اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

اطاعتِ خداوندی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ“۔ پیغمبر خدا سے ارشاد ہورہا ہے کہ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ 

کل میں نے عرض کیا کہ پیغمبر خدا کی اطاعت کا بھی حکم ہے اور اتباع کا بھی حکم ہے اور یہ عرض کیا کہ اطاعت ہوتی ہے اقوال کی اور اتباع ہوتا ہے افعال کا۔ اب سوال یہ ہے کہ اطاعت اور اتباع کا حکم کیا بس پیغمبر خدا کے زمانہ کے مسلمانوں کیلئے تھا؟ انہی پر اطاعت کا فریضہ تھا اور انہی پر اتباع کا فریضہ عائد تھا؟ یہ تو اس وقت ہوتا جب پیغمبر خدا کی رسالت اسی دورِ حیات سے متعلق ہوتی۔ تو بے شک اطاعت کا حکم بھی اسی وقت کے لوگوں کیلئے ہوتا اور اتباع کا حکم بھی اُسی دور کے لوگوں کے لئے ہوتا۔ پھر ہم اور آپ بالکل آزاد تھے ، نہ ہمارے لئے اطاعت، نہ اتباع۔ پھر جتنے احکامِ شریعت ہیں، ان سب سے آزادی، اس لئے کہ تمام احکامِ شرع یا اطاعت کے ماتحت ہیں یا اتباع کے ماتحت ہیں۔ جب اطاعت و اتباع اُسی دور کے لوگوں کیلئے ہے تو پھر ہمارے واسطے نہ کوئی واجب ، نہ کوئی حرام۔ تمام احکام ہم سے برطرف۔ 

لیکن یہ تو ہر مسلمان بلا تفریق فرقہ ، اس کے نزدیک یہ تصور غلط ہے۔ آپ کی رسالت اُس دورِ حیات ہی سے متعلق نہ تھی اور جب اُسی دورِ حیات سے متعلق نہ تھی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمِ اطاعت بھی تاقیامت ہے اور حکمِ اتباع بھی تا قیامت ہے۔ 

کل تفصیل سے بیان ہوا اور اس کا حوالہ میں نے دیاکہ اطاعت ہوتی ہے اقوال کی اور اتباع ہوتا ہے افعال کا۔لہٰذا اقوالِ رسول کو بھی تا قیامت محفوظ رہنا چاہئے اور افعالِ رسول کو بھی تاقیامت محفوظ رہنا چاہئے کیونکہ اگر اقوال محفوظ نہ رہے تو اطاعت نہیں ہوسکتی اور اگر افعال محفوظ نہ رہے تو اتباع نہیں ہوسکتا۔ 

اب اقوال کیونکر محفوظ رہیں؟ وہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ اقوال کی حفاظت کرتی ہیں کتابیں اور جب میں کہتا ہوں کتابیں، تو سرفہرست ہے کتاب اللہ۔ کوئی کہے کہ بات تو اقوالِ رسول کی تھی، یہ سر فہرست کتاب اللہ کیونکر ہوگئی؟ 

میں کہوں گا کہ میں نے بھولے سے نہیں کہا ہے، سمجھ بوجھ کر کہا ہے، میرا بھی ایمان ہے کہ یہ کتاب اللہ ہے مگر جسے ہم اور آپ اور ہر مسلمان کتاب اللہ کہتا ہے، سمجھتا ہے اور مانتا ہے، اس کو لوحِ محفوظ سے اُترتے ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم نے تو قرآن کو بھی اسی زبان سے سنا جس زبان سے حدیثوں کو سنا۔ ارے! ہم نے تو کچھ بھی نہیں سنا۔ جس جس نے سنا، قرآن کو بھی اُسی زبان سے سنا جس زبان سے حدیثوں کو سنا۔ خدا کی قسم! یہ تو اُن کی زبان کا اعتبار ہے جسے اللہ کا کلام کہہ دیا، اُسے قرآن مان لیا، جس کو اپنا کلام کہا، اُس کو حدیث سمجھ لیا۔ 

ورنہ ہم کیا جانتے کہ کون کلام اللہ اور کون اُن کا اپنا کلام۔ اب یہ سیرت سے متعلق بات ہے، میں کہتا ہوں ، بخدا! یہ بھی امانتداری تھی ان کی کہ زبان پر ان کی کلام آرہا تھا اور کہہ رہے تھے کہ میرا نہیں ہے، اسی زبان پر قرآن آیا، اسی زبان پر حدیثیں آئیں۔ جسے انہوں نے کلام اللہ کے طور پر پیش کیا، یہ کہہ کر کہ یہ کلام اللہ ہے،اُسے ہم نے قرآن مانا ، جسے اپنا کلام کہہ کر پیش کیا، اُسے حدیث مانا۔ 

اسی لئے یہ ایک جملہ ہے، اسے چاہے محفوظ کرلیجئے اور بوقت ِفرصت اس پر غور کیجئے گا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ میں کہہ رہا ہوں کہ جب تک ان کی زبان پر اعتبار نہ ہو، قرآن پر ایمان ہو ہی نہیں سکتا۔ تو قرآن مجید ہو یا کتب ِ حدیث، یہ سب مجموعہ ہیں ان اقوال کا جو حضرت کی زبانِ مبارک پر آئے۔جو اقوال بحیثیت کلام اللہ آئے، ان کا مجموعہ قرآن مجید، جو بحیثیت اپنے کلام کے آئے، اُن کا مجموعہ کتب ِ 

احادیث ہیں۔ 

تو یہ کتب تو اقوال کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ افعالِ رسول کیونکر محفوظ رہیں؟ رواروی میں کوئی شخص جواب دے گا کہ افعالِ رسول بھی راوی بیان کریں اور وہ کتابوں میں درج ہوجائیں، اس طرح افعالِ رسول بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ مگر ذرا سی باریک بات ہے، اربابِ فہم مجمع میں ہیں، انشاء اللہ کسی کو کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ فعلِ رسول راوی کی زبان پر آیا تو قول ہوگیا، فعل نہیں رہا۔فعل تو اُسی وقت تک فعل ہے جب تک فاعل سے ہے اور جب اس کا بیان کسی سے ہوا تووہ قول ہوا، فعل نہیں رہا۔ یوں تو کسی اور راوی کا کیا ذکر، قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے اقوال بھی موجود ہیں، حضرت نوح، حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ، سب کے اقوال بھی ہیں، افعال بھی ہیں۔ قرآن مجید نے بیان کئے ہیں۔ تو کیا ان سب انبیاء کے افعال ہم تک پہنچے؟ افعال نہیں پہنچے، ان کا بیان ہے جو بذریعہ قرآن ہم تک پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر حضرت کے افعال کو راویوں نے بیان کیا تو یہ اُن کا بیان ہے جو ہم تک پہنچا، افعالِ رسول کہاں پہنچے ہیں؟ 

یاد رکھئے! کتاب فعل کو کبھی نہیں دکھاتی، فعل کو آئینہ دکھایا کرتا ہے۔ میرا ہاتھ جنبش کرے گا، آئینے میں نظر آئے گا۔ بے شک آپ فعل کو دیکھ رہے ہیں۔ میرا ہاتھ ساکن ہوگا، آئینے میں نظر آئے گا۔ بے شک آپ فعل کو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان دنیا والے آئینوں میں ایک بڑی خرابی ہے اور وہ خرابی یہ ہے کہ اس میں عکس اُسی وقت تک نظر آتا ہے، جب تک اصل سامنے رہے۔ اِدھر اصل نظر سے اوجھل ہوااور عکس بھی غائب ہوا۔ ہمیں ایسے آئینے نہیں چاہئیں، ہمیں ایسے آئینے چاہئیں کہ پیغمبر خدا تشریف لے جائیں اور افعالِ پیغمبر خدا ہمیں نظر 

آتے رہیں۔ 

ایک اور نقص اس آئینہ میں ہے کہ یہ آئینہ اسی عمل کو دکھائے گا جو وقوع میں آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے حرکت کی ہاتھ سے اور وہ آئینہ میں نظر آگئی۔ ہاتھ کو ساکن کیا، وہ سکون آئینہ میں نظر آگیا۔ جو کام وقوع میں آجائے، وہ نظر آئے گا مگر افعالِ رسول بمقتضائے اسباب ہوتے تھے۔ جیسا سبب جس وقت ہوا، ویسا عمل وقوع میں آیا۔ جب تک وہ سبب پیدا نہ ہوگا، اُس وقت تک رسول کا وہ عمل نہ ہوگا ورنہ خلافِ عقل ہوگا، خلافِ حکمت ہوگا۔ 

مثال کے طور پر کوئی مسلمان پیغمبر خدا کے ساتھ ابتدائے بعثت سے ہجرت تک جو تیرہ برس کی مدت ہے، یعنی دورِ رسالت کا آدھے سے زیادہ حصہ، کیونکہ ۲۳ میں سے ۱۳ آدھے سے زیادہ حصہ ہیں۔ ۱۰ آدھے سے کم ہے۔ تو تیرہ برس پیغمبر خدا کے ساتھ رہتا اور کسی 

وقت جدا نہ ہوتا، ایسا خاص صحابی ہوتا کہ کسی وقت جدا نہ ہوتااور وہ قسمیں کھا کر کہہ سکتا کہ میں ہر وقت رسول کے ساتھ رہا، تیرہ برس مسلسل، کسی وقت میں نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا، آپ کی سیرت ِ حیات میں تلوار اُٹھانا نہیں ہے۔ 

اُس کا یہ بیان بالکل صحیح ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سیرتِ رسول کے دائرہ میں تلوار اُٹھانا نہیں ہے۔ اب اس میں سے کوئی نتیجہ نکالے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے رسولِ مطلق عدم تشدد کے قائل ہیں۔ جیسا کہ دنیا کے بعض رہنماؤں کا اصول ہے لیکن اب جب ہجرت کرکے آپ مدینہ تشریف لائے تو اب اس کے بعد ایک سال اسی میں شامل کیجئے، اب ہوگئے چودہ برس۔ 

۲ھ میں دیکھئے، بدر دیکھئے، اُحد دیکھئے، خندق دیکھئے، خیبر دیکھئے تو تلوار نظر آئے گی ان کے ہاتھ میں۔ ظاہر نہ سہی مگر کسی ایسے ہاتھ میں جو انہی کا ہاتھ ہے۔ بہرحال اب تلوار ہے۔ تو معلوم ہوا کہ سیرتِ رسول کا ایک گوشہ تھا جو چودہ برس تک پردے میں رہا اور جب وہ اسباب ہوئے ، تب وہ سیرت کا گوشہ سامنے آیا۔ یہ مسلمان جو سیرتِ نبوی مرتب کررہا تھا، اس نے اب تک ایک سطر کا اضافہ کیا کہ ہاں! ان کی سیرت میں تلوار اُٹھانا بھی ہوتا ہے۔ اب اسی مسلمان سے پوچھئے کہ جن سے جنگ ہورہی ہے، کیا پیغمبر اِن سے کبھی صلح بھی فرمائیں گے؟ 

