لئے ھوئے ھے اور فارسی زبان کے سیاست سے متعلق ایک اھم اور قدیمی کتابوں میں شمار ھوتی ھے ، محمد بن عبدالوھاب کے نمایان ھونے اور اسکی منحرف تعلیم و تریبت نیز اسکی باطل فکروں ، کربلائے معلّیٰ پرحملہ ، ضریح مقدس اور قبروں کومنھدم کرنے کے متعلق بہت ھی روشن بیانات ملتے ھیں قارئین محترم کومکمل فائد ہ ،نیز معلومات میں اضافہ کی خاطر مرحوم مجتھد کے بیان کو یھاںپر بیان کردینا مناسب ھے ۔
آپ اپنے سفرنامہ کے اختتام میں کہ جو’ ’ ذیل التحفہ“ کے نام سے موسوم ھے ، تحریر فرماتے ھیں :
”بھرحال جس وقت میں وھاں تھا تو عبدالعزیز وہّابی کی کدورتوں کی خبر موصول ھوئی کہ اس نے ۸اذی الحجہ ۶ا۲اھ میں عرب کی بدّو فوج کو لے کر کربلائے معلّیٰ کی مقدس سرزمین پر چڑھائی کی، اور تقریباً چار پانچ ہزار مؤمنین کو تہہ تیغ کرڈالا ، اور روضئہ منوّرہ کی جو بے ادبی اور بے حرمتی کی ھے، اسے قلم لکھنے سے قاصر ھے ، شھر کو برباد اور غارت کردیا ، مال و اسباب لوٹ لیا اور تباھی مچانے کے بعد اپنے وطن ”درعیّہ“ کی طرف چلاگیا “
جب بات یھاں تک پھونچ گئی تو مناسب ھے کہ کچھ باتیں وھابیوں کے حالات کے بارے میں رقم کردی جائیں تا کہ قارئین محترم وھابی مذھب سے پورے طور پر آگاہ ھوجائیں ،اور تشنگی محسوس نہ کریں۔
شیخ عبدالوھاب جو وھابیت کی اصل و بنیاد ھے ،نجد کے علاقہ درعیّہ سے تعلق رکھتا تھا ، اپنے زمانہ میں اپنے ھم عمر لوگوں کے درمیان ذھانت میں مشھور تھا ، اور چالاک سمجھا جاتا تھا ،اور سخی بھی تھا ، لہذا جو بھی اسکی دست رسی میں ھوتا تھااپنے تابعین اور مددگاروں میں خرچ کر دیتا تھا،اپنے ھی وطن میںتھوڑی بہت عربی علوم کی تعلیم حاصل کی ، بھر حال حنفی فقہ میں تھوڑی بہت جانکاری کے بعداصفھان کی طرف سفر کیااور و ھاں کے یونانی فلسفی ماحول میںیونانی فلسفہ کے مشھور اساتذہ سے فلسفہ یونانی کے کچھ مسائل سیکھے اور یونانی فلسفہ جو اپنی دلیل خود ھی باطل کرنے کے مترادف ھے او رگویا اپنے لئے خود ھی قبر کھودنے کے برابر ھے ،میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے وطن واپس چلا آیا اور ۱۱۷۱ھ میں وھابی مذھب کا علمبردار بن کر ابھرا ، وہ حنفی طریقہ پر عمل پیرا تھا اور اصول میں امام ابوحنیفہ کا مقلّد تھا اور فروع دین میں اپنی رائے پر عمل کرتا تھا ،آخر کار اصول کے بعض مسائل میں بھی ابوحنیفہ کی تقلید کے طوق کو گردن سے اتار کر پھینکا اور اپنی مستقل رائے کا اظھار کرنے لگا، اپنی ذاتی رائے کے مطابق جو بھی اس کو اچھا لگتا تھا وھی کہتا تھا اور اس پر لوگوں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اس کی اپنی ذاتی رائے تھی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے یھودی ،عیسائی اور تمام لوگ مشرک او رکافر ھیں اور سب ھی کو بت پرستوں کے زمرے میں شمار کرتا تھا او راپنی اس باطل رائے پر یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ مسلمان حضرت رسول اکرم(ص) کی قبر منور پر ،ائمہ ھدیٰ اور اولیاء، اوصیاء کے مقدس روضوں اور پُر نور قبروں سے متوسل ھوتے ھیں، جو خود مٹی اور پتھر سے بنے ھوئے ھیں او رقبر میں سونے والے مردوں سے توسل کرتے ھیں، ان کی قبروں کے سامنے سجدہ کرتے ھیں ان کے آستانوں پر جبین نیاز خم کرتے ھیں۔
