حج، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ھے
اور کسی مخصوص قوم یا نسل سے تعلق نھیں رکھتا
خداوند عالم قرآن مجید میں حج کے متعلق فرماتاھے ۔
”وَاَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاتُو کَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ“[12]
”اور لوگوں کے در میان حج کا اعلان کرو تا کہ لوگ ھر طرف سے جس طرح بھی ممکن ھوپیدل یا سوار ھو کر دور دراز علاقوں سے آ پ کی آواز پر لبیک کھیں اور خانہ خدا کی زیارت سے مشرّف ھوں ،اور حج کے لئے ھر ممکن وسیلہ سے استفادہ کریں “
قرآن مجید دوسرے جگہ فرماتا ھے: سَوَاءً العَاکِفِ ِفیہِ وَ البَادِ“
خانہ خدا سب کے لئے برابر ھے چاھے مقامی افراد ھوں یا با ھرسے آنے والے مسافر،لہٰذا حج خدا کے سامنے تمام انسا نوں کو برابری کو کا درس دیتا ھے،اور حج انسانوں کے آپسی تعلقات میں مساوات کا عملی درس ھے ، اور انھی مفاھیم کے پیش نظر حج کے سیاسی پھلو کی ابتدا ھوتی ھے،لہٰذا حج برابری اور مساوات کا اعلان ھے اور تبعیض جیسی ظالم اور درد ناک رسوم کے باطل کرنے کا حکم اور احساس برتری جیسی لعنت کو معاشرے سے دور کرنے کا اعلان ھے۔
قرآن اور وحی کی اصطلاح میں حج کسی خاص سرزمین کے افراد سے مخصوص نھیں بلکہ یہ خدا کی عبادت کے لئے ایک عام دعوت ھے حج کے روحانی سفر میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نھیں رکھتا ۔
اس معنوی سفر میں مقام کا دور ھونا بھی قریب محسوس ھوتا ھے قران مجید کے فرمان کے مطابق وہ مسجد جو حرم کعبہ میں بنائی گئی ھے اور تمام لوگوں کے لئے نماز ودعا اور طواف کی جگہ اور مقام ھے کہ ، سب لوگوں کے لئے برابر قرار دی گئی ھے لہذا اس اعتبار سے مکہ میں رھنے والے اور دور درازسے آنے والے مسافروں میں کوئی فرق نھیں ھے ، حج اس دنیا سے تعلقات اور روابط سے جدا ھوکر خداوند عالم کی طرف ایک طرح کی ہجرت ھے۔
معمار کعبہ وہ بت شکن اور مجاھد مرد تھا جو ھمیشہ ظلم سے برسرپیکار رھا اور ایسا اھل سیاست تھا جو اپنے زمانے میں رائج ایسے سیاسی نظام سے ٹکرایا جس میں بت پرستی ایک عام بات اور لوگوں کو جاھل رکھنارواج پاچکا تھا ،اور ان کی مقدس ترین چیز بتوں کو توڑ ڈالا اور اس عمل سے ان ظالموں کے ظاھر بظاھر اعلان جنگ فرمایا لہذا اس اعتبار سے بھی حج ایک سیاسی پھلو رکھتا ھے چونکہ کعبہ کا بنانے والا معمار اور بانی ایک سیاسی مدبّر ،مجاھد ، یکتاپرست اور ایثار وقربانی دینے والا شخص تھا ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاھے :
”وَطَہِّرَبَیتِی لِلطَّائِفِینَ وَ القَائِمِینَ وَالرُّکعَّ ِالسُّجُودِ“[13]
”اے ابراھیم تم ھمارے گھر کو طواف کرنے والوں،قیام کرنے والوں اوررکوع و سجودکرنے والوں کے لئے پاک وپاکیزہ بناؤ“
اس آیت کی روسے خانہ کعبہ کو ھر نجاست سے پاک و پاکیزہ ھونا چاہئے اور چونکہ خود قرآن مجیدمیں شرک کو گناہ اورگناہ کو نجاست کھاگیا ھے ،لہٰذا حرم امن الٰھی میں ظلم و ستم کے لئے کوئی جگہ نھیں اور حرم الٰھی کو ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ بنا نالازم اور ضروری ھے ،آیہٴ شریفہ میں ”وَطَہِّر بَیتِی “ے فقط ظاھری نجاست سے پاک و صاف کرنا ھی مراد نھیں ھے بلکہ حرم امن جو حضرت جبرئیل کے رفت آمد کی جگہ ھے مشرکوںکے شرک اور ظالموں کے ظلم سے پاک وپاکیزہ کرنا بھی مراد ھے ،یعنی خدا