یاد رکھئے جتنا اُسے بظاہر جوشِ ایمانی زیادہ ہوگا اور جتنا ایمان کی شدت کا زعم زیادہ ہوگا، اُتنی شدت سے وہ انکار کرے گا۔ توبہ توبہ، بھلا رسول اور مشرکین سے صلح فرمائیں؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ارے! وقوع میں آجانے کے بعد جب بہت سے مسلمانوں کے حلق سے یہ چیز نہ اُترتی ہو تو پہلے کیونکر تصور میں آسکتا تھا کہ یہ صلح بھی فرمائیں گے مشرکین کے ساتھ۔ 

لیکن اب آنے دیجئے 6ھ اور حدیبیہ کی منزل اور دیکھئے کہ پیغمبر خدا صلح کرکے واپس تشریف لے جاتے ہیں مکہ سے یا نہیں؟ اب اس نے کہا کہ ہاں صاحب! بے شک سیرتِ نبوی میں صلح کرنا بھی ہے۔اب حساب لگائیے کہ تیرہ برس وہ قبل ہجرت اور 6ھ میں یہ واقعہ ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بعد بعثت19برس تک سیرت کا یہ گوشہ پردہ میں رہا اور سامنے نہیں آیا کیونکہ وہ اسباب نہیں ہوئے تھے جن اسباب سے سیرت کے عمل کا تعلق تھا۔ 

اب اسی مسلمان سے یہ پوچھئے یا اور مسلمانوں سے جو اس کے ساتھ ہوں کہ خیر صلح ہوگئی، اب اگر یہ لوگ عہد شکنی کریں اور شرائط ِصلح کی خلاف ورزی کریں اور پھر رسول فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہوں تو ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اب پھر وہی بات کہ جتنا اپنے ایمان کا دعویٰ زیادہ ہوگا، اُتنی شدت کے ساتھ سزا تجویز کرے گا۔ اب جتنے الفاظ آپ کے نزدیک لغت میں زیادہ سخت ہوں۔ 

ارے! پرخچے اُڑا دیں گے، پرزے پرزے کردیں گے ان کم بختوں کے۔ یہی سب وہ کہتا اور اُسے تقاضائے ایمان سمجھتا لیکن اب آنے دیجئے 8ھ میں فتح مکہ اور دیکھئے کہ رسول کے سامنے وہی جماعت ہے اور پیغمبر خدا ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ 

تو سیرت کا نیا باب سامنے آیا یا نہیں؟ اب اسی مسلمان سے پوچھئے کہ پیغمبر خدا اپنے مخالفین سے تلوار کے علاوہ کسی اور طریقے سے بھی جنگ کرتے ہیں؟ تو وہ کہے گا کہ یہ تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ جنگ ہو اور تلوار کے بغیر ہو۔ لیکن آنے دیجئے 9ھ میں مباہلے کا میدان کہ جنگ بھی ہورہی ہے اور تلوار کہیں نہیں ہے۔ 

اب معلوم ہوا کہ سیرت کا ایک باب آج سامنے آیا9ھ اور 9ھ کے بعد10ھ۔ اس مسلمان سے پوچھئے کہ اگر پیغمبر خدا کو کوئی مجمع ایسا ملے کہ اتنا بڑا مجمع نہ اس سے پہلے رسول کے سامنے ہوا ہو، نہ اس کے بعد کبھی ہوگا۔ اتنا بڑا مجمع ہو، ایک لاکھ کے قریب مسلمان رسول کے سامنے ہوں تو اس موقع پر پیغمبرخدا کیا فرمائیں گے؟ 

یہ کہے گا کہ وہی فرمائیں گے جو عمر بھر فرماتے رہے، نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰة دو۔ جو ہمیشہ کہتے رہے، وہی وہاں بھی کہیں گے ۔ مگر اب آنے دیجئے 10ھ میں، وہ بھی آخری مہینہ، ذی الحجہ کا مہینہ اور اس کی اٹھارہ تاریخ۔ اس میں رسول کی سیرت کے کتنے گوشے ہیں؟ ہمیشہ دیکھتے تھے وہ منبر ، آج نیا منبر دیکھا۔ہمیشہ دیکھتے تھے مسجد میں اور آج کھلا میدان دیکھا۔ اس کے بعد رسول منبر پر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد ایک نئی بات دیکھی کہ ہمیشہ منبر پر اکیلے جاتے تھے، آج کسی کو منبر پر اپنے پاس بٹھا لیا اور اب نفسیاتی طریقہ پر دیکھئے کہ یہ نئی بات جو ہورہی ہے، تو اب مجمع جو ہے، وہ خطبے کے الفاظ کم سن رہا ہے اور یہ صورت زیادہ دیکھ رہا ہے۔ 

یہاں چند جملے ہیں، یہ یہاں کیسے؟ذہنوں میں تصورات تہہ و بالا ہیں کہ کوئی خاص بات ہے۔ یعنی پورا جملہ ہوا میں جارہا ہے۔ آخری جملہ کا انتظار ابھی سے ہے۔ 

تو جناب! یہ سب باتیں آج نئی نظر آرہی ہیں۔ اس کے بعد پورا خطبہ ہوجاتا ہے جو لوگوں نے غور سے نہیں سنا ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کی تاریخیں دیکھ لیجئے تو وہ پورا خطبہ کہیں ملتا بھی نہیں۔ سنا کس نے تھا غور سے؟ 

اب وہ وقت آیا جس کیلئے پاس بٹھایا تھا۔ تب پیغمبر نے وہ تاریخی الفاظ فرمائے: 

”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَاعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“۔ 

”جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ علی بھی مولا ہے“۔ 

ماشاء اللہ! صاحبانِ فہم بھی ہیں، تو جنابِ والا! 

”فَھٰذَاعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“۔ 

عربی میں تعیین کیلئے اُن میں سے ہر لفظ کافی ہے۔ اشارہ کردیا تو یقین فردِ واحد کا ہوگیا اور نام لے دیا تو تعیین شخص واحد کی ہوگئی۔ رسول نے دو طریقے صرف کردئیے۔ فھذا بھی ، علیٌ بھی۔ معنی یہ ہیں کہ اگر حاضر ہوں تو یہ دیکھو اور غائب ہوں تو نام سنو۔ 

پیغمبر خدا کی سیرت کا نیا باب سامنے آیا یا نہیں؟ اس کے بعد مدینہ منورہ واپس ہوئے تو علیل ہوگئے۔ دو مہینے کے بعد وفات ہوگئی۔ تو اب پیغمبر خدا کی وفاتِ طیبہ کا جو سال آیا ، وہ سیرت کا ایک نیا باب کھولتا ہوا آیا۔ اب جو کتابِ سیرت اپنے عمل سے مرتب کررہا تھا، اس میں برابر اضافہ ہورہا تھا۔ وہ شخصیت وفات کے ذریعہ سے ہمارے سامنے سے ہٹ گئی، چلی گئی اور رسالت ہے تا قیامت۔ 

تاریخ کے طالب علم بھی یہاں ہوں گے۔ تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ تاریخ رواں دواں رہتی ہے، وہ ایک نقطہ پر نہیں پڑتی۔ 

گونا گوں حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ 

تو حضورِ والا!کیا تاریخ کا یہ اصول یہاں ٹوٹ گیا؟ یعنی اب11ھ سے لے کر قیامت تک تاریخ کی سوئی ایک نقطہ پر منجمد ہوگئی کہ ابھی تک تو ہر سال نئے نئے حالات پیدا ہو رہے تھے اور اب کوئی نئی صورتِ حال پیدا نہیں ہوگی؟ 

یہ خلافِ عقل بات ہے۔ یقینا زندگی کے کتنے دوراہے ایسے ہوں گے کہ پیغمبر خداکے اُس دَورِ حیات میں پیش نہیں آئے تو اس دورِ حیات میں پیغمبر کا عمل کیا ہوتا؟ وہ پردہ میں رہ گیا۔ لہٰذا اب ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو وقوع میں آئے ہوئے افعالِ رسول کو دکھائیں۔ ہمیں وہ آئینے چاہئیں جو ملکاتِ نفس پیغمبرخدا کو جذب کرلیں۔ 

ماشاء اللہ لاہور کی سرزمین ہے اور یہاں علمی ذوق بلند پایہ ہے ۔مگر پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کیلئے یہ الفاظ قابلِ فہم نہیں ہیں۔ ایک بات توجہ سے سن لیجئے۔ جو ہر وقت ہوتا ہے، وہ فعل ہوتا ہے اور وہ طاقت جو فعل کو کرواتی ہے، اُسے مَلِکہ کہتے ہیں۔ یعنی پردئہ شب میں جس نے نفس سے اس فعل کو کروایا، یہ فعلِ سخاوت ہے اور خود سخاوت وہ ملکہ ہے جس نے نفس سے اس فعل کو کروایا۔ 

بر وقت فعل وہ کام ہے جو منتظرِ سبب رہتا ہے اور ملکہ نفس کی وہ طاقت ہے جو قائم ہوتی ہے ، راسخ ہوتی ہے اور بر وقت اس عمل کو کرواتی ہے۔ 

تو اب یہ جملہ غالباً سمجھ میں آگیا ہوگا۔ ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو افعالِ رسول کو دکھائیں بلکہ ہمیں وہ آئینے چاہئیں جو ملکاتِ نفس رسول کو جذب کرلیں۔ اُردو زبان میں اس کو میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں وہ آئینے نہیں چاہئیں جو یہ دکھائیں کہ رسول نے کیا کیا؟ ہمیں وہ آئینے چاہئیں وہ یہ دکھائیں کہ رسول ہوتے تو کیا کرتے! وہ آئینے ہمارے لئے مفید نہیں ہیں جو یہ دکھائیں کہ رسول نے کیا کیا کِیا۔ہمیں وہ آئینے درکار ہیں جو یہ دکھائیں کہ پیغمبر ہوتے تو کیا کرتے! اس کیلئے خالق نے اپنے رسول کو آئینے عطا فرمائے۔ اگر یہ آئینے دُور دُور کے ہوتے تو کسی وقت کا عکس لیتے اور کسی وقت کا عکس نہ لیتے۔ لہٰذا حکمت ِ الٰہی ا س کی متقاضی ہوئی کہ یہ آئینے رسول کی گود میں رکھ دئیے جائیں تاکہ ملکاتِ نفس پیغمبر خدا کو جذب کرلیں۔ 

