پیغمبر اکرم(ص) کا منصب
غدیر کی اساس و بنیاد پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبد اللہ (ص)کی نبوت و خاتمیت پر ھے اور جو کچھ غدیر میں اسلام اور جھان کے مستقبل کے لئے پیشینگو ئی هو ئی ھے وہ آنحضرت (ص) کے مقام ِشامخ کے بیان پر مبتنی ھے ،لہٰذا آنحضرت (ص)نے خطبہ کے چند حصوں اپنے مقام و منزلت کو لوگوں کے سامنے بیان فر ما یاھے ۔ان میں سے اکثر مقامات پر اپنے تذکرہ کے بعد ائمہ علیھم السلام کے اسماء کا تذکرہ فرمایا تا کہ یہ معلوم هو جا ئے کہ اس شجرہ ٴ طیبہ کی اساس و بنیاد ،اس طولانی پروگرام کے بانی اور ولایت و امامت کی اصل خود خاتم الانبیاء (ص)ھیں ۔اس سلسلہ میں جو کچھ متن خطبہ میں بیان هوا ھے اس کو چھ عنوان میں جمع کیا جا سکتا ھے :
۱۔آپ(ص) کے سلسلہ میں پیشنگوئی :گذشتہ انبیاء و مرسلین نے آ پ (ص) کے سلسلہ میں بشارت دی ھے ۔
۲۔آپ(ص) کی خا تمیت :آپ (ص) خاتم اور انبیاء و مر سلین کی آخری کڑی ھیں اور ان کے بعد کو ئی نبی نھیں آئے گا ۔اس مطلب کے سلسلہ میں یوں اشارہ فرمایا ھر پیغمبر کی اولاد خو د اس کے صلب سے ھے لیکن میری نسل حضرت علی علیہ السلام کے صلب سے هو گی ۔
آپ (ص) کا مقام و منصب :اس سلسلہ میں چار پھلوؤں کی طرف اشارہ فرمایا :
الف :ان کے وجود میں خداوند عالم کی جانب سے نور قرار دیا گیا ھے ۔
ب:وہ نبی مر سل ،ڈرانے والے ھیں ،اور بہترین پیغمبر ھیں ۔
ج:خداوند عالم کے بعد وہ لوگوں کے مو لیٰ اور صاحب اختیار ھیں اور ان کا اختیار لوگوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ ھے ۔
د:وہ خداوند عالم کا سیدھا راستہ ھیں کہ جس کی پیروی کا حکم دیا گیا ھے ۔
۴: آپ(ص) کا علم :خداوند عالم نے آپ(ص) کو تمام علوم کی تعلیم دی ھے اور ان علوم کو آپ(ص) کے سینہ میں قرار دیا ھے ۔
۵۔آ پ(ص) کا حجت هونا :اس سلسلہ میں تین پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے :
الف :آپ (ص) تمام مخلوقات اھل آسمان و زمین پرخداوند عالم کی حجت ھیں صرف انسانوں کے لئے حجت نھیں ھیں ۔
ب:آپ (ص) کے حجت هونے میں شک کرنے والا شخص کافر ھے ،اور جو شخص آپ کی کسی بات میں شک کرے گویا اس نے آپ کے تمام اقوال میں شک کیا ھے اور ایسا شک کفر ھے ۔
ج:آپ(ص) جو کچھ بیان فر ماتے ھیںخداوند عالم کی طرف سے بیان فرماتے ھیں۔آپ (ص) کا قول جبرئیل سے اور جبرئیل کا قول خداوند عالم کا کلام ھے ۔
۶۔آپ(ص) کی تبلیغ :اس سلسلہ میں بھی تین باتوں پر رو شنی ڈالی گئی ھے :
الف :جو کچھ خدا وند عالم نے آپ(ص) پر نازل فرمایا آپ(ص) نے اس کے پہنچا نے میں کو ئی کو تا ھی نھیں کی ھے
ب:مطالب کو لوگوں کے لئے روشن کیا اور ان کو سمجھایا ھے ۔عین عبارت یوں ھے :آگاہ هو جاؤ میں نے ادا کردیا ،پہنچادیا ،سنا دیا اور واضح کردیا ھے “۔
ج:آپ نے پیغام پہنچانے اور اپنے تبلیغ کرنے پر خداوند عالم کو شاھد قرار دیا ھے ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ولا یت
غدیر میں امیر المو منین علیہ السلام کے فقط پیغمبر اکرم(ص) کے خلیفہ اور ان کے جا نشین هو نے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ علی (ع) آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد ان کے قائم مقام هو هوں گے بلکہ وہ لوگوں کے تمام امورمیں تام الاختیار ھیں جن امور میں پیغمبر اکرم(ص) صاحب اختیار تھے ان کے جانشین کےلئے بھی ان سب کا اعلان کیا گیا ھے ۔
