گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان عقیدہ و ایمان کے بغیر نہ صحیح زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی بشریت اور تمدن بشری کے لئے کوئی مفید و ثمر بخش کام سر انجام دے سکتا ہے۔ عقیدہ و ایمان سے خالی انسان کی خودغرضی میں یہ عنصر نمایاں ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے چکر سے کبھی نہیں نکلتا یا پھر تردد میں پڑا ہوا سر گرداں وجود ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں اخلاقی و سماجی مسائل کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نہیں پہچانتا۔ چونکہ اخلاقی و اجتماعی مسائل سے مسلسل انسان کا واسطہ رہتا ہے اور ان مسائل میں انسان کسی مکتب عقیدے اور ایمان سے مربوط ہو تو اس کے لئے اپنی ذمہ داری واضح اور روشن رہے گی۔ اگر مکتب و دین اس کی ذمہ داری واضح نہ کریں تو یہ شخص ہمیشہ متردد رہے گا۔ کبھی ادھر کھنچ جائے گا تو کبھی ادھر بہہ نکلے گا یا دوسرے الفاظ میں تھالی کا بینگن بن جائے گا۔
در حقیقت کسی عقیدے یا مسلک و مکتب سے وابستگی کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں البتہ جس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ کہ صرف مذہبی ایمان یہ قدرت رکھتا ہے کہ انسان کو ایک حقیقی مومن بنا سکے۔ اس سے خود غرضی اور خود پرستی بھی ایمان کے کنٹرول میں آجاتی ہے اور انسان میں تغیر اطاعت اور تسلیم جیسی ایک حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے کہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی جو مکتب پیش کرتا ہے کے بارے میں انسان شک و تردد میں مبتلا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مکتب اس قدر عزیز محبوب اور گراں بہا چیز کی صورت اختیار کر لیتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی بے حقیقت اور بے معنی دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اس کے دفاع میں انسان اپنی پوری غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
مذہبی ایمانی رجحانات اس چیز کا باعث بنتے ہیں کہ انسان اپنے فردی طبیعی میلانات کے خلاف کام سرانجام دے یہاں تک کہ اپنی تمام تر حیثیت اور ہستی بھی ایمان کی راہ میں لٹا دے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کے نظریات تقدس کا پہلو لئے ہوئے ہوں اور انسانی وجود پر حاکمیت مطلق حاصل کر لیں۔ فقط مذہبی قوت یہ قدرت رکھتی ہے کہ نظریات کو تقدس عطا کر سکے اور پوری طاقت سے انسان پر ان کا حکم لاگو کر سکے۔
بعض اوقات لوگ عقیدے و مذہب کے بغیر دباؤ عداوت اور انتقامی جذبات کے تحت ظلم و ستم اور دھونس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس راہ میں فداکاری کرتے ہیں۔ اپنی جان مال عزت و آبرو سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اس کی مثالیں ہم دنیا کے گوشہ و کنار میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک مذہبی و غیر مذہبی نظریہ کا فرق یہ ہے کہ جہاں کہیں مذہبی نظریہ کا مسئلہ ہو اور اسے تقدس حاصل ہو جائے تو قربانی مکمل رضا مندی اور طبیعی طور پر دی جاتی ہے۔ لہذا رضاو رغبت اور ایمان کے تحت انجام پانے والا کام ایک طرح کا انتخاب ہوتا ہے۔ جبکہ عالمی اور خارجی دباؤ کے تحت ہونے والا کام ایک طرح کا دھماکہ ہوتا ہے۔
ثانیاً اگر انسان کا تصور کائنات فقط مادی ہو اور حقیقت کو محسوسات میں منحصر قرار دیتا ہو تو پھر ہر قسم کی عقیدہ پرستی اورا جتماعی و انسانی نظریات ان حسی واقعات کے برخلاف ہوں گے۔ جنہیں انسان کائنات کے ساتھ اپنے رابطے کے دوران محسوس کرتا ہے۔
حسی تصور کائنات کا نتیجہ عقیدہ پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہوتی ہے۔ اگر عقیدہ پرستی کی بنیاد ایسا تصور کائنات نہ ہو کہ جس کا منطقی خود وہی عقیدہ نہ ہوتو پھر تصور کائنات صرف خیال پرستی تک محدود رہے گا۔ یعنی اس طریقے سے انسان اپنے اندر اپنے وہم و خیال سے ایک ایسی دنیا بنا لیتا ہے جو موجودہ حقائق سے ماورا ہوتی ہے اور پھر اس میں خوش رہتا ہے۔ لیکن اگر عقیدہ پرستی دین و مذہب سے پھوٹے تو ایک ایسے تصور کائنات پر مبنی ہو گی جس کا منطقی نتیجہ معاشرتی نظریات اورعقائد کی پیروی کی صورت میں ہوگا۔ مذہبی ایمان انسان اور کائنات کے درمیان ایک دوستانہ تعلق سے عبارت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ مذہب ایمان اور کائنات کے کلی اہداف کے درمیان ہم آہنگی کا کردار ادا کرتا ہے۔ جبکہ غیر مذہبی نظریات اور ایمان ایک طرح سے کائنات سے تعلق منقطع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خیالی دنیا کے وجود کا سبب بنتا ہے جسے خارج میں موجود کائنات قبول نہیں کرتی ۔ مذہبی ایمان انسان کی چند ایسی ذمہ داریوں کا تعین ہی بدل دیتا ہے۔ یہ دنیا کی ساخت ہی حسی عناصر کے علاوہ مزید دوسرے عناصر بھی پیش کرتا ہے۔