کیا کہنا ان آئینوں کا!جوہر رکھے ہوئے اللہ کے، جِلا دی ہوئی تربیت ِ رسول کی۔ گویا پیغمبر کا کاشانہ آئینہ خانہ بنا ہوا تھا۔ بیچ میں پیغمبر، چار طرف چار آئینے۔ 

حدیثیں جتنی پڑھوں گا، وہ متفق علیہ ہوں گی۔ ایک آئینہ قد ِآدم ، تقریباً برابر کا۔پیغمبر نے اپنا عکس دیکھا، بالکل مکمل نظر آیا۔ 

”عَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَامِنْہُ“۔ 

”یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں“۔ 

”عَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَامِنْہُ“۔ 

خالق نے فرمایا: ”اَنْفُسَنَا“ 

یہ تو ہمارا نفس ہے اور ابھی میں فعل اور ملکہ کا فرق بتا چکا۔ یاد رکھئے کہ افعال کا مرکز اعضاء ہوتے ہیں اور مَلِکہ کا مرکز نفس ہوتا ہے۔ جہاں تک الفاظ کی منزل ہے، فعل جدا، فاعل جدا۔ اٹھانا ہاتھ کا کام، پیروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کہنا زبان کا کام، ہاتھوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چلنا پھرنا پیروں کا کام ہے، کانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ سننا کانوں کا کام، زبان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ افعال کی منزل میں فعل الگ، فاعل الگ مگر نفس کی منزل میں سب افعال ایک۔ 

دیکھا آنکھوں نے ، آپ نے کہا: میں نے دیکھا۔ اُٹھایا ہاتھوں نے، آپ نے کہا: میں نے اُٹھایا۔ راستہ طے کیا پیروں نے، آپ نے کہا: میں نے راستہ طے کیا۔ سنا کانوں نے، آپ نے کہا: میں نے سنا۔سب افعال ایک کے ہوگئے۔ جب تک لسان اللہ کہا، زبان کی گفتگو اپنی ہوئی۔ جب تک اذن اللہ کہا، سماعت اپنی ہوئی۔ جب تک جنب اللّٰہ کہا،پناہ دینا اپنا ہوا۔ لیکن جب نفس کہہ دیا تو افعال ان کے نہیں رہے، خد اکے ہوگئے۔ 

دوسراآئینہ نسبتاً چھوٹا مگر اپنے شعبہ میں مکمل۔ پیغمبر نے سند عطا فرمائی، مسلّم الثبوت، صحیح بخاری میں ہے ، بنظر اختصار، فاطمہ کے فضائل میں صرف تین عدد احادیث،اس میں سے ایک یہ ہے کہ: 

”فَاطِمَۃ بَضْعَۃ مِنِّیْ“ 

”فاطمہ میرا ٹکڑا ہے“۔ 

میرا ایک جزو ہے۔ حضورِ والا! جزو کون ہوتا ہے؟ جزو وہ ہوتا ہے جسے نکال لیجئے تو چیز نامکمل ہوجائے۔ ملا دیجئے تو اس کی تکمیل ہوجائے۔ یہ سند ِخاص فاطمہ کیلئے ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کیلئے بھی نہیں ہے۔ حسن و حسین کیلئے بھی نہیں ہے۔صرف حضرتِ فاطمہ زہرا کیلئے یہ الفاظ ہیں۔”بَضْعَۃ مِنِّیْ“، میرا ایک جزو۔ 

میں کہتا ہوں ، میرے گزشتہ بیان کی روشنی میں اس جزو کی حقیقت پر غور کیجئے کہ کیا رسالت ِ پیغمبر صرف مردوں کیلئے ہے؟ وہ تو تمام نوعِ بشر کیلئے ہے۔ اس میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں۔ اور میں نے کہا کہ فریضہ رسالت دو چیزوں سے ادا ہوتا ہے ، اقوال سے اور افعال سے۔ اقوال کیلئے اطاعت واجب اور افعال کیلئے اتباع واجب۔ اقوالِ رسول تو سب کیلئے ہو سکتے ہیں، مرد اور عورت دونوں کیلئے۔ افعالِ رسول دونوں کیلئے نہیں ہوسکتے، چاہے موجودہ ترقی پسند زمانہ کتنا ہی کہے کہ ہر میدان میں مردو عورت دوش بدوش مگر میں کیا کروں، اسلام میں تو نماز تک میں دوش بدوش نہیں، حالانکہ نماز کوئی معاشرتی چیز نہیں، وہ تو مابین خدا و خود ایک عبادت ہے۔ 

مگر اس میں بھی مرد کی نماز اور طرح اور عورت کی نماز اور طرح۔ ہمارے ہاں دینیات کی کتاب مولوی فرمان علی صاحب مرحوم کی ایک وقت میں رائج تھی، بچوں کو پڑھائی جاتی تھی۔ مردوں کیلئے کچھ نمازیں جہری ،کچھ اخفات کے ساتھ۔لیکن عورت کیلئے جو نمازیں جہری بھی ہیں، وہ بھی اخفات کے ساتھ یعنی آہستہ ۔ 