خطبہٴ غدیر میں”امام “کا مطلب یعنی جو بشر کی تمام ضرورتوں کا جواب گو هو ،یہ قدرت ان کو خداوند عالم عطا کرتا ھے ۔جو کچھ امامت کے عنوان سے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں بیان هوا ھے وہ مندر جہ ذیل ھے :
الف :لوگوں پر صاحب امر اور واجب الاطاعت کے عنوان سے آپ (ع) کی مطلق حکو مت وولایت ،اس سلسلہ میں یہ تعبیر ات ھیں :امیر المو منین ،امام، خداو رسول کی حد تک لوگوں کے ولی ،خلیفہ وصی مفروض الطاعت اور نا فذ الامر ھیں ۔
ب:لوگوں کی خداوند عالم کی طرف ھدایت کرنا جو مندرجہ ذیل تعبیرات کی صورت میں آیا ھے :
وہ ھدایت کرنے والے ھیں ۔
حق کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور اس پر عمل کرتے ھیں ۔
باطل کو نیست و نابود کرتے ھیں اور لوگوں کو اس سے منع کرتے ھیں۔
خداوند عالم کی طرف دعوت دیتے ھیں ۔
جو کچھ خداوند عالم کی رضا ھے اس پر عمل کرتے ھیں ۔
خداوند عالم کی معصیت سے منع کرتے ھیں ۔
بشارت دینے والے ھیں ۔
ج:لوگوں کی علمی ضرورتوں کا جواب دینا جس کالازمہ لوگوں کی تمام علمی ضروریات سے آگاہ هونا ھے اس مطلب کو مندرجہ ذیل تعبیرات سے بیان گیا ھے :
وہ میرے علم کے اٹھانے والے ھیں اور میرے بعد تم کو سمجھا ئیں گے اور بیان کریں گے۔ وہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں جا نشین اور خلیفہ ھیں ۔
د :دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنا جو امام کا ایک طریقہ ھے مندرجہ ذیل دو طریقوں سے آیا ھے :
وہ خداوند عالم کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے والے ھیں ۔
وہ ناکثین ،قاسطین اور ما رقین کو قتل کرنے والے ھیں ۔
وسیع معنی کے اعتبار سے ”امامت “ جو خطبہ ٴ غدیر میں بیان کی گئی ھے یہ سب خداوند عالم کی پشت پنا ھی اور اس کے دستخط کے ذریعہ ھے اور وھی اس قدرت کو عطا کرنے والا ھے ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عبارتیں ملتی ھیں :
وہ خداوند عالم کی طرف سے امام ھیں ۔
ان کی ولایت خداوند عالم کی جا نب سے ھے جو مجھ پر نا زل کی گئی ھے ۔
خداوند عالم نے ان کو منصوب فر مایا ھے ۔
وہ خداوند عالم کے امر سے دشمنوں سے جنگ کرتے ھیں ۔
امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل
امیر المو منین علیہ السلام کے مناقب و فضائل (مخفی کرنے اور منتشر نہ کرنے کے باوجود) تمام عالم میں سنے جا رھے ھیں ،دوست و دشمن ،مسلمان اور غیر مسلمان نے ان کو تحریر کر رکھا ھے اور کو ئی شخص ان کا انکار نھیں کرسکتا ھے ۔اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں دو اھم مطلب بیان کئے گئے ھیں :
۱۔امیر المو منین علیہ السلام کی مطلق اور لا محدود فضیلت کا اثبات
پیغمبر اکرم(ص) نے خطبہ ٴ غدیر میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی فضیلت کے سلسلہ میں وہ بیان فرمایا کہ کو ئی شخص اس سے زیادہ بیان ھی نھیں کرسکتا ھے اور وہ آپ (ع) کا قیامت تک تمام لوگوں سے افضل هونا ھے (پیغمبر اکرم(ص) کے علا وہ )لا محدود ،اورناقابل قیاس فضائل ،وہ فضائل جن کا عطا کرنے والا اللہ ھے اور ان کا اعلان کرنے والا آخری رسول ھے۔