خشک سرد مادی اور میکانیاتی دنیا کو زندہ باشعور اور آگاہ دنیا میں بدل دیتا ہے۔ مذہبی ایمان دنیا اور کائنات کے بارے میں انسان کی فکر و نظر بدل دیتا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل کے امریکی ماہر نفسیات اور فسلفی ولیم جیمز کہتے ہیں:
"مذہبی فکر جو دنیا ہمارے سامنے پیش کرتی ہے صرف وہی مادی دنیا نہیں جس کی شکل بدل گئی ہو بلکہ اس عالم کی عمارت میں اس سے زیادہ چیزیں موجود ہیں کہ ایک مادی انسان جن کا حامل ہو سکتا ہے۔"
(دین و روان)
ان سب کے علاوہ ہر انسان کی جبلت میں قابل پرستش و مقدس حقائق و واقعات کی طرف میلان موجود ہے۔ انسان میں متعدد میلانات اور بعض غیر مادی صلاحتیں مخفی ہوتی ہیں۔ جنہیں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ انسانی میلانات مادی میلانات تک محدود نہیں ہیں۔ اسی طرح معنوی اورروحانی میلانات بھی فقط تلقینی و اکتسابی نہیں ہوتے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سائنس بھی قبول کرتی ہے۔
ولیم جیمز کہتے ہیں:
"یہ دنیا ہمارے جتنے بھی میلانات کا محرک ہو ہماری بیشتر آرزوؤں اور خواہشوں کا سرچشمہ عالم ماورائے طبیعت ہے کیوں کہ ان میں سے بیشتر کی مادی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔"(دین و دروان)
چونکہ یہ میلانات وجود رکھتے ہیں لہذا ان کی نشوونما ضروری ہے۔ اگر ان کی صحیح نشوونما نہ ہو اور ان سے ٹھیک طرح فائدہ نہ اٹھایا جائے تو پھر یہ منحرف راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اور ناقابل تصور نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ بت پرستی شخصیت پرستی طبیعت پرستی اور ہزاروں دوسری پرستشیں اسی انحراف سے پیدا ہوتی ہیں۔
"اریک فروم" کہتے ہیں:
"کوئی شخص دین سے بے نیاز نہیں ہر کوئی آگے بڑھنے کے لئے کسی سمت کا نیاز مند ہے۔اور ہر کسی کو اپنی وابستگی کے لے کوئی نہ کوئی عنوان درکار ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص خود اپنے غیر دینی عقائد سے ممتاز اپنے ایسے اعتقادات سے آگاہ نہ ہو جو دین کے زمرے میں آتے ہیں اور اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھے کہ اسے اقتدار پیسے اور کامیابی جیسے ظاہراً غیر دینی مقاصد سے رغبت ہے اور یہ سمجھے کہ اسے اپنے عمل اور مصلحت آمیز امور سے دلچسپی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ انسان دین سے تعلق رکھتا ہے نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کس دین سے تعلق رکھتا ہے۔" (روانکاری و دین)
اس ماہر نفسیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کسی کو مقدس قرار دئیے اور عبادت کئے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا۔ فرض کریں اگر وہ خدائے وحدہ لاشریک کو نہ پہچانے اور اس کی پرستش نہ کرے تو پھر کسی اور چیز کو برتر حقیقت کے عنوان سے اپنے ایمان و پرستش کا موضوع بنا لے گا۔
پس چونکہ انسان کیلئے کسی عقیدہ و ایمان اور نظریے کا حامل ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف فقط مذہبی ایمان ہی ایسا ایمان ہے جو حقیقی طور پر انسان کو اپنے زیر اثر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مزید براں انسان اپنی سرشت کے تحت کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہتا ہے جسے وہ مقدس قراردے کر اس کی پرستش کرے۔ پس واحد راستہ یہ ہے کہ ہم مذہبی ایمان کی تقویت کریں۔
قرآن کریم ہی سب سے پہلی کتاب ہے جس نے بڑی صراحت سے مذہبی ایمان کو عالم خلقت کے ساتھ ہم آہنگ بتایا ہے:
"افغیر دین اللہ یبغون ولہ اسلم من فی السموات والارض"
( سورہ آل عمران آیت ۸۳)
"کیا وہ دین خدا کے علاوہ کسی اور چیز کی جستجو کرتے ہیں جبکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اس کے حضور سر تسلیم خم ہے۔"
نیز یہ کہ قرآن مذہبی ایام کو انسانی فطرت کا حصہ قرار دیتا ہے۔
فاقم و جھک للدین حنیفا فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا
(سورہ روم آیت ۳۰)
"حق طلب ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کر لے وہی دین جو اللہ کی فطرت ہے کہ جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔"
source : http://www.abp-sale.com