حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بعد جب تشیع وسیع تر ہوئی تو شیعہ نام کے علاوہ آہستہ آہستہ اور دوسرے عناوین جیسے علوی ،امامی ،حسینی ،اثنا عشری ،خاصہ، جعفری ترابی ، رافضی، خاندان رسالت کے دوستوں کے لئے استعمال ہونے لگے اگر چہ عام طور پر اہل بیت کے دوستوں کو شیعہ ہی کہتے تھے، یہ القاب اور عناوین مختلف مناسبتوں سے شیعوں کے متعلق کہے گئے کبھی مخالفین یہ القاب شیعوں کی سرزنش اور ان کو تحقیر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اہل شام علی کے القاب اور کنیت میںسے آپ کو ابو تراب اور آپ کے شیعوں کو ترابی کہتے تھے ،معاویہ نے صفین
(١)شرح نہج البلاغہ ،ج ٣ ، ص ٩٨ ابن ابی الحدید معتزلی ،طبع ، دار الاحیاء الکتب العربیة مصر،طباعت اول، ١٣٧٨ھ ق
اورحکمیت کے بعد جب عبداللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاہاتو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بہت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کہا کہ:ربیعہ کو چھوڑواس لئے کہ اس کے تمام افراد ترابی ہیں۔(١)
مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جسکا نام'' اخبار الترابیین'' تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ہے کہ جس میں ( عین الورد کے حوادث)کا تذکرہ کیا گیا ہے۔(٢)
رافضی عنوان کو مخالفین، شیعوں پر اطلاق کرتے تھے اور اکثر جب کسی کو چاہتے تھے کہ اس پر دین کو چھوڑنے کی تہمت لگائیں تو اس کورافضی کہتے تھے ۔
چنانچہ شافعی کہتے ہیں:
ان کان رفضاً حب آل محمدٍ
فلیشہد الثقلان انی رافضی
یعنی اگر آل محمد علیہم السلام کی دوستی رفض ہے تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں ۔(٣)(٤)
تاریخ میں آیا ہے کہ زید بن علی کے قیام کے بعد شیعوں کو رافضی کہا جاتا تھا،
............
(١) بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،١٣٩٤ھ ج ٢ ص٤٢٣
(٢)مسعودی ،مروج الذہب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت، ١٤١١ھ ج٣ ص١٥
(٣)ہیثمی مکی ،الصواعق المحرقہ ص ١٢٣،
(٤)الامین ،سید محسن ،اعیا ن الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج١، ص٢١
شہرستانی کہتا ہے: جس وقت شیعیان کوفہ نے زید بن علی سے سنا کہ وہ شیخین پر تبرّا نہیں کرتے اور افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں تو ان کو چھوڑ دیا اوروہ اسی وجہ سے رافضی کہلانے لگے، کیونکہ رفض کے معنیٰ چھوڑنے کے ہیں۔(١)
علوی لقب کے بارے میں سید محسن امین لکھتے ہیں :عثمان کے قتل نیز معاویہ کے حضرت علی سے برسر پیکار ہونے کے بعد معاویہ کی پیروی کرنے والوں کو عثمانی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ عثمان کو دوست رکھتے تھے اورحضرت علی سے نفرت کرتے تھے اور حضرت علی کے چاہنے والوں پر شیعہ کے علاوہ علوی ہونے کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ طریقۂ کار بنی امیہ کے دور حکومت کے آخر تک جاری رہا اور عباسیوں کے زمانے میںعلوی اور عثمانی نام منسوخ ہو گئے اور صرف شیعہ اور سنی استعمال ہو نے لگا،(٢) شیعوں کے لئے دوسرا نام امامی تھا جو زیدیوں کے مقابلے میں بولا جاتا تھا۔
چنانچہ ابن خلدون لکھتا ہے: بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں کہ امامت صرف علی کی ذات میں منحصر ہے اور یہ امامت ان کے بعد ان کی اولاد میں منتقل ہو جائے گی ،یہ لوگ امامیہ ہیں اور شیخین سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کیوںکہ انہوںنے علی کو مقدم نہیں کیا اور ان کی بیعت نہیں کی ،یہ لوگ ابو بکر اور عمر کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیںاور بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ۖ نے اپنی جگہ پر کسی کو معین نہیں کیا بلکہ
............
(١)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ج: ١، ص١٣٩
(٢) امین ،سید محسن ،اعیان الشیعہ ص١٩
امام کے اوصاف بیان کردیئے کہ جوصرف امام علی پر منطبق ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کی کو تاہی تھی کہ انہوںنے ان کو نہیں پہچانا ،وہ لوگ جو شیخین کو برا نہیںکہتے ہیں وہ فرقہ زیدیہ میں سے ہیں۔(١)
امام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد جوا شعار کہے گئے ہیں اور ابھی تک باقی ہیں ان سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ امام مظلوم کی شہادت کے بعد ان کے شیعوں کو حسینی بھی کہا جاتا تھا، ان لوگوں نے اپنے کو اکثر اشعار میں حسینی اور دین حسین پر اپنے آ پ کو پہچنوایاہے۔(٢)
ابن حزم اندلسی اس بارے میں کہتے ہیں : رافضیوں میں سے کچھ حسینی ہیں کہ جو ابراہیم (ابن مالک)اشتر کے اصحاب میں سے ہیں کہ جو کوفہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے اور ''یا لثارات الحسین'' کا نعرہ لگاتے تھے ان کو (حسینی) کہا جاتا تھا۔(٣)
لیکن قطعیہ کانام امام موسیٰ کاظم کی شھادت کے بعد واقفیہ کے مقابلہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھایعنی ان لوگوں نے امام موسیٰ کاظم کی شہادت کا قاطعیت کے ساتھ یقین کرلیا تھا اور امام رضا اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے تھے جب کہ واقفیہ امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے قائل نہ تھے۔(٤)
............
(١)ابن خلدون ،مقدمہ ،دار احیاء ا لتراث العربی،بیروت،١٤٠٨ھ ص١٩٧
(٢)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،قم ،ج٤،ص١٠٢
(٣)عبد ربہ اندلسی ،العقد الفرید، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،١٤٠٩ھ ج٢ ،ص٢٣٤
(٤)شہرستانی ،ملل و نحل ،ص ١٥٠
آج جعفریہ کالقب،فقہی اعتبار سے زیادہ تر اہل سنت کے چار مذاہب کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے کیو نکہ فقہ شیعہ امام جعفر صادق کے توسط سے زیادہ شیعوں تک پہنچی ہے اور زیادہ تر روایتیں بھی امام جعفرصادق سے نقل ہوئی ہیں، لیکن سید حمیری کے شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ جعفری کانہ صرف فقہی لحاظ سے امام صادق کے زمانہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھا بلکہ اصولی لحاظ سے بھی تمام فرقوں کے مقابلہ میںیہ نام استعمال ہوا ہے، سیدحمیری اپنے شعر میں کہتے ہیں۔
''تجعفرت باسم اللہ واللہ اکبر''
میں خدا کے نام سے جعفری ہو گیا ہوں اور خدا وند متعال بزرگ ہے ۔(١)
سید حمیری کا مقصد جعفری ہونے سے فرقۂ حقہ شیعہ اثنا عشری کے راستہ پر چلنا ہے کہ جو کیسانیہ کے مقابلہ میں ذکر ہوا ہے۔
............
(١)مسعودی ،علی بن حسین ،مروج الذھب منشورات مؤسسةالاعلمی،ج:٣،ص٩٢
منبع: تاریخ تشیع ابتداء سے غیبت صغری تک
source : http://www.ahlulbaytportal.com