اس کا مطلب یہ ھے کہ جو فضیلت ان کے سلسلہ میں بیان کی جا ئے وہ کم ھے اور عقل بشر ان کی عظمت و جلالت کو درک کرنے سے عا جز ھے ۔ھم اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر کے پُر محتوا تین جملوں کا مشاھدہ کرتے ھیں :
۱۔خداوند عالم نے علی بن ابی طالب (ع) کو تمام لوگوں سے ا فضل قراردیا ھے ۔
۲:علی علیہ السلام کو سب لوگوں پر فضیلت دو ،چو نکہ وہ میرے بعد تمام مرد و عورت سے افضل ھیں جب تک خداوند عالم روزی نازل کررھا ھے اور مخلوقات با قی ھیں ۔
۳۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل (جو خداوند عالم نے قرآن میں نازل کئے ھیں )اس سے کھیں زیادہ ھیں کہ میں ان کو ایک نشست میں تم کو سنا ؤں ،پس جو شخص تم کو ان کے فضائل کے سلسلہ میں بتائے اور اس کی معرفت بھی رکھتا هو تو اس سے قبول کرلو ۔
ظاھر ھے ”با معرفت “ کی شرط ایک اھم نکتہ کو شامل ھے وہ یہ کہ اگر کو ئی شخص اھل بیت علیھم السلام کے باب مناقب میں اھل معرفت نہ هو تو ممکن ھے وہ احادیث کے معنی میں ضروری توجہ مبذول نہ کرے اور نتیجتاً آپ (ع) کی شان و عظمت کے خلاف معنی سمجھ بیٹھے ۔دوسری طرف انسان کوافراد ،زمانی اور مکانی حالات ،اور لوگوں کی مختلف افکار کو نظر میں رکھے بغیر ھر فضیلت کو ھر مقام پر نھیں کہنا چا ہئے لہٰذا اس سلسلہ میں لا زمی بصیرت و معرفت کا هونا ضروری ھے ۔
۲۔امیر المو منین علیہ السلام کے بعض فضائل کا تذکرہ
امیر المو منین علیہ السلام کے وہ فضائل جن کا تذکرہ آنحضر ت(ص) نے اپنے خطبہ میں فر مایا ھے وہ آپ (ع) کے مناقب کا اساسی اور اھم پھلو ھے جس سے لوگوں کوخدا ورسول کے ساتھ آپ (ع) کا مکمل اتصال سمجھ میںآ تا ھے ،ان پھلوؤں کو چا ر عناوین میں جمع کیا جا سکتا ھے :
۱۔دین خدا میں سب سے اول پھل کرنے والے علی بن ابی طالب (ع) ھیں اس بارے میں مندرجہ ذیل چیزیں بیان هو ئی ھیں :
اسلام لانے والے پھلے شخص ھیں ۔
خداکی عبادت کرنے والے پھلے شخص ھیں ۔
نماز پڑھنے والے پھلے شخص ھیں ۔
۲۔راہ خدا میںآپ (ع) کی فدا کا ریاںخطبہ میں یوں بیا ن هو ئی ھیں :
وہ خداوند عالم کے دین کے مدد گار ھیں ۔
وہ رسول خدا (ص)کا دفاع کرنے والے ھیں۔
آ پ (ع) وہ وہ ھیں جنھوں نے رسول اسلام(ص) کے بستر پر سوکر اپنی جان ان پر فدا کی ھے ۔
۳۔خداوند عالم کا ان سے راضی هونا ،یہ مطلب آنحضر ت(ص) نے دو جملوں میں اس طرح بیان فر مایا ھے :
خداوند عز وجل اور میں ان سے راضی ھیں ۔
رضایت کے متعلق کو ئی بھی آیت قرآن کریم میں ان کے علاوہ کسی کےلئے نازل نھیں هو ئی ھے
۴۔آپ (ع) کے خصوصیات کو خطبہ ٴ غدیر میں اس طرح بیان کیا گیا ھے :
”امیرالمو منین“کا لقب آپ ھی سے مخصوص ھے ۔
آپ (ع) ”جنب اللہ “ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت سب سے زیادہ سزا وار ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) کے سب سے زیادہ قریب ھیں ۔
وہ پیغمبر اکرم(ص) سے اور پیغمبر اکرم(ص) ان سے ھیں ۔
