حضرت علي کا رسول کے بعد تمام لوگوں پر افضليت رکھنا نبي اکرم کے صريح نص سے ثابت ہے اور ان کي امامت کے حوالے سے رسول کي حديث موجود ہے اور خدا کا حکم بھي ہے، رسول اکرم کے بعد آپ کي امامت ثابت ہے-
يہ وہ مفہوم ہے جو عہد رسالت ميں موجود تھا جس کو رسول کے بعض قريبي اصحاب نے درک کيا اور دوسرے افراد تک اس کو پہنچايا اور روز و شب کي گردش سے دوام پاتا گيا، يہاں تک کہ آج اس کو حيات جاويداني مل چکي ہے اور خدا اس کو مزيد حيات عطا کرے، اثني عشري شيعہ حضرات نے اس کو عقيدہ کا جزء جانا ہے جس کو بطور خلاصہ ہم پيش کريں گے-
اثنا عشري عقيدہ
شيعہ اثنا عشري حضرات اس بات کا عقيدہ رکھتے ہيں کہ ان کے امام بارہ ہيں اور وہ يہ ہيں، علي ابن ابي طالب، حسن بن علي، حسين بن علي، علي بن الحسين السجاد، محمد بن علي الباقر، جعفر بن محمد الصادق، موسي بن جعفر الکاظم، علي بن موسيٰ الرضا، محمد بن علي التقي، علي بن محمد النقي، حسن بن علي عسکري، محمد بن حسن المنتظر صلوات اللہ و سلامہ عليہم اجمعين اور اپنے عقيدہ کے ثبوت ميں ان نصوص کو سند بناتے ہيں جو فريقين کے درميان متفق عليہ ہيں اور ولايت علي ابن ابي طالب جو کہ اللہ و رسول کے حکم سے ثابت ہے ان ميں کچھ گذشتہ بحثوں ميں گذر چکي ہيں ان ميں سے خاص طور سے حديث غدير، حديث ثقلين جس ميں رسول اکرم نے اہل بيت سے تمسک کي ضرورت پر نص کے طور پر حکم ديا ہے، بحثوں ميں اہل بيت کا تعارف کراچکے ہيں اوران کے بعد بقيہ ائمہ ان کي کل تعداد بارہ ہے-
اس کے علاوہ وہ نصوص جس کے وہ لوگ تنہا دعويدار ہيں، متفق عليہ اسناد ہيں جو کہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے درج کياہے، ان ميں سے بخاري و مسلم ہيں نيز اصحاب صحاح و مسانيد اوراحاديث کے معجم مرتّب کرنے والے افراد، نے اس کو نقل کيا ہے-
بخاري کے الفاظ ہيں کہ: جابر بن سمرہ سے روايت ہے، وہ کہتے ہيں کہ ميں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا کہ ”بارہ امير ہوں گے“ اس کے بعد ايک جملہ کہا جس کو ميں سن نہ سکا تو ميرے والد نے کہا ”وہ سب کے سب قرش سے ہوں گے“ علماء اہل سنت بارہ کي عدد ميں متحير ہوگئے-
ابن کثير بارہ ائمہ کے حوالے سے جو کہ سب قريش سے ہوں گے، کہتے ہيں کہ يہ وہ بارہ امام نہيں ہيں جن کے بارے ميں رافضي دعويٰ کرتے ہيں، يہ لوگ اس بات کے مدعي ہيں کہ لوگوں کے امور صرف علي ابن ابي طالب سے مربوط ہيں پھر ان کے فرزند حسن اور ان کے عقيدے کے مطابق ان کے سب سے آخر مہدي منتظر جو کہ سامرہ کے سرداب ميں غائب ہوئے ہيں اور ان کا کوئي وجود نہيں ہے، نہ ہي کوئي اثر ہے نہ ہي کوئي نشاني، بلکہ ا س حديث ميں جن بارہ کے بارے ميں خبر دي گئي ہے وہ چار خليفہ ابوبکر، عمر،عثمان، علي اور عمر بن عبد العزيز ان دو اقوال کے درميان اہل سنت کي تفسير اثنا عشري ميں کوئي اختلاف نہيں ہے-
ابن کثير نے حديث کو نقل کرنے کے بعد علماء کے اقوال کو نقل کيا ہے جن ميں سے بيہقي بھي ہيں ليکن عدد کے سلسلہ ميں غلطي کي ہے اور ان علماء نے خلفاء راشدين کے ساتھ بني اميہ کے خلفاء کو بھي بيان کيا ہے اور يزيد بن معاويہ، وليد بن يزيد بن عبد الملک جس کوابن کثير نے کہا ہے کہ ”يہ فاسق ہے جس کي مذمت ميں ہم حديث پيش کرچکے ہيں“ ان دونوں کو اس فہرست ميں داخل کرنے ميں بہت ساري مشکلات سے دو چار ہوئے ہيں-
