اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

پروردگار کی قدرت قاہرہ

م بیان کر چکے ہیں کہ اس سورہ کا سب سے پہلا ہدف شرک وبت پرستی کی بیخ کنی ہے ۔مندرجہ بالادونوں آیات میں بھی اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے 

پہلے ارشاد ہوتا ہے: تم لوگ غیر خدا کی طرف کیوں توجہ کرتے ہو؟ مصائب سے نجات، رفع ضرر اور حصول منفعت کے لئے خود ساختہ خداؤں سے کیوں پناہ لیتے ہو؟ حالانکہ اگر تجھے معمولی سے معمولی اور حقیر سے حقیر نقصان بھی ہوجائے تو سوائے خدا کے اسے برطرف کرنے والا اور کوئی نہ ہوگا اور اگر کوئی خیروبرکت اور کامیابی و سعادت تجھے نصیب ہوتو وہ بھی اسی کی قدرت کا پرتو ہے ۔کیونکہ وہی ہے کہ جو تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے(وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر)(۱)

حقیقت میں غیر خدا کی طرف توجہ لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ یا تو انھیں سرچشمہٴ خیرات جانتے ہیں یا وہ انھیں مصائب ومشکلات کا بر طرف کرنے والا سمجھتے ہیں جیسا کہ طاقت اور اقتدار رکھنے والوں کے سامنے پرستش کی حد تک خضوع وخشوع بھی ان ہی دو اسباب کی بنا پر ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا آیت کہتی ہے کہ ارادہٴ خدا وندی تمام چیزوں پر حکومت کرتا ہے، اگر وہ کسی نعمت کو کسی سے سلب کر لے یا کوئی نعمت کسی کو عطا کردے تو دنیا میں کوئی منبعٴ قدرت ایسا نہیں ہے جو اسے پلٹا سکے تو وہ غیر خدا کے سامنے سرتعظیم کیوں جھکاتے ہیں ۔

”خیر“ و”شر“ کے بارے میں ”یمسسک“ کی تعبیر کے باوجود ”مس“ سے ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی خیر وشر تک بھی اس کے ارادہ وقدرت کے غیر ممکن نہیں ہے ۔

یہ ذکر بھی لازمی ہے کہ اوپر والی آیت ثنویین یعنی دو خداؤں کی پرستش کرنے والوں کے عقیدہ کی ،کہ جو خیر وشر کے دو علحیدہ علحیدہ مبدء کے قائل تھے ،صراحت کے ساتھ تردید کرتی ہے اور دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتی ہے ،لیکن ہم اپنے مقام پر یہ عرض کر آئے ہیں کہ”مطلق شر“ کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے، تو اس بنا پر جب شر کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے تو اس سے ایسے امور مراد ہوتے ہیں کہ جو ظاہر میں سلب نعمت ہوتے ہیں لیکن فی الواقع اپنے مقام پر وہ خیر ہیں اور یا وہ بیدار کرنے کے لئے یا تعلیم وتربیت کے لئے اور یا تکبر، سرکشی اور خود پسندی کو برطرف کرنے کے لئے اور یا دوسری مصلحتوں کے لئے ہوتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں اس بحث کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا ہے: وہی ہے جو اپنے تمام بندوں پر قاہر ومسلط ہے(وھو القاھر فوق عبادہ) ۔

”قہر“ اور ”غلبہ“ کا اگر چہ ایک ہی معنی ہے، لیکن لغوی بنیادکی نظر سے ان دونوں کے معنی میں تفاوت ہے قہر وقاہریت اس قسم کے غلبہ وکامیابی کو کہا جاتا ہے کہ جس میں مد مقابل کسی بھی قسم کا غلبہ اپنی طرف سے ظاہر نہیں کرسکتا لیکن لفظ غلبہ میں یہ مفہوم موجود نہیں ہے اور یہ ممکن ہے کہ غلبہ پانے کے بعد مد مقابل اس پر کامیابی حاصل کرلے،دوسرے لفظوں میں قاہر اسے کہتے ہیں جو مد مقابل پر اس طرح تسلط اور برتری رکھتا ہو کہ اس میں مقابلے کی مجال ہی نہ ہو بالکل اس پانی کے برتن کی طرح جسے آگ کے ایک چھوٹے سے شعلہ پر ڈالاجائے تو وہ اسے فورا خاموش کردے ۔

بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قاہریت عام طور پر ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے کہ جب طرف مقابل کوئی عاقل موجود ہو، لیکن غلبہ عام ہے اور غیر عاقل موجودات پر کامیابیوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے (2)

اس بنا پر پہلی آیت میں ،خود ساختہ خداؤں اور صاحبان اقتدار کے مقابلہ میں اگر خدا کی قدرت کی عمومیت کی طرف اشارہ ہوا ہے تو وہ اس معنی میں نہیںہے کہ وہ مجبور ہے کہ وہ ایک مدت تک دوسری قدرتوں کے ساتھ دست وگریبان ہو یہاں تک وہ انھیں چت کردے، بلکہ اس کی قدرت، قدرت قاہرہ ہے اور”فوق عبادہ“ کی تعبیر بھی اسی معنی کی تکمیل کے لئے ہے ۔