اب ماشاء اللہ آپ صاحبانِ فہم و نظر ہیں، ذرا غور کیجئے کہ نماز میں بڑی ضرورت ہے رجوعِ قلب کی اور رجوعِ قلب کا انتہائی درجہ ہے محویت۔اس کا معیار اور کمال آپ نے سنا ہوگا کہ تیر کھینچ لیا جاتا ہے اور پتہ نہیں ہوتا۔یہ محویت کا عالم ، یہ استغراق کا عالم ۔ اور یہ روح ہے نماز کی مگر اب میں اہلِ فہم سے، اہلِ عقل سے ، صاحبانِ علم و نظر سے ، سب سے پوچھتا ہوں کہ اگر آدمی میں ایسی محویت ہوئی کہ مرد اپنا مردہونا بھول گیا، عورت اپنا عورت ہونا بھول گئی تو احکامِ شریعت پر عمل ہی کیونکر ہوسکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ خالق کی نظر میں جتنی اہمیت نماز میں استغراق 

کو ہے، اُتنی ہی خصوصیت اس کی نگاہ میں ہے اپنی خصوصیت ِصنفی کے باقی رکھنے کی کہ مرد یاد رکھے کہ میں مرد ہوں اور عورت یاد رکھے کہ میں عور ت ہوں۔ 

تو پھر کیا مشکل ہے کہ نماز میں یاد رکھے اور زندگی کے سب کاموں میں بھول جائے۔ اس کے بعد لباسِ نماز میں زمین آسمان کا فرق۔ مرد کیلئے اتنا لباس کہ جس کے بغیر نماز باطل ہوگی۔ بہت مختصر، بس اتنا کہ برہنہ نہ ہو اور عورت کیلئے سوا چہرے کے، گٹوں سے لے کر انگلیوں تک اور ہاتھوں کے باقی تمام اجزاء پوشیدہ ہوں۔ صحت ِنماز کیلئے ضروری۔ 

کتنی ہی ترقی یافتہ خاتون کیوں نہ ہو، لیکن اگر نماز پڑھتی ہو تو اس وقت یہی لباس اختیار کرنا ہوگا اور اب ایک پہلو کی طرف توجہ دلاؤں اور صاحبانِ علم کیلئے بعد میں توضیح ہوگی۔ یہ نامحرم کی وجہ سے نہیں ہے۔ اپنے مکان میں، پردئہ شب میں، گھر کے دروازے بند کرکے ، سامنے پردے ڈال کربھی نماز ہو تو اس سے زیادہ کوئی جزو جسم کا بے پردہ ہو تو نماز باطل ہے۔ 

میں کہتا ہوں کہ اس سے خالق کا منشاء سمجھئے کہ جو خالق اپنی بارگاہ میں عورت کو بے پردہ دیکھنا نہ چاہتا ہو، وہ بھلا اسے کیسے پسند کرے گا کہ بولہوس مردوں کے سامنے وہ بے پردہ پھرے۔ ترقی پسند لوگوں نے عورتوں کو یہ درس دیا ہے کہ دیکھو! اسلام نے عورتوں کو مصیبت میں ڈالا ہے، مردوں کو آزادی دی ہوئی ہے۔ حج پر جاکر دیکھئے کہ مردوں کیلئے مصیبت ہے یا عورتوں کیلئے۔ مرد ذرا سا بھی سایہ سر پر نہیں رکھ سکتے اور وہ اطمینان سے اپنے سر پر چادریں تانے ہوئے ۔ مرد ایسا لباسِ خاص اختیار کریں کہ جس سے مُردہ اور زندہ میں بہت کم فرق محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے لئے ضرورت ہے کہ ایسا لباس ہو اور عورتوں کیلئے جو عام لباس ان کا ہے۔ 

یہ وقار خواتین کا تحفظ ہے جو ان کا عام لباس ہے، اُسی لباس میں ان کا احرام صحیح ہے۔ ان کیلئے یہ شرط نہیں ہے اور عام احکام میں ان کیلئے کتنی آزادیاں ہیں، ہمارے لئے کتنی مصیبت ہے۔ ہم ایک چھلا سونے کا نہیں پہن سکتے، وہ بقدرِ برداشت پہن سکتی ہیں۔ ہم خاص لباس بھی ریشم کا نہیں پہن سکتے، وہ سر سے پاؤں تک ریشمی لباس پہنیں، کوئی مضائقہ نہیں۔ 

یہ کیا ہے؟یہ حقیقت میں خالق کی طرف سے صرف احساس باقی رکھنا ہے اور پھر ان کے وقار کا تحفظ ہے، ان کی عزت و ناموس کا تحفظ ہے۔ یہ تمام مقاصد ہیں ، ورنہ اسے ہم کو مصیبت میں ڈالنا نہیں ہے اور نہ انہیں آرام پہنچانا ہے۔ یہ تو جب ہوتا کہ جب ان کا کوئی رشتہ اُس سے زیادہ ہوتا ، ہم سے کم ہوتا۔ 

خالق کے نہ تو بیٹا ہے، نہ بیٹی ہے۔ خواتین کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کروں گا کہ جس رسول کی زبان سے یہ احکام پہنچے ہیں، اُسے اللہ نے بیٹا نہیں عطا کیا، بیٹی ہی عطا فرمائی ہے۔ ہم تو ان کے ہر حکم کو حکمِ الٰہی سمجھتے ہیں۔ لیکن جو شخص رسالت کامنکر ہو، وہ بھی ان کے قانون میں یہ تصور نہیں کرسکتا کہ عورتوں کے لئے ناانصافی ہوئی ہوگی اور مردوں کو کچھ ان کے حق سے زیادہ دے دیا ہوگا۔ 

