مسلک اجتہاد جو کہ وصيت و تعليمات نبوي کے مقابل کبھي بھي سرتسليم خم کرنے کے قائل نہيں تھا، اس کے مقابل ايک فرمانبردار گروہ وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ نبي اکرم کے تمام احکامات کا مطيع ہونا چاہئے وہ جس امر سے بھي متعلق ہو، چاہئے وہ احکامات شريعت ہوں يا رحلت رسالت کے بعد امور کي انجام دہي، لہٰذا کچھ مردان خدا نے نص کي پيروي کے مسلک کي بنياد رکھي اوران کي تعداد شايد دس سے زيادہ نہ ہو، ليکن بعد ميں افراد ان کے گروہ ميں شامل ہوتے چلے گئے-
ظاہر سي بات ہے کہ نص کي اتباع ميں شريعت کے وہ امور جن ميں ان کا موقف ديني مرجعيت اور رسول کے بعد سياسي مراحل سے متعلق ہے ان ميں رسول سے مدد طلب کي ہوگي، اور انھوں نے ولايت و شخصي اختيارات ميں شخصي اجتہاد نہيں کيا ہوگا، اور يہ ايسا گروہ ہے جس پر نصوص نبوي کي تائيد ہے حضرت علي کے مانند حسين وجامع کمالات شخص کے لئے جو نفساني اور اخلاقي صفات کے حامل ہيں تاکہ يہ عظيم منصب صحيح جگہ مستقر ہوسکے جس پر وہ پيغام متوقف ہے جس کے قوانين رسول نے مرتب کئے اور اس کي بنياد ڈالي-
لہٰذا رسول کے بعد آنے والے شخص پر لازم ہے کہ اس مرکز کي حفاظت کرے اوراس کو ان مخالف آندھيوں سے بالکل محفوظ رکھے جو تبديلي زمان اور مرور ايام کے سبب طويل سفر ميں درپيش ہوسکتي ہيں، خاص طور سے مسلمانوں کا وہ دور، جن کا زمانہ عہد ماضي سے بہت قريب ہے، اور ہجرت رسول کے بعد نفاق کي ريشہ دوانيوں کي شدت کے وقت، اور بعض افراد کا مسلمين و مشرکين کے بيچ پيس دينے والي جنگ کے کينوں کے سبب متحد ہونا جن ميں اکثريت ان لوگوں کي ہے جو فتح مکہ کے بعد شريک اسلام ہوئے ہيں اور يہ وہ وہي لوگ ہيں جن کو رسول نے (طلقاء) آزاد شدہ کہا ہے، اور مال وغيرہ کے ذريعہ ان کي قلبي مدد کي تھي-
اس بات کے پيش نظر کي تھي کہ مسلمانوں کے خلاف جو ان کے دلوں ميں کينے چھپے ہيں وہ ختم ہو جائيں اور بعض لوگوں کے دلوں ميں جو حب دنيا اور اس کي رنگينيوں سے دلچسپي رکھتے تھے وہ بجھ جائيں-
نبي اکرم يہ بات بخوبي جانتے تھے کہ سرداران قريش جو کچھ ان کے ہاتھ ميں تھا (سرداري قوم) اس کو چھوڑ نے کے بعد بادل نخواستہ اسلام ميں شامل ہوئے ہيں اور سردست ان کے پاس اس نئے اسلام کو اختيار کرنے کے سوا کوئي چارہ بھي نہيں تھا جبکہ اسلام ايک عظيم دين ہے پھر بھي وہ اس کو تسليم کرنے پر راضي نہيں تھے-
اس کے علاوہ آئندہ دنوں ميں جزيرہ عرب کے باہر کي اسلام دشمن طاقتيں مسلسل ڈرا رہيں تھيں اور اس کا نظير صاحب قوت و قدرت حکومتيں تھيں-
اور يہ بالکل فطري بات تھي کہ اس کا سبب مسلمانوں کا تحول ان حکومتوں کے لئے اور حيرت انگيز تھا جو حکومتيں اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہيں تھيں ہر چند کہ ان کي گيدڑ بھبھکي کے مقابل مسلمانوں کے پاس حفاظت نام کي کوئي چيز نہيں تھي-
