امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں: ميں مسجد الحرام ميں ”مقام ابراھيم“ كے پاس بيٹھا ھوا تھا، ايك ايسا بوڑھا شخص آيا جس نے اپني سار ي عمر گناھوں ميں بسر كي تھى، مجھے ديكھتے ھي كہنے لگا:
”نِعْمَ الشْفيعُ اِلي اللّٰہ لِلْمُذْنِبِينَ“-
”آپ خدا كے نزديك گناھگاروں كے لئے بھترين شفيع ھيں “-
اور پھر اس نے خانہ كعبہ كا پردہ پكڑا اور درج ذيل مضمون كے اشعار پڑھے:
”اے خدائے مھربان! چھٹے امام كے جد بزرگوار كا واسطہ، قرآن كا واسطہ، علي كا واسطہ، حسن و حسين كا واسطہ، فاطمہ زھرا كا واسطہ، ائمہ معصومين عليہم السلام كا واسطہ، امام مہدي عليہ السلام كا واسطہ، اپنے گناھگار بندے كے گناھوں كو معاف فرما!“
اس وقت ھاتف غيبي كي آواز آئى: اے پيرمرد!
اگرچہ تيرے گناہ عظيم ھيں ليكن ان ذوات مقدسہ كي عظمت كے طفيل ميں جن كي تونے قسم دي ھے، ميں نے تجھے معاف كرديا، اگر تو تمام اھل زمين كے گناھوں كي بخشش كي درخواست كرتا تو معاف كرديتا، سوائے ان لوگوں كے جنھوں نے ناقہ صالح اور انبياء و ائمہ كو قتل كيا ھے-
شراب خور اور توبہ مرحوم فيض كاشانى، جو خود فيض و دانش كا سر چشمہ اور بصيرت كا مركز تھے موصوف اپني عظيم الشان كتاب ”محجة البيضاء“ ميں نقل كرتے ھيں:
ايك شراب خوار شخص تھا جس كے يھاں گناہ و معصيت كي محفل سجائي جاتي تھى، ايك روز اس نے اپنے دوستوں كو شراب خوري اور لھوو لعب كے لئے دعوت دي اور اپنے غلام كو چار درھم دئے تاكہ وہ بازار سے كچھ كھانے پينے كا سامان خريد لائے-
غلام راستہ ميں چلا جا رھا تھا كہ اس نے ديكھا منصور بن عمار كي نششت ھو رھي ھے، سوچا كہ ديكھوں منصور بن عمار كيا كہہ رھے ھيں؟ تو اس نے سنا كہ عمار اپنے پاس بيٹھنے والوں سے كچھ طلب كر رھے ھيں اور كہہ رھے ھيں كہ كون ھے جو مجھے چار درھم دے تاكہ ميں اس كے لئے چار دعائيں كروں؟ غلام نے سوچا كہ ان معصيت كاروں كے لئے طعام و شراب خريدنے سے بھتر ھے كہ يہ چار درھم منصور بن عمار كو كو ديدوں تاكہ ميرے حق ميں چار دعائيں كرديں-
يہ سوچ كر اس نے وہ چار درھم منصور كو ديتے ھوئے كھا: ميرے حق ميں چار دعائيں كردو، اس وقت منصور نے سوال كيا كہ تمھاري دعائيں كيا كيا ھيں بيان كرو، اس نے كھا: پھلي دعا يہ كرو كہ خدا مجھے غلامي كي زندگي سے آزاد كردے، دوسري دعا يہ ھے كہ ميرے مالك كو توبہ كي توفيق دے، اور تيسري دعا يہ كہ يہ چار درھم مجھے واپس مل جائيں، اور چوتھي دعا يہ كہ مجھے اور ميرے مالك اور اس كے اھل مجلس كو معاف كردے-
چنانچہ منصور نے يہ چار دعائيں اس كے حق ميں كيں اور وہ غلام خالي ھاتھ اپنے آقا كے پاس چلا گيا-
اس كے آقا نے كھا: كھاں تھے؟ غلام نے كھا: ميں نے چار درھم دے كر چار دعائيں خريدي ھيں، تو آقا نے سوال كيا وہ چار دعائيں كيا كيا ھيں كيا بيان تو كر؟ تو غلام نے كھا: پھلي دعا يہ تھي كہ ميں آزاد ھوجاؤ ں تو اس كے آقا نے كھا جاؤ تم راہ خدا ميں آزاد ھو، اس نے كھا: دوسري دعا يہ تھي كہ ميرے آقا كو توبہ كي توفيق ھو، اس وقت آقا نے كھا: ميں توبہ كرتا ھوں، اس نے كھا: تيسري دعا يہ كہ ان چار درھم كے بدلے مجھے چار درھم مل جائيں، چنانچہ يہ سن كر اس كے آقا نے چار درھم عنايت كردئے، اس نے كھا: چوتھي دعا يہ كہ خدا مجھے، ميرے مالك او راس كے اھل محفل كو بخش دے، يہ سن كر اس كے آقا نے كھا: جو كچھ ميرے اختيار ميں تھا ميں نے اس كو انجام ديا، تيرى، ميري اور اھل مجلس كي بخشش ميرے ھاتھ ميں نھيں ھے-چنانچہ اسي رات اس نے خواب ميں ديكھا كہ ھاتف غيبي كي آوازآئي كہ اے ميرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداري كے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل كيا، كيا ھم اپنے بے انتھا كرم كے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل نہ كريں، ھم نے تجھے، تيرے غلام اور تمام اھل مجلس كو بخش ديا-
source : http://www.tebyan.net