سوره ”ھل اتی ٰ “ان ھی کی شان میں نازل هوا ھے ۔
سوره ”والعصر “ان ھی کے بارے میں نازل هوا ھے ۔
یہ فضائل اس بات کی نشاند ھی کرتے ھیں کہ خدا و رسول کی بارگا ہ میں اس طرح متصل و مقرب شخص کی موجود گی کے باوجودکوئی دوسرا چا ھے وہ جس درجہ اور مقام پر فا ئز هو منصب امامت و ولایت کےلئے سزاوار نھیں ھے تو ناشائستہ اور بغیر فضیلت والے افراد جیسے ابو بکر ،عمر ،عثمان معاویہ اور یزید کیسے اس منصب تک پہنچ سکتے ھیں
ائمہ ٴاطھار علیھم السلام کی ولایت و امامت
خطبہ ٴ غدیر میں ائمہ علیھم السلام کو ان ھی بارہ عدد میں منحصر کرنے پر عجیب و غریب انداز میں زور دیا گیا ھے اور یہ کہ کو ئی فرد ان کی شان میں شریک نھیں ھے ۔دوسری طرف ان سب کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ھے اور ان میںافتراق و جدائی ڈالنے کو منع کیا گیا ھے اور ان میں فرق کرناگو یا امامت میں جدائی ڈالنا ھے ۔
یہ اس وجہ سے ھے کہ تمام ائمہ علیھم السلام خداوند عالم کی طرف سے ایک جیسی شان کے ساتھ اس منصب پر فا ئز هو ئے ھیں اور اس امر میں ھر طرح کا خدشہ و شک درحقیقت فرمان الٰھی میں شک کا مو جب ھے اور ان افراد سے روگردانی کرنا ھے جن کے مقام ومنصب پر خداوند عالم نے اپنی مھر لگا دی ھے ۔
دوسری طرف ائمہ علیھم السلام کی تعداد کے معین و منحصر هو نے کا مطلب یہ ھے کہ اور کو ئی شخص اس شان کے لا یق ھی نھیں ھے ،اور اگر کو ئی ان کے قبول و تسلیم کرنے میں شک کرے تو گو یا اس نے خداکے سلسلہ میں شک کیا ھے ۔اس سلسلہ میں عبد اللہ بن عباس نے معاویہ سے کھا :
”وَتَعْجَبُ۔یَامُعَا وِیةُ۔اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سَمَّی الْاَئِمَّةَ بِغَدِیْرِخُمًّ ۔۔۔یَحْتَجُّ عَلَیْھِمْ وَیَامُرُبِوِلَایَتِھِمْ “۔[1]
اے معاویہ کیا تم اس با ت پر تعجب کرتے هو کہ رسول اسلام (ص) نے غدیر خم میں ائمہ علیھم السلام کے اسماء گرامی کا تعارف کرایا ۔۔۔اس طرح ان پر حجت تمام کی اور ان کی اطاعت کا حکم صادر فرمایا “
خطبہ ٴ غدیر میں ھم کئی مقامات پر ائمہ علیھم السلام کی تعیین کے سلسلہ میں کلمہ ”ھَذا علی “نیز امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کا نام لیا گیا ھے جن سے نسل اما مت کا پتہ چلتاھے اور حضرت علی (ع) کے بازو بازو بلند کرکے اور ان کا مکمل طور پر تعارف کرا کے شک کے راستہ کو ایک دم بند کر دیا ھے اور کئی مقامات پر صاف طور پر یہ عبارت بیا ن فرما ئی ھے :
”امامت قیامت تک میری نسل اور میری اولاد میں سے ھے “
”ائمہ میری اولاد اور حضرت علی علیہ السلام کے صلب سے هو ں گے “
بارہ اماموں میںسے سب کو تسلیم کرنے کے سلسلہ میں ھم خطبہ ٴ غدیر میں اس جملہ کا مشاھدہ کر تے ھیں :
”جو شخص کسی ایک امام کے بارے میں شک کرے تو اس نے تمام ائمہ کے سلسلہ میں شک کیا ھے اور ھما رے سلسلہ میں شک کرنے والے کا ٹھکانا جہنم ھے “
اسی طرح خطبہ میں ان کے نورانی وجود کا تذکرہ مو جو د ھے :
”خداوند عالم کی طرف سے نور مجھ میں ،اس کے بعد علی علیہ السلام اور ان کے بعد ان کی نسل میں مھدی کے ظهور تک قرار دیا گیا ھے “