لہٰذا نص کي مکمل پيروي، اس اجتہادي روش کے سامنے جو نص شرعي اور نص نبوي کے مقابل علم بغاوت بلند کئے ہے، مدد کي خواہاں ہے جبکہ ايک لحاظ سے نص شرعي و نبوي کا مرکز حضرت علي ہيں اور دوسرے لحاظ سے وجود ظاہري ميں اس نبوي موقف کے مصداق بھي حضرت علي ہي ہيں-
رسول خدا نے فرمايا:
”مَن اطاعني فقط اطاع اللّٰہ و مَن عصاني فقد عصي اللّٰہ و مَن اطاع علياً فقد اطاعني و مَن عصي علياً فقد عصاني“
جس نے ميري اطاعت کي، اس نے اللہ کي اطاعت کي اور جس نے ميري نافرماني کي اس نے اللہ کي نافرماني کي، اور جس نے علي کي اطاعت کي اس نے ميري اطاعت کي اور جس نے علي کي نافرماني کي اس نے ميري نافرماني کي-
دوسري جگہ ارشاد فرمايا:
”انا و عليّ حجة اللّٰہ علي عبادہ“
ہم اور علي بندگان خدا پر حجت خدا ہيں-
قال رسول اللہ:
”اُوحِيَ اِلَيَّ في عليّ ثلاث، انہ سيد المسلمين، امام المتقين، قائد الغرّ المحجّلين“
اللہ نے علي کے سلسلہ ميں ميرے پاس تين چيزوں کے بارے ميں وحي نازل کي کہ: 1-وہ سيد المسلمين 2-امام المتقين 3-قائد الغر المحجلين ہيں-
قال النبيّ : ”عليّ مع الحق والحق مع علي و لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض يوم القيامة“
علي حق کے ساتھ ہيں اور حق علي کے ساتھ اور يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کريں گے-
اور آپ کا قول حضرت علي کے بارے ميں گذر چکا ہے کہ ”الحق مع ذا الحق مع ذا“
يہ اور اس کے مثل نصوص نبوي سے ان اصحاب نے يہ جانا کہ رسول اکرم نے اس عظيم امر کو علي کے لئے ثابت کيا ہے يہ وہ ہيں جو حق کے ساتھ ہيں اور حق پر ہيں اور ان دونوں کا آپس ميں چولي دامن کا ساتھ ہے اور يہ بات گذر چکي ہے کہ رسول نے قرآن و اہلبيت کو ايک دوسرے کا ساتھي و ہمنوا بتايا ہے اوراس بات کي ضمانت لي ہے کہ يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيں ہيں يہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کريں گے-
اس کے بعد يہي بات حضرت علي سے مخصوص کي اور فرمايا: ”علي مع القرآن والقرآن مع
فخر رازي کہتے ہيں کہ علي ابن ابي طالب ہميشہ بسم اللہ کو بآواز بلند کہا کرتے تھے اور يہ بات تواتر سے ثابت ہے اور جو کوئي بھي دين ميں علي کي اقتدا کرے گا وہ ہدايت يافتہ ہے اور اس بات کي دليل رسول کا يہ قول ہے: ”اللّٰھم ادر الحق مع عليّ حيث دار“ خدايا حق کو اس طرف موڑ جدھر علي جائيں تفسير کبير، ج1، ص204، باب الجہر بالبسملة
علي، لن يفترقا حتي يردا علي الحوض“ جب قرآن حق ہے اوراس ميں شک و شبہ کي گنجائش بھي نہيں ہے اور علي قرآن کے ساتھ ہيں تو ظاہر سي بات ہے کہ علي حق کے ساتھ ہيں اور بالکل واضح ہے کہ علي حق پر ہيں لہٰذا ان کي اتباع اسي طرح واجب ہے جس طرح حق کي اتباع واجب ہے-
يہ وہ اہم دلائل ہيں اس گروہ کے جواتباع نص کو واجب کہتے ہوئے علي سے تمسک کو ضرورت دين سمجھتے ہيں اور ان کي مخالفت کو ناجائز،اور ان کا موقف حيات رسول ہي ميں سب پر واضح تھا-
محمد کرد علي کہتے ہيں: کہ عصر رسول ہي ميں بزرگ صحابہ کرام ولايت علي کے حامي تھے، جيسا کہ سلمان فارسي کہتے ہيں کہ ہم نے رسول کي بيعت مسلمين کے اتحاد، علي ابن ابي طالب کے امام اور ان کي ولايت کے لئے کيا تھا-