اس حالت میں کس طرح ممکن ہے کہ ایک باخبر انسان اسے چھوڑ دے اور ایسے موجودات واشخاص کے پیچھے جائے کہ جو اپنی طرف سے کسی قسم کی قدرت نہیں رکھتے ، یہاں تک کہ ان میں جو معمولی اور حقیر سی قدرت موجود ہے وہ بھی خدا ہی کی عطا کردہ ہے ۔

لیکن اس مقصد کے پیش نظر کہ کہیں یہ وہم نہ ہوجائے کہ ممکن ہے خدا بھی بعض صاحبان قدرت کی طرح اپنی نامحدود قدرت سے تھوڑا بہت غلط فائدہ اٹھا لیتا ہو، آیت کے آخر میں فرماتا ہے کہ اس کے باوجود وہ حکیم اور اس کے تمام کام حساب کے مطابق ہیں اور وہ خبیر وآگاہ ہے اور معمولی سے معمولی اشتباہ اور خطا بھی اپنی قدرت کو عمل میں لانے میں نہیں کرتا(ھوالحکیم الخبیر) ۔

فرعون کے حالات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو ان کی اولاد کے قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے:

”وانافوقھم قاھرون“(3)یعنی میں ان لوگوں کے اوپر کامل طور پر مسلط ہوں ۔یعنی وہ اپنی اس قدرت قاہرہ کو ۔کہ جو واقع میں ایک حقیر قدرت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں ظلم وستم اور دوسروں کے حقوق کے پرواہ نہ کرنے کی دلیل قرار دیتاتھا، لیکن خداوند حکیم وخبیر اس قدرت قاہرہ کے باوجود اس سے بہت منزہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا ظلم اور غلطی سے معمولی سے معمولی بندے کے حق میں روا ررکھے ۔

یہ بات بھی کہے بغیر واضح ہے کہ (فوق عبادہ) کے لفظ سے مراد مرتبہ ومقام کی برتری ہے، کیوںکہ یہ بات واضح ہے کہ خدا کوئی مکان نہیں رکھتا ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض بد دماغوں نے اوپر والی آیت کی تعبیر کو خدا کے جسم ہونے کی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ فوق (اوپر) کی تعبیر خدا کی اپنے بندوں پر قدرت کے لحاظ سے معنوی برتری کے بیان کے لئے ہے، یہاں تک کہ فرعون کے بارے میں بھی حالانکہ وہ ایک انسان تھا اور جسم رکھتا تھا یہی لفظ مقام کی برتری کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ مکانی برتری کے لئے(غور کیجئے گا) ۔

۹۱قُلْ اٴَیُّ شَیْءٍ اٴَکْبَرُ شَھَادَةً قُلْ اللّٰہُ شَھِیدٌ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَاٴُوحِیَ إِلَیَّ ھَذَا الْقُرْآنُ لِاٴُنذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ اٴَئِنَّکُمْ لَتَشْھَدُونَ اٴَنَّ مَعَ اللّٰہِ آلِھَةً اٴُخْرَی قُلْ لاَاٴَشْھَدُ قُلْ إِنَّمَا ھُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ۔

۲۰ الَّذِینَ آتَیْنَاھُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَھُمْ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھُمْ فَھُمْ لاَیُؤْمِنُونَ۔

ترجمہ

۱۹۔کہہ دو کہ سب سے بڑی گواہی کس کی ہے ،کہہ دو کہ خدا وند تعالیٰ تمھارے درمیان گواہ ہے ، (اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ) اس نے یہ قرآن میرے اوپر وحی کیاہے تاکہ تمھیں اور ان تمام افراد کو ڈراؤں کہ جن تک یہ قرآن پہنچے(اور حکم خدا کی مخالفت کا خوف دلاؤں ) کیا سچ مچ تم یہ گواہی دیتے ہو کہ خدا کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں، کہہ دو میں ہر گز اس قسم کی گواہی نہیں دیتا، کہہ دو کہ خدا یگانہ ویکتا ہے اور میں اس سے جو اس کا شریک قرار دے بری و بے زار ہوں ۔

۲۰۔ وہ لوگ کہ جنھیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے، اس (پیغمبر کو) اچھی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوںکو پہچانتے ہیں،صرف وہ اشخاص ہیں کہ جو اپنا سرمایہٴ وجود کھو بیٹھتے ہیں ایمان نہیں لاتے ۔

۱۔ ”ضر“ ایسے نقصانات کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان کو پیش آتے ہیں، خواہ وہ جسمانی پہلو رکھتے ہوں جیسے کسی عضو کا نقصان اور مختلف بیماریاں یا وہ روحانی پہلو رکھتے ہوں جیسے جہالت، حماقت، دیوانگی یا دوسرے پہلو جیسے مال، اولاد و یا عزت کا چلا جا نا ۔

2۔المیزان ،جلد ۷،صفحہ ۳۴۔

3۔اعراف ،۱۲۷۔


source : http://www.makaremshirazi.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسایش اور آزمایش میں یاد خدا
آسمان اور ستاروں کا تھس نھس ھوجانا
طبیعا ت ( pHYSICS)
کیا خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ھے ؟ اور کیسے ؟
ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
قرآن کی علمی اور عملی تربیت
رضائے الٰہی
وجوب، امکان اور امتناع کی اصطلاحات کی ان کی اقسام ...

 
user comment