يہ لوگ بارہ کي عدد کو مکمل کرنے کے لئے مجبور ہيں کہ ان ميں سے بعض کو حذف کريں کيونکہ لوگوں کا ان افراد پر اجتماع نہيں ہے اور وہ خاطر خواہ نتيجہ تک نہيں پہنچ سکتے ہيں-
آخر ميں ابن کثير نے اس بات کا اعتراف کياہے کہ ابو جلد کي روايت صحت سے قريب ہے کيونکہ ابوجلد وہ شخص ہے جس کي نظر قديم کتب پر ہے اور توريت ميں بھي اس کے معنيٰ کو درک کيا ہے: اللہ نے ابراہيم کو اسماعيل کي بشارت دي اوراس بات کي بھي بشارت دي ہے کہ ان کي نسل پاک سے بارہ عظيم شخصيتوں کو خلق کرے گا-
اس کے بعد ابن کثير نے اپنے شيخ ابن تيميہ حراني کے قول کو نقل کيا ہے ”جابر بن سمرہ کي حديث ميں انھيں لوگوں کي بشارت دي گئي ہے اور يہ بھي بيان کيا گيا ہے کہ وہ لوگ امت ميں فاصلہ فاصلہ سے وجود ميں آئيں گے، جب تک ان کي تعداد پوري نہيں ہوگي قيامت نہيں آئے گي-
يہوديوں ميں سے مشرف بہ اسلام ہونے والے وہ افراد غلطي پر ہيں، جن کا خيال ہے کہ رافضي فرقہ جو کہتا ہے وہي ہماري کتابوں ميں لکھا ہے لہٰذا رافضيوں کي بات مانو-
ان لوگوں کا اس بات کا اعتراف کہ اہل کتاب نے اپني کتابوں ميں اثنا عشر سے مراد اہلبيت کو بتاياہے جن کو شيعہ حضرات بارہ امام کہتے ہيں کيونکہ يہاں اہل کتاب اسلام ميں داخل ہوکر شيعہ کہلائے-
اور ابن تيميہ وغيرہ کا يہ خيال درست نہيں کہ وہ خلفاء امت ميں فاصلہ فاصلہ سے ہوں گے کيونکہ حديث ميں اس طرح کا کوئي مفہوم نہيں ہے، جب کہ ان افراد کي تعداد خلافت اسلامي کے سقوط سے لے کر اب تک مکمل نہيں ہوئي-
ابن حجر عسقلاني نے بعض علماء کے آراء کو پيش کيا ہے جس ميں سے ابن جوزي اور ابن البطال اوردوسرے افراد ہيں-
ابن جوزي اس حديث کے سلسلہ ميں کہتے ہيں: اس حديث کے معني کے بارے ميں بہت طولاني بحث کي اوراس کے تمام مفاہيم پر غور کيا ليکن مجھ کو روايت کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوسکا، اس لئے کہ حديث کے الفاظ مختلف ہيں اور اس ميں کوئي شک نہيں کہ اس ميں يہ خلط ملط راويوں نے کيا ہے-
اس بات سے يہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کا اس حديث کے بارے ميں مضطرب و سرگردان رہنے کا راز يہ ہے کہ اس حديث ميں ”خليفہ اور امير“ جيسے الفاظ ہيں، لوگوں نے اس کا مطلب خلفاء بني اميہ و بني عباس اور ان کے علاوہ دوسرے سرکش حکمرانوں کو سمجھ ليا اور وہ يہ بھول بيٹھے کہ خلافت و امارت در حقيقت امامت ہے جو کہ حکم واختيار کے حساب سے زيادہ وسعت رکھتا ہے-
شيعيت کے باقي عقائد حسب ذيل ہيں:
1- توحيد : يعني خدا ايک ہے اس کا کوئي شريک و ہم پلہ نہيں، وہ ذاتاً واجب الوجود ہے، نہ کسي کا باپ ہے نہ کسي کا بيٹا، وہ آفات و نقصان سے منزہ ہے، وہ زمان و مکان ميں محدود نہيں، اس کے مثل کوئي چيز نہيں، وہ جسمانيات و حدوث سے پاک و پاکيزہ ہے دنيا و آخرت ميں اس کو آنکھيں ديکھ نہيں سکتي، اس کي تمام صفات ذاتي مثلاً: حيات، قدرت، علم، ارادہ اور ان کے مانند ديگر صفات اس کي عين ذات ہيں-