انھيں کے مانند ابوسعيد خدري کہتے ہيں کہ لوگوںکو پانچ چيزوں کا حکم ديا گيا تھا انھوں نے چار کو اپنايا اور ايک کو چھوڑ بيٹھے جب ان سے ان چاروں کے بارے ميں پوچھا گيا تو کہا کہ: نماز، زکاة، ماہ رمضان کا روزہ اور حج-
پوچھا گيا وہ کيا چيز ہے جس کو چھوڑ ديا گيا: تو کہا کہ ولايت علي بن ابي طالب ، پوچھنے والے نے کہا کہ کيا يہ بھي ان چيزوںکے ہمراہ فرض تھي-
توابوسعيد نے کہا: ہاں-
اور انھيں کے ہمرکاب تھے، ابوذر غفاري، عمار بن ياسر، حذيفہ بن اليمان و ذو الشہادتين خزيمہ بن ثابت، ابو ايوب انصاري، خالد بن سعيد بن العاص، قيس ابن سعد ابن عبادہ-
اور اس حقيقت کي جانب ڈاکٹر صبحي صالحي مائل ہوتے ہوئے کہتے ہيں کہ خود حيات رسول
ميں شيعہ گروہ موجود تھا جو پروردہ رسول حضرت علي کے تابع تھے، ابوذر غفاري، مقداد بن الاسود، جابرابن عبد اللہ، ابي ابن کعب، ابوطفيل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور ان کے سارے فرزند، عمار بن ياسر ابو ايوب انصاري يہ سب شيعيان علي تھے-
کلمہ(شيعہ) کي اصطلاح بھي کوئي نئي نہيں ہے بلکہ رسول کے حيات مبارک کے آخري دنوں ميں رائج ہوئي ہے جيسا کہ بعض افراد کا نظريہ ہے بلکہ رسول کي زندگي کے ابتدائي دنوں ميں اور آخري ايام ميں اس لفظ کي تکرار فرماتے تھے تاکہ علي کي پيروي کرنے والوں پر دلالت کرے اوران کواس بات کي بشارت دي کہ وہ حق پر ہيں اور کامياب ہيں اور وہ خير الناس ہيں-
مفسرين و حافظين قرآن نے يہ بات لکھي اور کہي ہے کہ جب يہ آيت <ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات اولٰئک ہم خير البرية>، ايمان دار اور نيک عمل انجام دينے والے يقينا بہترين گروہ ہيں، نازل ہوئي تو رسول نے فرمايا: ”انت يا علي و شيعتک“ اے علي! وہ نيک گروہ (خير البريہ) تم اور تمہارے شيعہ ہيں-
سيوطي نے کہا کہ ابن عساکر نے جابربن عبد اللہ سے روايت کي ہے کہ ہم سب رسول کے پاس بيٹھے تھے اور علي وارد ہوئے تو رسول نے ان کوديکھ کر فرمايا: ”والذي نفسي بيدہ ان ہذا و شيعتہ لہم الفائزون يوم القيامة“ قسم ہے اس ذات کي جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے بيشک يہ (علي) اور ان کے شيعہ کامياب ہيں اور آيت نازل ہوئي: <ان الذين آمنوا وعملوا الصالحات اولٰئک ہم خير البرية>، جب کبھي علي آتے تواصحاب رسول بے ساختہ کہہ اٹھے خير البريہ آگئے اور ابن عدي نے ابن عباس سے روايت کي ہے کہ جب مذکورہ آيت نازل ہوئي تو رسول نے علي سے کہا: ”ہو انت و شيعتک يوم القيامة راضين مرضين“ وہ تم اور تمہارے شيعہ ہيں جو روز محشر خدا سے اور خدا ان سے راضي ہے، ابن مردويہ نے اسي آيت کے ذيل ميں لکھا ہے کہ رسول نے کہا: ”انت و شيعتک موعدي و موعدکم الحوض اذا جائت الامم للحساب تدعون غراً محجّلين“ تم او رتمہارے شيعوں اور ميري وعدہ گاہ حوض کوثر ہے جب امتيں حساب کتاب کے لئے آئيں گے تو تم کو نوارني پيشاني والے ”غر المحجّلين“ کہہ کے پکارا