وند عالم فرماتا ھے کہ میرے گھر کو ظلم و ستم کی نجاست سے پاک و پاکیزہ رکھو ،لہٰذا خانہ خدا سے ظلم و ستم نیز ظالموں کو مٹانا ایک طرح سے خانہ خدا کو پاک رکھنا ھی ھے ،اور یہ کا م طبّی دستور کے مطابق ایک معنوی اور روحانی فریضہ ھے ویسے ھی ایک عظیم سیاسی وظیفہ بھی ھے ،تب ھی خداوند عالم تھدید و خوف دلا رھا ھے کہ جو ظالم بھی حرم کعبہ پر تجاوز کا ارادہ کرے (چاھے کعبہ کی ظاھری شکل کو ختم کرنا چاھے یا اسکے روحانی اور معنوی اثر کوختم کرنا چاھے ) یا حاجیوں کو روکے (زمانہ حاضر کی طرح رسوم شرعیہ اور اعمال و مناسک حج پر عمل کرنے سے روکے ) اور ظلم کے ساتھ شرک پھیلا ئے تو ایسا شخص اپنے شرمناک ارادہ میں کامیاب ھونے سے پھلے ھی دردناک عذاب میں مبتلا ھو جائیگا ،(انشاء اللہ)قرآن مجیدکا اعلان ھے کہ حج اورخانہ خدا کی زیارت کے بارے میں ظلم و ستم کا ارادہ بھی الٰھی انتقام کا سبب ھے:
” وَ مَن یُرِد فِیہِ بِاِلحَادٍ بِظُلمٍ نُذِقہُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ “
”جو بھی حرم امن میں ظلم کے ساتھ الحا دو شرک کا ارادہ کرے (اور صراط الٰھی کو مسدود کرنا چاھے اور لوگوں کو خانہ خدا کی زیارت اور مسجد الحرام میں عبادت کرنے سے روکے ) ھم اسکو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے“
اسی وجہ سے ھماری روایات کی کتابوں میں ایک باب بنام ”باب من ارادلکعبہ بسوء“کے عنوان کے تحت نقل ھوا ھے اورائمہ معصومین (ع)سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں ۔
حج کے متعلق اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں
خانہ کعبہ کی زیارت اور اعمال حج کاا نجام دینا ، دین اسلام کے ان اھم ترین واجبات میں سے ھے کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی عذر کے وظیفہ حج کو انجام نہ دے تومرتے وقت اس سے کھاجائیگا کہ یہ شخص مسلمانوں کی صف سے خارج ھے اور ایسے شخص کو غیر مسلموں کی صف میں لکھا جائیگا، حضرت علی (ع) کی وصیت سے استفادہ ھوتا ھے کہ اگر خانہ کعبہ کی زیارت بالکل ترک کردی جائے تو عذاب الٰھی کا نازل ھوناایک فوری عمل ھے اور بغیر کسی مھلت کے عذاب نازل ھو جا ئیگا ، ”اللهُ اَللهُفِی بَیتِ رَبِّکُم فَاِنَّہُ اِن تُرِکَ لَم تَنَاظَرُوا“
اگر کوئی سال ایسا آئے کہ لوگ کعبہ کی زیارت نہ کرنے جائیں اور خانہ خدا کا کوئی زائر اور حاجی نہ ھو، تو اسلامی حکومت پر واجب ھے کہ بیت المال کے خرچ سے لوگوں کو حج کے لئے بھیجے جیسا کہ حضرت امام صادق(ع)نے فرمایا ھے:
” لَو عَطَّلَ النَّاسُ الحَجََّ لَوَجَبَ عَلَی الِامَامِ اَن یَجُرَّہُم عَلَی الحَجِّ اِن شَاؤُوا وَ اِن اَبَوا فَاِنَّ ہَذَا البَیتَ اِنَّمَا وَضَعَ لِلحَجِّ …
فَاِن لَم یَکُن لَہُم اَموَالٌ اَنفَقَ عَلَیہِم مِن بَیتِ مَالِ المُسلِمِینَ “۔
اس بنا پر حج اسلام کا سیاسی عبادی پھلو ھے اگرچہ (ھمارادین و ھی ھے جو ھماری سیاست ھے اور ھماری سیاست بھی و ھی ھے جو ھمارا دین ھے)
یعنی ھمارا دین اور سیاست ایک ھی چیز ھے اور حج کا سیاسی عبادی ھونا ان وظائف پر غور کرنے سے بھی ثابت ھوتا ھے جو مسلمانوں کے پیشوا اور امام کی ذمہ داری ھے او رحج کا سیاسی عبادی ھونا ان احکامات سے ثابت ھے اور بخوبی ظاھر ھے کہ جو حکومت اسلامی کے لئے پیش کئے گئے ھیں ، لہٰذا اس اعتبار سے بھی حج کے بہت سے سیاسی پھلو ھیں ۔