تو اب وہی بات آگئی کہ جب احکام شریعت کے الگ الگ ، حج کا طریقہ الگ الگ، نماز کا طریقہ الگ الگ اور جانے کتنی باتوں میں الگ الگ تو رسول کا عمل مردوں کیلئے تو نمونہ ہوسکتا ہے، عورتوں کیلئے نمونہ نہیں بن سکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورتوں پر حجت ِ خدا تمام ہی نہیں ہوتی اور مقصد ِرسالت ہے حجت تمام کرنا۔ 

قرآن کہہ رہا ہے: 

”رُسُلاً مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لَئِلَّایَکُوْنَ لِلنَّاسِ حُجَّۃ بَعْدَالرُّسُلِ“۔ 

پیغمبر اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ خلقِ خدا کے پاس پیغمبروں کے آجانے کے بعد کوئی عذر نہ ہو، اپنی کوتاہی روزِ قیامت پیش کرنے کیلئے۔ تو اگر فقط رسول کی ذات ہو تو عورتیں بارگاہِ خداوندی میں روزِ قیامت کہہ سکتی ہیں کہ بارِ الٰہا! ہم اگر ایمان و عمل میں ناقص رہے تو ہمارا قصور نہیں ہے، ہماری ہدایت ہی پوری نہیں ہوئی، اس لئے کہ مردوں کیلئے تو اقوال بھی رہے اور افعال بھی رہے اور ہمارے لئے تو بس اقوال ہی اقوال رہے۔ عمل کا کوئی بے داغ نمونہ ہمارے سامنے آیا ہی نہیں۔ تو جب حجت تمام نہیں ہوئی تو مقصد ِرسالت کی تکمیل نہیں ہوئی۔ 

اس لئے ضرورت تھی کہ پیغمبر کے خزانہٴ رسالت میں کوئی گوہر بے بہا ایسا ہو کہ اس کا کردار عورتوں کیلئے ویسا ہی معصوم نمونہٴ عمل ہو جیسا خود رسول کا کردار مردوں کیلئے نمونہٴ عمل ہے۔ اس کیلئے خالق نے اپنے رسول کوحضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی بیٹی کرامت فرمائی۔ اس معنی سے پیغمبر نے فرمایا ہے کہ فاطمہ میرا ایک جزو ہے۔ یعنی اگر فاطمہ نہ ہوں تو میرے فرائض کی تکمیل نہیں ہوتی۔فاطمہ میرے ساتھ مل جائیں تو میرے فرائض رسالت مکمل ہوتے ہیں، بغیر ان کے میرے مقصد ِرسالت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ 

اب معلوم ہوا کہ یہ فاطمہ تھیں جو حضرت پیغمبر خدا تعظیم کو کھڑے ہوتے تھے۔ بیٹی ہونے کا تقاضا ہی نہیں ہے کہ باپ تعظیم کو کھڑا ہو، یہ عمل خود بتاتا ہے کہ فاطمہ صرف بیٹی ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ اور بھی ہیں۔ تو یہ فاطمہ کی تعظیم نہیں ہے، اس منصب کی تعظیم ہے جوجنابِ فاطمہ 

کے سپرد ہے۔ 

اس سے ایک مشکل میری حل ہوجاتی ہے، اپنی کوتاہیِ معلومات کے اقرار کے ساتھ یہی عرض کروں گا کہ میری کوتاہ نظری ہے کہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی وسیع النظر ہو، اس کے سامنے کوئی مآخذ ہو جس کے فضائل بے شمار، جس کے فضائل کی کوئی انتہا نہیں۔ مگر مجھے حضرت علی علیہ السلام کیلئے نہیں ملتا کہ پیغمبر خدا تعظیم کو کھڑے ہوتے ہوں۔ یہ مشکل نہیں ہے یا نہیں؟ اب جو حل اس کا میری سمجھ میں آتا ہے، وہ عرض کرتا ہوں۔ میری سمجھ میں جو آیا، وہ یہ کہ فضائل کا بے شمار ہونا اور بات ہے مگر علی کاجو منصب ہے، وہ بعد ِرسول ہوگا، فاطمہ کا جو منصب ہے، وہ حیاتِ رسول میں ہے۔ 

اب جناب دوآئینے ہوگئے۔ ایک آئینہ قد ِآدم، دوسرا آئینہ میں نے کہا کہ اپنے شعبہ میں مکمل۔اب دو چھوٹے چھوٹے آئینے، مگر جناب آئینے میں ایک خصوصیت ہے، وہ تو اُس آئینے میں بھی ہے جسے میں بیکار کہہ چکا ہوں۔ جسے میں نے کہا کہ مجھے کوئی فائدہ نہیں مگر وہ خصوصیت اس آئینہ میں بھی ہے کہ آئینہ خواہ چھوٹا ہو مگر تصویر پوری دکھاتا ہے بلکہ آئینہ کے اگر ٹکڑے بھی ہوجائیں توہر ٹکڑا آئینہ ہوگا۔ 

ان چھوٹے چھوٹے آئینوں کیلئے میں کہتا ہوں کہ پیغمبر نے ان میں جھک کر اپنا نقشہ دیکھا، تصویر مکمل نظر آئی۔ سند عطا فرمادی ایک۔ دونوں کو مشترک: 