جائے گا-مسلک اجتہاد جو کہ وصيت و تعليمات نبوي کے مقابل کبھي بھي سرتسليم خم کرنے کے قائل نہيں تھا، اس کے مقابل ايک فرمانبردار گروہ وہ ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ نبي اکرم کے تمام احکامات کا مطيع ہونا چاہئے وہ جس امر سے بھي متعلق ہو، چاہئے وہ احکامات شريعت ہوں يا رحلت رسالت کے بعد امور کي انجام دہي، لہٰذا کچھ مردان خدا نے نص کي پيروي کے مسلک کي بنياد رکھي اوران کي تعداد شايد دس سے زيادہ نہ ہو، ليکن بعد ميں افراد ان کے گروہ ميں شامل ہوتے چلے گئے-
ظاہر سي بات ہے کہ نص کي اتباع ميں شريعت کے وہ امور جن ميں ان کا موقف ديني مرجعيت اور رسول کے بعد سياسي مراحل سے متعلق ہے ان ميں رسول سے مدد طلب کي ہوگي، اور انھوں نے ولايت و شخصي اختيارات ميں شخصي اجتہاد نہيں کيا ہوگا، اور يہ ايسا گروہ ہے جس پر نصوص نبوي کي تائيد ہے حضرت علي کے مانند حسين وجامع کمالات شخص کے لئے جو نفساني اور اخلاقي صفات کے حامل ہيں تاکہ يہ عظيم منصب صحيح جگہ مستقر ہوسکے جس پر وہ پيغام متوقف ہے جس کے قوانين رسول نے مرتب کئے اور اس کي بنياد ڈالي-
لہٰذا رسول کے بعد آنے والے شخص پر لازم ہے کہ اس مرکز کي حفاظت کرے اوراس کو ان مخالف آندھيوں سے بالکل محفوظ رکھے جو تبديلي زمان اور مرور ايام کے سبب طويل سفر ميں درپيش ہوسکتي ہيں، خاص طور سے مسلمانوں کا وہ دور، جن کا زمانہ عہد ماضي سے بہت قريب ہے، اور ہجرت رسول کے بعد نفاق کي ريشہ دوانيوں کي شدت کے وقت، اور بعض افراد کا مسلمين و مشرکين کے بيچ پيس دينے والي جنگ کے کينوں کے سبب متحد ہونا جن ميں اکثريت ان لوگوں کي ہے جو فتح مکہ کے بعد شريک اسلام ہوئے ہيں اور يہ وہ وہي لوگ ہيں جن کو رسول نے (طلقاء) آزاد شدہ کہا ہے، اور مال وغيرہ کے ذريعہ ان کي قلبي مدد کي تھي-
اس بات کے پيش نظر کي تھي کہ مسلمانوں کے خلاف جو ان کے دلوں ميں کينے چھپے ہيں وہ ختم ہو جائيں اور بعض لوگوں کے دلوں ميں جو حب دنيا اور اس کي رنگينيوں سے دلچسپي رکھتے تھے وہ بجھ جائيں-
نبي اکرم يہ بات بخوبي جانتے تھے کہ سرداران قريش جو کچھ ان کے ہاتھ ميں تھا (سرداري قوم) اس کو چھوڑ نے کے بعد بادل نخواستہ اسلام ميں شامل ہوئے ہيں اور سردست ان کے پاس اس نئے اسلام کو اختيار کرنے کے سوا کوئي چارہ بھي نہيں تھا جبکہ اسلام ايک عظيم دين ہے پھر بھي وہ اس کو تسليم کرنے پر راضي نہيں تھے-
اس کے علاوہ آئندہ دنوں ميں جزيرہ عرب کے باہر کي اسلام دشمن طاقتيں مسلسل ڈرا رہيں تھيں اور اس کا نظير صاحب قوت و قدرت حکومتيں تھيں-
اور يہ بالکل فطري بات تھي کہ اس کا سبب مسلمانوں کا تحول ان حکومتوں کے لئے اور حيرت انگيز تھا جو حکومتيں اپنے آس پاس کے لوگوں کو ڈرا دھمکا رہيں تھيں ہر چند کہ ان کي گيدڑ بھبھکي کے مقابل مسلمانوں کے پاس حفاظت نام کي کوئي چيز نہيں تھي-
لہٰذا نص کي مکمل پيروي، اس اجتہادي روش کے سامنے جو نص شرعي اور نص نبوي کے مقابل علم بغاوت بلند کئے ہے، مدد کي خواہاں ہے جبکہ ايک لحاظ سے نص شرعي و نبوي کا مرکز حضرت علي ہيں اور دوسرے لحاظ سے وجود ظاہري ميں اس نبوي موقف کے مصداق بھي حضرت علي ہي ہيں-