2- عدل: شيخ مفيد نے اس اصل کا خلاصہ يوں کيا ہے کہ خدا عادل و کريم ہے اس نے بندوں کو اپني عبادت کے لئے خلق کيا ہے او ران کو اطاعت کا حکم دياہے اور گناہ و معصيت سے منع کيا ہے اور اپني ہدايت سب پر يکساں رکھي ہے، کسي کو اس کي طاقت سے زيادہ حکم نہيں ديا، اس کي خلقت نہ ہي عبث ہے اور نہ ہي اس ميں کسي طرح کي اونچ نيچ ہے، اس کا فعل قبيح نہيں، اعمال ميں بندوں کي شرکت سے منزہ ہے ،کسي کو اس کے گناہ کے سوا عذاب نہيں ديتا، کسي بندے کي ملامت نہيں کرتا مگر يہ کہ وہ کوئي قبيح فعل انجام دے:
اظ•نَّ اللّٰہَ لا يَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ فَاِن تَکُ حَسَنَةً يُضَاعِفُہَا وَ يُؤتَ مِن لَّدُنہُ اجراً عَظِيماً
اسي جگہ پر دوسرے مذاہب کے سربراہ افراد يہ کہتے ہيں کہ وہ کسي بھي نيکوکار کو بغير کسي گناہ کے سزا دے سکتا ہے اور کسي بھي گنہگار پر نعمتيں نازل کرکے جنت ميں بھيج سکتا ہے، يہي ہے خدا کي جانب ظلم کي نسبت دينا، اور خدا ان خرافات سے پاک و منزہ ہے-
معتزلہ نے شيعوں کے اس مسئلہ ميں اتفاق رائے کيا ہے اسي سبب سےاصطلاح ميں ان دونوں فرقوں کو ”عدليہ“ کہتے ہيں-
3- نبوت: يعني مخلوقات کي جانب مبشر و نذير کي صورت ميں انبياء کي بعثت واجب ہے اور خداوند تعاليٰ نے سب سے پہلے آدم اور آخر ميں انبياء کے سردار، افضل بشر، سيد خلائق اجمعين حضرت محمد بن عبد اللہ خاتم النبيين کي صورت ميں مبعوث کيا، قيامت تک آپ کي شريعت کا بول بالا رہے گا، آپ خطا و نسيان اور قبل بعثت و بعد بعثت معاصي کے ارتکاب سے محفوظ تھے-
آپ کبھي اپني طرف سے کوئي گفتگو نہيں کرتے جب تک وحي الٰہي کا نزول نہ ہو جائے، آپ نے حق رسالت کو مکمل طور پر ادا کيا، مسلمانوں کے لئے حدود شريعت کو بيان کيا، قرآن آپ کے قلب پر نازل ہوا دررانحاليکہ جب وہ قديم نہيں تھا،کيونکہ قديم صرف ذات پروردگار ہے، اس کتاب کے سامنے يا پيچھے سے باطل نفوذ نہيں کرسکتا يہ تحريف سے قطعي محفوظ ہے-
4- امامت: اماميہ اس بات کے معتقد ہيں کہ امامت ايک طرح کا لطف الٰہي ہے اور نبي اکرم کے لئے ضروري کہ اس مسئلہ سے تغافل نہ کرے او رنبي اکرم نے غدير خم ميں حضرت علي کي ولايت و امامت کا اعلان کيا تھا اور ان سے تمسک کي سفارش بھي کي تھي اور بہت ساري احاديث ميں ان کي اتباع کا حکم ديا تھا جس طرح سے اہلبيت سے تمسک کا حکم ديا تھا-
5 - معاد: يعني روز قيامت تمام مخلوقات زندہ ہو کر واپس آئيں گي تاکہ خدا ہر شخص کو اس کے عمل کے سبب جزا سزا دے سکے، جس نے نيکي کي اس کو جزا دے گا، جس نے برائي کي اس کو سزا دے گا اور شفاعت ايک طرح کا حق ہے جو گنہگار مسلمانوں کے لئے ہوگي اور کفار و مشرکين ہميشہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے، يہ شيعہ عقائد تھے جن کو نہايت ہي اختصار کے ساتھ پيش کيا ہے-
يہ درحقيقت ان افراد کے جھوٹے دعوؤ ں کا جواب تھا جو شيعوں کي جانب نہايت ہي غير اور اس کے بعد معقول باتوں کي نسبت دي ہے، جيسے خدا کو مجسم بنانا اور ديگر نازيبا الزامات، جن کا مقصد صرف شيعيت کو بدنام کرنا ہے-
source : http://www.tebyan.net