حالانکہ حقیقت میں یہ بت پرستی اور بتوں کی عبادت ھے کہ اگر بتوں کی تصویر یا خود بت یا اس کی مخصوص شکل کو خدا نہ سمجھیں بلکہ یہ کھیں کہ یہ ھمارا قبلہ ھے اور فقط اس کے واسطے سے اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ھیں جیسا کہ یھودی اور عیسائی کلیساؤں او راپنی عبادتگاھوں میں حضرت موسی ٰ (ع) او رحضرت عیسیٰ (ع) کی تصویر نصب کرکے خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ھیں جب کہ خدا کی عبادت یہ ھے کہ ذات اقدس کے لئے عبادت کرےں اور سجدہ ریز ھوں او رکسی کو خداوندعالم کا شریک قرار نہ دیں۔
گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ اس کے بعض مددگار قبیلوں نے اس کی پیروی کی اور اس طرح نجد کے دیھاتی علاقوں میں مشھور ھوگیا وہ ھمیشہ حضرت رسول اکرم(ص) کے روضہ کی گنبد اور ائمہ کے روضوں کے منھدم کرنے سے متعلق موضوع کو ورد زبان رکھتا تھا اور اس کو اپنا نصب العین اور اپنے منحوس مقاصد کی کامیابی میں رکاوٹ سمجھتا تھا ،وہ ھمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اگرقدرت وطاقت حاصل ھوجائے تو سب روضوں کو تباہ و برباد کرکے ان مقدس آستانوں کا نام و نشان تک مٹادیں لیکن موت نے اسے مھلت نہ دی اور مرگیا ۔
یھاں تک کہ عبدالعزیز جو محمد بن الوھاب کا ھم عصر تھا خود بھی اور اسکا بیٹا سعود کہ وہ دونوں خلیفہ، جانشین اور امیرالمسلمین جیسے ناموں سے موسوم تھے،انھوں نے بھی نجد اور اسکے اطراف و جوانب کی بستیوں پر اکتفا ء نھیں کی بلکہ دور درازکے شھروں اور علاقوں کو بھی اسی طور طریقہ پر عمل کرنے کو کھا اور انھیں طو رطریقوں کو رائج کرنے میں بہت کو شاں رھے نیز اپنے پیروکا روں کے لئے تمام مسلمان فرقوں کے جان و مال کو حلال قراردے دیا اور اپنے لشکر اور اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس علاقہ میں جاؤ و ھاں کے مردوں کو قتل کرڈالومال و دولت لوٹ لو، لیکن عورتوں اورناموس پر ھاتھ نہ ڈالو اور لشکر کے ھر فرد کو جنگ کے وقت ایک رقعہ خازن جنّت کے نام لکھ دو تا کہ وہ اپنی گردن میں لٹکالے تا کہ جس وقت اسکی روح جسم سے جدا ھو فوراً بغیر کسی سؤال و جواب اور تاخیر کے بہشت میں داخل ھوجائے ، اسکے مرنے کے بعد اس کی آل و اولادکی ذمہ داری لے لی ، اس طرح سے ھر فوجی، مال و دولت او رجنّت کی لالچ میں سکون او راطمینان کے ساتھ جنگ میں قدم رکھنے لگا ۔
چونکہ اگر فتح ھوئی تو مال اور دولت ھاتھ آئے گا او راگر قتل ھوگیا تو اس رقعہ کی وجہ سے ( جو خازن جنّت کے نام اسکی گردن میں آویزاں ھے ) بغیر حساب وکتاب کے جنّت میں داخل ھوجائےگا۔
اس طرح گذشتہ سالوں میں نجد کے آس پاس کے علاوہ اور دوسرے شھر مثلاً احساء ، قطیف، اور بہت سے عرب علاقوں پر ، بصرہ کی حدود تک دوسری طرف عمان کے قریب علاقوں تک اور بنی عقبہ کے تمام علاقوں پر قھر اور غلبہ سے قابض ھو گئے ، لوگوں نے قتل وغارت اورتاراجی اور قید و بند کے مصائب سے تنگ آکر مجبوراً ان کے مذھب اور طو رطریقوں کو اپنا لیا ، اس طرح اسکی حکومت اور اقتدار کا اثر دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا چندمرتبہ ان کے قھر و غلبہ کے متعلق روم کے بادشاہ اور عجم کے دوسرے بادشاھوں تک یہ خبر بھیجی گئیں اسکے باوجودکسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہ کی اور نہ ھی ان کے مقابلہ اور دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھایا ،اس کے بعد صاحب کتاب تحفة العالم اس رسالہ کا بعض حصّہ نقل کرتے ھیں جو محمدبن عبدالوھاب نے اپنے اعتقاد اور فتووں کے متعلق لکھا ھے جیسا کہ آپ فرماتے ھیں کہ میں نے مذکورہ رسالہ کو محمدبن عبدالوھاب کے ماننے والے کے پاس دیکھا ھے اس رسالہ کو عربی ھی میں نقل کرنے کے بعد یہ تحریر فرماتے ھیں۔
اگر چہ اسکی اکثر دلیلیں جو اس نے قرآن کی آیتوں سے استدلال کے طور پر پیش کی ھےں، ان سب کا جواب بھی قرآن ھی کی آیات میں موجود ھے مثال کے طو رپر شعائر اللهکی تعظیم وتکریم رسولخدا(ص) کی اطاعت جو خداوند عالم کی اطاعت ھی میں مضمر ھے لہٰذا جب رسول(ص) کی اطاعت کا فرض اور واجب ھونا ثابت ھوگیا جیسا کہ یہ آیت بھی اطاعت رسو ل(ص) کی تائید کررھی ھے:
” وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الہَوَیٰ اِن ہُوَ اِلاّٰ وَحیٌ یُوحیٰ“
آنحضرت(ص)کے فرمان کے مطابق جنت اور ارکان دین کا زبان سے اقرار کرنا بھی مھم ترین واجب او رفریضہ ھے اور جو کچھ آنحضرت یا صاحبان امر سے اپنی مشکلات اور مصیبتوں میں اپنے منافع یا اپنے ضرر سے بچنے کے لئے اپنی زندگی کی خوشحالی یاتنگ دستی کے ایّام میں یا آخر ت میں نجات سے متعلق متوسل ھو، تو اپنے اور خدا کے درمیان ان حضرات وسیلہ اور شفیع قرار دے تو نہ کوئی حرج ھے اور نہ اس سے کسی عقیدہ کو کوئی ٹھیس پھونچتی ھے لیکن وھابی افراد یا محمدبن عبدالوہّا ب کے پاس اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑی اورخطرناک دلیل شمشیر برّان اور تیغ آبدار ھے ، اور ایسی دلیل کا جواب تلواروںکی تیز دھاروں کے علاوہ کچھ نھیں ھوسکتا [10]
خونین حج او رمسلمانوں کے قتل عام کا دردناک واقعہ
”اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا ویَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللهِ وَالمَسجِدِ الحَرَامِ الَّذِی جَعَلنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَاءً العَاکِفِ فِیہِ وَالبَادِ وَ مَن یُرِد فِیہِ باِلِحَادٍ بِطُلمٍ نُذِقْہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ“[11]
” بے شک جو لوگ کافرھوبیٹھے اور خدا کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) سے جسے سب لوگوںکے لئے ( عبادتگاہ ) بنا یا ھے ( اور ) اسمیں شھری اور بیرونی سب کا حق برابر ھے (لوگوں کو) روکتے ھیں(انکو ) اور جو شخص اسمیں شرارت سے گمراھی کرے اسکو ھم دردناک عذاب کامزاچکھا دیں گے “
بغیر کسی شک وشبہ کے حج ایک اھم انسان ساز او راسلام کو پھیلانے کے لئے بہت ھی عظیم عبادت اور نھایت مؤثر ذریعہ ھے، حج میں بہت سی ایسی خصوصیات او رصفات پائی جاتی ھے جو حج کو تمام عبادتوں سے ممتاز بنادیتی ھےں ، ھم یھاں پر حج کو مختلف گوشوں اور پھلووں کی طرف مختصرسا اشارہ کریں گے اور پھر اس دردناک اور افسوس ناک واقعہ کے متعلق کچھ بیان کریں گے جو سعودی حکومت کے نوکروں نے ایرانی ( اور غیر ایرانی ) حاجیوں کا حج کے دوران قتل عام کیا ھے ۔