رسول خدا نے فرمايا:
”مَن اطاعني فقط اطاع اللّٰہ و مَن عصاني فقد عصي اللّٰہ و مَن اطاع علياً فقد اطاعني و مَن عصي علياً فقد عصاني“
جس نے ميري اطاعت کي، اس نے اللہ کي اطاعت کي اور جس نے ميري نافرماني کي اس نے اللہ کي نافرماني کي، اور جس نے علي کي اطاعت کي اس نے ميري اطاعت کي اور جس نے علي کي نافرماني کي اس نے ميري نافرماني کي-
دوسري جگہ ارشاد فرمايا:
”انا و عليّ حجة اللّٰہ علي عبادہ“
ہم اور علي بندگان خدا پر حجت خدا ہيں-
قال رسول اللہ:
”اُوحِيَ اِلَيَّ في عليّ ثلاث، انہ سيد المسلمين، امام المتقين، قائد الغرّ المحجّلين“
اللہ نے علي کے سلسلہ ميں ميرے پاس تين چيزوں کے بارے ميں وحي نازل کي کہ: 1-وہ سيد المسلمين 2-امام المتقين 3-قائد الغر المحجلين ہيں-
قال النبيّ : ”عليّ مع الحق والحق مع علي و لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض يوم القيامة“
علي حق کے ساتھ ہيں اور حق علي کے ساتھ اور يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کريں گے-
اور آپ کا قول حضرت علي کے بارے ميں گذر چکا ہے کہ ”الحق مع ذا الحق مع ذا“
يہ اور اس کے مثل نصوص نبوي سے ان اصحاب نے يہ جانا کہ رسول اکرم نے اس عظيم امر کو علي کے لئے ثابت کيا ہے يہ وہ ہيں جو حق کے ساتھ ہيں اور حق پر ہيں اور ان دونوں کا آپس ميں چولي دامن کا ساتھ ہے اور يہ بات گذر چکي ہے کہ رسول نے قرآن و اہلبيت کو ايک دوسرے کا ساتھي و ہمنوا بتايا ہے اوراس بات کي ضمانت لي ہے کہ يہ دونوں ايک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيں ہيں يہاں تک کہ حوض کوثر پر ہم سے ملاقات کريں گے-
اس کے بعد يہي بات حضرت علي سے مخصوص کي اور فرمايا: ”علي مع القرآن والقرآن مع
فخر رازي کہتے ہيں کہ علي ابن ابي طالب ہميشہ بسم اللہ کو بآواز بلند کہا کرتے تھے اور يہ بات تواتر سے ثابت ہے اور جو کوئي بھي دين ميں علي کي اقتدا کرے گا وہ ہدايت يافتہ ہے اور اس بات کي دليل رسول کا يہ قول ہے: ”اللّٰھم ادر الحق مع عليّ حيث دار“ خدايا حق کو اس طرف موڑ جدھر علي جائيں تفسير کبير، ج1، ص204، باب الجہر بالبسملة
علي، لن يفترقا حتي يردا علي الحوض“ جب قرآن حق ہے اوراس ميں شک و شبہ کي گنجائش بھي نہيں ہے اور علي قرآن کے ساتھ ہيں تو ظاہر سي بات ہے کہ علي حق کے ساتھ ہيں اور بالکل واضح ہے کہ علي حق پر ہيں لہٰذا ان کي اتباع اسي طرح واجب ہے جس طرح حق کي اتباع واجب ہے-
يہ وہ اہم دلائل ہيں اس گروہ کے جواتباع نص کو واجب کہتے ہوئے علي سے تمسک کو ضرورت دين سمجھتے ہيں اور ان کي مخالفت کو ناجائز،اور ان کا موقف حيات رسول ہي ميں سب پر واضح تھا-
محمد کرد علي کہتے ہيں: کہ عصر رسول ہي ميں بزرگ صحابہ کرام ولايت علي کے حامي تھے، جيسا کہ سلمان فارسي کہتے ہيں کہ ہم نے رسول کي بيعت مسلمين کے اتحاد، علي ابن ابي طالب کے امام اور ان کي ولايت کے لئے کيا تھا-
