سن ١١١ھ سے عباسیو ں کی دعوت شروع ہو گئی(١)یہ دعوت ایک طرف تو اسلامی سر زمینوں میں تشیع کے پھیلنے کا سبب بنی تو دوسری طرف سے بنی امیہ کے مظالم سے نجات ملی جس کے نتیجہ میں شیعہ راحت کی سانس لینے لگے ،ائمہ معصومین علیہم السّلام نے اس زمانے میں شیعہ فقہ وکلام کی بنیاد ڈالی تشیّع کے لئے ایک دور کا آغاز ہوا ، کلّی طور پرامویوں کے زمانے میں فرزندان علی اور فر زندان عبّاس کے درمیان دو گا نگی کا وجود نہیں تھا کوئی اختلاف ان کے درمیان نہیں تھا جیسا کہ سیّد محسن امین اس سلسلے میں کہتے ہیں: ''ابناء علی اور بنی عباس، بنی امیہ کے زمانے میں ایک راستے پر تھے، لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ بنی عباس، بنی امیہ سے زیادہ خلافت کے سزا وار ہیں اور ان کی مدد کرتے تھے کہ نبی عباس لوگ شیعیان آل محمد کے نام سے یاد کئے جاتے تھے اس زمانے میں فر زندان علی و فرزندان عبّاس کے درمیان نظریات و مذہب کا اختلاف نہیں تھا لیکن جس وقت بنی عباس حکومت پر قابض ہوئے شیطان نے ان کے اور فرزندان علی کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا، انہوںنے فرزندان علی پر کا فی ظلم وستم کیا،(٢) اسی سبب سے داعیان فرزندان عبّاس لوگوں کو آل محمّد کی خشنو دی کی طرف دعوت دیتے تھے اور خاندان پیغمبرۖ کی مظلومیت بیان کرتے تھے ۔
ابو الفرج اصفہانی کہتا ہے: ولید بن یزید کے قتل اور بنی مروان کے درمیان
............
(١) ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص ٣١٩
(٢)سید محسن امین ، اعیان الشیعہ ،دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ج ١ص ١٩
اختلاف کے بعد بنی ہاشم کے مبلّغین مختلف جگہوں پرتشریف لے گئے اورانہوں نیجس چیز کا سب سے پہلے اظہار کیا وہ علی ابن ابی طالب اور ان کے فرزندوں کی فضیلت تھی،وہ لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ بنی امیہ نے اولاد علی کو کس طرح قتل کیا اور ان کو کس طرح دربدر کیا ہے،(١)جس کے نتیجہ میں اس دور میںشیعیت قابل ملاحظہ حد تک پھیلی یہا ں تک امام مہدی سے مربوط احادیث مختلف مقامات پر لوگوں کے درمیان کافی تیزی سے منتشر ہوئی داعیان عبّاسی کی زیادہ تر فعالیت وسر گرمی کا مرکز خراسان تھا اس بنا پر وہاں شیعو ں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ۔
یعقوبی نقل کرتا ہے : ١٢١ھ میں زید کی شہادت کے بعدشیعہ خراسان میں جوش وحرکت میں آگئے اور اپنی شیعیت کو ظاہرکرنے لگے بنی ہاشم کے بہت سے مبلّغین ان کے پاس جاتے تھے اور خاندان پیغمبر ۖ پر بنی امیہ کی طرف سے ہونے والے مظالم کو بیان کرتے تھے، خراسان کاکوئی شہر بھی ایسا نہیں تھا کہ جہاں ان مطالب کو بیان نہ کیا گیا ہواس بارے میں اچھے اچھے خواب دیکھے گئے ،جنگی واقعات کو درس کے طور پر بیان کیا جانے لگا ۔(٢)
مسعودی نے بھی اس طرح کے مطلب کو نقل کیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خراسان میں کس طرح شیعیت پھیلی وہ لکھتا ہے کہ١٢٥ھمیں یحییٰ بن زید جو زنجان میں قتل ہوئے تو لوگوں نے اس سال پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کا نا م یحییٰ رکھا۔ (٣)
............
(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، ١٤١٦ھ ص ٢٠٧
(٢) ابن واضح ، ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، ج ٢ ص٣٢٦
(٣) مروج الذھب منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١٧ھ ج٣ ص ٢٣٦
اگر چہ خراسان میں عبّاسیوں کا زیادہ نفوذتھا چنانچہ ابو الفرج، عبداللہ بن محمد بن علی ابی طالب کے حالات زندگی میں کہتا ہے: خراسان کے شیعو ں نے گمان کیا کہ عبداللہ اپنے باپ محمّد حنفیہ کے وارث ہیںکہ جو امام تھے اور محمد بن علی بن عبداللہ بن عبّاس کو اپنا جانشین قرار دیا اورمحمدکے جانشین ابراہیم ہوئے اور وراثت کے ذریعہ امامت عباسیوں تک پہونچ گئی۔ (١)
یہی وجہ ہے کہ عباسیوں کی فوج میں اکثر خراسانی تھے اس بارے میں مقدسی کا کہنا ہے : جب خدا وند عالم نے بنی امیہ کے ذریعہ ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھا تو خراسان میں تشکیل پانے والے لشکر کو رات کی تاریکی میں ان پر مسلط کردیا حضرت مہدی کے ظہور کے وقت بھی آپ کے لشکر میں خراسانیوں کے زیادہ ہونے کا احتمال ہے ۔(٢)
بہر حال اہل بیت پیغمبر ۖ کالوگوں کے درمیان ایک خاص مقام تھا چنانچہ عباسیوں کی کامیابی کے بعد شریک بن شیخ مہری نامی شخص نے بخارا میں خانوادہ پیغمبر پر عباسیوں کے ستم کے خلاف قیام کیا اور کہا :ہم نے ان کی بیعت اس لئے نہیں کی ہے کہ بغیر دلیل کے ستم کریں اورلوگوں کا خون بہائیں اور خلاف حق کام انجام دیںچنانچہ یہ ابومسلم کے ذریعہ قتل کردیا گیا ۔(٣)
............
(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقا تل الطالبین ، منشورات ؛شریف الرضی ، قم ١٤١٦ ص ١٣٣
(٢)مقدسی ، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ، ترجمہ دکتر علی نقی منزوی ، شرکت مولفان و مترجمان ایران ، ج٢ ص ٤٢٦۔٤٢٧
(٣) تاریخ یعقوبی، منشورات الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج ٢ ص ٣٤٥
source : http://www.ahlulbaytportal.com