”اَبْنَایَ ھَذَانِ اِمَامَانِ قَامَااَوْقَعدَا“۔ 

”میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں،چاہے بیٹھے ہوں“۔ 

یہ امام کہنے پر قرآن مجید کے ماننے والوں کو تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن نے بتایا کہ گہوارہ کا بچہ کہہ رہا ہے: 

”اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اَ تَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا“۔ 

”میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے“۔ 

صیغہ ماضی ہے۔ تو اب جمہورِ ملت کی زبان میں بات کرتا ہوں کہ اگر اُممِ سابقہ میں گہوارے کا بچہ نبی ہوسکتاہے تو افضل الامم میں چار یا پانچ برس کے بچے امام کیوں نہیں ہوسکتے؟ 

اس لئے امام کہنے میں اور سمجھنے میں مجھے کوئی دُشواری نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی مشکل درپیش نہیں آتی۔ لیکن ہاں! یہ آخر کا جملہ کہ یہ دونوں امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں، چاہے بیٹھے ہوں۔یہ سمجھ میں اُس وقت نہ آسکتا کیونکہ یہ تو انسان کے حالات ہیں، کبھی جاگتا ہے، کبھی سوتا ہے، کبھی اُٹھتا ہے، کبھی بیٹھتا ہے۔ اس کا امامت سے کیا تعلق ہے؟ مگر جب مستقبل نے حالات کے رُخ سے پردہ اُٹھایا اور اب وہ اس وقت کا مستقبل میرے لئے ماضی بن گیا تو سمجھ میں آیا کہ پیغمبر خدا اللہ کے دئیے ہوئے علم میں سے ماضی کے پردہ پر مستقبل کا نقشہ دیکھ رہے تھے۔ پیغمبر کا مقصد یہ تھا کہ میرے ان دونوں بچوں کا طرزِ عمل نگاہِ ظاہر میں متضاد ہوگا۔ ایک صلح کرکے بیٹھ جائے گا، ایک تلوار لے کر کھڑا ہوجائے گا۔ کچھ لوگ اس کی صلح پر معترض ہوں گے، کچھ لوگ اس کی جنگ پر معترض ہوں گے۔ اس لئے پیغمبر نے پہلے سے کہہ دیا کہ یہ میرے دونوں بیٹے امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں ، چاہے بیٹھے ہوں۔ 

یعنی حسین تلوار لے کرکھڑا ہوجائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسن صلح کرکے بیٹھ جائے تو اعتراض نہ کرنا۔وہ اُٹھنا بھی حکمِ خدا سے ہے اور یہ بیٹھنا بھی حکمِ خدا سے ہے۔ وہ بھی امامت کا ایک انداز ہے اور یہ بھی امامت کا ایک شیوہ ہے۔ 

پھر ایک سند ِخصوصی چھوٹے کو عطا فرمائی: 

”حُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنَ الْحُسَیْنِ“ 

”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“۔ 

یہ خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کیلئے ہے۔ صحاحِ ستہ میں ہے، ترمذی بھی صحاح میں ہے، اس کی حدیث ہے کہ حسین مجھ سے ہے او رمیں حسین سے ہوں۔اگر دوسرا جملہ نہ ہوتا تو پہلا بالکل صاف تھا کہ حسین مجھ سے ہے ۔ وہ نانا ہیں، یہ نواسے ہیں۔ نانا کا وجود اسباب میں سے ہوتا ہے، نواسے کے وجود کیلئے۔ 

یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اب دوسرا جملہ کہ میں حسین سے ہوں۔پیغمبر خدا کے کلام کی ایک خصوصیت ہے کہ 

”اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ“۔ 

یعنی مختصر جملے ہوتے ہیں اور اس میں کتنے ہی پہلو ہوتے ہیں۔ اکثر جملے تو ایسے ہیں کہ جتنے اوصافِ کمال ہے پیغمبر کے، ایک جملے سے وہ سب ظاہر ہوجاتے ہیں۔ یہ کلامِ رسول کی خصوصیت ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ 

ان دونوں جملوں میں آخر ربط کیا ہے؟ پہلے میں کچھ اور ہو اور دوسرے میں کچھ اور ہو تو وہ تو ایسے ہے جیسے شعردولخت ہوتا ہے۔ ویسے بے جوڑ فقرے ہوجائیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس کی ہے کہ دونوں میں کوئی مناسبت ہو۔ اس وقت جو پہلو عرض کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے شے کا وجود او ر ایک ہوتی ہے شے کی بقا۔ پہلا جملہ جو ہے کہ حسین مجھ سے ہے، وہ وجود کے لحاظ سے ہے، دوسر اجملہ جو ہے ، وہ بقا کے لحاظ سے ہے۔ یعنی حسین کا وجود میرے وجود سے ہے اور میری بقا حسین کی وجہ سے ہے۔ 

اب میں اُردو میں ایک جملے میں ترجمہ کرسکتا ہوں کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں یعنی اگر میں نہ ہوتا تو حسین نہ ہوتا اور اگر حسین نہ ہوتا تو میں نہ رہتا۔ 


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا
قبر کی پہلی رات
انسانی زندگی میں انفرادی ذمہ داریاں
مصبَاحُ الدُّجیٰ یونیورسٹی
تقیہ کیا ہے ؟
عصرِ جدیدمیں وحی کی ضرورت
آغاز تشيع
اصحاب الجنۃ
صفات ثبوتی و صفات سلبی
کسي حالت ميں يارب چھين مت رنگ عوامانہ

 
user comment