انھيں کے مانند ابوسعيد خدري کہتے ہيں کہ لوگوںکو پانچ چيزوں کا حکم ديا گيا تھا انھوں نے چار کو اپنايا اور ايک کو چھوڑ بيٹھے جب ان سے ان چاروں کے بارے ميں پوچھا گيا تو کہا کہ: نماز، زکاة، ماہ رمضان کا روزہ اور حج-
پوچھا گيا وہ کيا چيز ہے جس کو چھوڑ ديا گيا: تو کہا کہ ولايت علي بن ابي طالب ، پوچھنے والے نے کہا کہ کيا يہ بھي ان چيزوںکے ہمراہ فرض تھي-
توابوسعيد نے کہا: ہاں-
اور انھيں کے ہمرکاب تھے، ابوذر غفاري، عمار بن ياسر، حذيفہ بن اليمان و ذو الشہادتين خزيمہ بن ثابت، ابو ايوب انصاري، خالد بن سعيد بن العاص، قيس ابن سعد ابن عبادہ-
اور اس حقيقت کي جانب ڈاکٹر صبحي صالحي مائل ہوتے ہوئے کہتے ہيں کہ خود حيات رسول
ميں شيعہ گروہ موجود تھا جو پروردہ رسول حضرت علي کے تابع تھے، ابوذر غفاري، مقداد بن الاسود، جابرابن عبد اللہ، ابي ابن کعب، ابوطفيل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور ان کے سارے فرزند، عمار بن ياسر ابو ايوب انصاري يہ سب شيعيان علي تھے-
کلمہ(شيعہ) کي اصطلاح بھي کوئي نئي نہيں ہے بلکہ رسول کے حيات مبارک کے آخري دنوں ميں رائج ہوئي ہے جيسا کہ بعض افراد کا نظريہ ہے بلکہ رسول کي زندگي کے ابتدائي دنوں ميں اور آخري ايام ميں اس لفظ کي تکرار فرماتے تھے تاکہ علي کي پيروي کرنے والوں پر دلالت کرے اوران کواس بات کي بشارت دي کہ وہ حق پر ہيں اور کامياب ہيں اور وہ خير الناس ہيں-
مفسرين و حافظين قرآن نے يہ بات لکھي اور کہي ہے کہ جب يہ آيت <ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات اولٰئک ہم خير البرية>، ايمان دار اور نيک عمل انجام دينے والے يقينا بہترين گروہ ہيں، نازل ہوئي تو رسول نے فرمايا: ”انت يا علي و شيعتک“ اے علي! وہ نيک گروہ (خير البريہ) تم اور تمہارے شيعہ ہيں-
سيوطي نے کہا کہ ابن عساکر نے جابربن عبد اللہ سے روايت کي ہے کہ ہم سب رسول کے پاس بيٹھے تھے اور علي وارد ہوئے تو رسول نے ان کوديکھ کر فرمايا: ”والذي نفسي بيدہ ان ہذا و شيعتہ لہم الفائزون يوم القيامة“ قسم ہے اس ذات کي جس کے قبضہ قدرت ميں ميري جان ہے بيشک يہ (علي) اور ان کے شيعہ کامياب ہيں اور آيت نازل ہوئي: <ان الذين آمنوا وعملوا الصالحات اولٰئک ہم خير البرية>، جب کبھي علي آتے تواصحاب رسول بے ساختہ کہہ اٹھے خير البريہ آگئے اور ابن عدي نے ابن عباس سے روايت کي ہے کہ جب مذکورہ آيت نازل ہوئي تو رسول نے علي سے کہا: ”ہو انت و شيعتک يوم القيامة راضين مرضين“ وہ تم اور تمہارے شيعہ ہيں جو روز محشر خدا سے اور خدا ان سے راضي ہے، ابن مردويہ نے اسي آيت کے ذيل ميں لکھا ہے کہ رسول نے کہا: ”انت و شيعتک موعدي و موعدکم الحوض اذا جائت الامم للحساب تدعون غراً محجّلين“ تم او رتمہارے شيعوں اور ميري وعدہ گاہ حوض کوثر ہے جب امتيں حساب کتاب کے لئے آئيں گے تو تم کو نوارني پيشاني والے ”غر المحجّلين“ کہہ کے پکارا جائے گا-
source : http://www.tebyan.net/