خطبہ ٴ غدیر میں ائمہ کے انحصار کو بیان کر نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی امامت کے سلسلہ میں پانچ جہتوںکی طرف اشارہ فرمایا ھے :
الف :قرآن کے شریک :یہ ثقل اصغر ،ثقل اکبر کے ساتھ ھے ۔یہ ثقل اصغر ،ثقل اکبر کے سلسلہ میں خبردیتے ھیں اس کے موافق ھیں اور اس سے جدا نھیں هو ں گے ۔
ب:ھدایت کرنے والے :یہ حق کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور حق و عدالت کے ساتھ عمل کرتے ھیں ۔
ج:خداوند عالم کے امین ھیں :یہ زمین پر خداوند عالم کے حا کم اور لوگوں کے ما بین خداوند عالم کے امین ھیں ۔
د:علماء :ان کے پاس حلال و حرام کا علم ھے اور ان کے پاس ھر چیز کا علم ھے ۔جو کچھ ان سے سوال کیا جا ئے اس کے جواب گو ھیں اور جو کچھ تم نھیں جانتے هو یہ تمھیں اس کی تعلیم دیں گے ۔ ھ:خداوند عالم کی حجج :وہ تمام دنیا والوں کےلئے حجت ھیں جب تک ان سے متمسک رهوگے ھر گز گمراہ نہ هوگے ۔اگر تم بھول گئے یا تم نے کسی چیز میں کو ئی کو تا ھی کر دی تو ائمہ تمھارے لئے بیان فر مائیں گے۔ وہ خداوند عالم کے سات دشمن گروهوں پر حجت ھیں :مقصرین، معا ندین ،مخا لفین ،خا ئنین آثمین، ظا لمین اور غا صبین ۔
حضرت مھدی علیہ السلام کی ولا یت و امامت
خطبہ ٴ غدیر میں حضرت بقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن المھدی صلوات اللہ علیہ وعجل اللّٰہ تعا لیٰ فرجہ الشریف وجعلنا من انصارہ و اعوانہ “کے سلسلہ میں خا ص تو جہ دی گئی ھے ۔
مھدی مو عود سے متعلق ان افراد کو خبردیناتھا جن پر امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنا مشکل تھا ،اسلام کے مستقبل اور دین الٰھی کے طویل پروگرام کو مسلمانوں کیلئے بیان کرنا ھے ۔ اگرچہ اُس دن کے مسلمانوں نے علی بن ابی طالب (ع) کو تسلیم نہ کیا لیکن اس طویل زمانہ میں نسلوں کےلئے حقائق روشن هو گئے اور چونکہ امور خداوند عالم کے قبضہ ٴ قدرت میں ھیں لہٰذاایک دن اھل بیت علیھم السلام کاامر ظاھر هوجائےگا اس دن جھان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعی جا نشینوں کے حوالہ کر دیا جا ئے گا اور صدیوں سے جو کچھ ان کےلئے پیش آیا ھے وہ اس خون کا انتقام لیں گے ۔
یہ بات بیان کردینا بھی ضروری ھے کہ غدیر خم میں ان مطالب و مقاصد کا اعلان ،ایک پیشینگو ئی اور غیب کی خبریں شمار هو تا ھے ۔
خطبہ ٴ غدیر میں حضرت مھدی علیہ السلام کے سلسلہ میں پچیس جملے آئے ھیں جن کا مندرجہ ذیل چھ عناوین میں خلا صہ کیا جا سکتا ھے :
الف :ان کی بشارت :اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ما تے ھیں :
”آپ (ع) ،وہ ھیں جن کی تمام پھلے آنے والوں نے بشارت دی ھے “
ب:ان کی خا تمیت :اسکے سلسلہ میں دواھم پھلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے :
۱:معین شدہ اماموں میں امامت متصل ھے اور منقطع هو نے والی نھیں ھے یھاں تک کہ ان کے آخری اور خاتم حضرت مھدی علیہ السلام تک پہنچے گی ۔
۲۔حضرت مھدی علیہ السلام قیامت تک حجت خدا کے عنوان سے باقی رھیں گے اور ان کے بعد کو ئی حجت نھیں ھے
ج:ان کا مقام و منزلت :اس بارے میں دو پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے :
[1] کتاب سلیم صفحہ۸۴۳ح۴۲۔
source : http://makarem.ir