حدیث غدیر 110 صحابیوں سے منقولہ ایک متواتر حدیث کا نام ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکا ہے لیکن اس کی دلالت میں تأویل کرکے اس کے معنی و مقصود کی تحریف کی کوشش کی ہے۔
تحریر: خلیل حسین حسینی
اکمال دین، اتمام نعمت اور خدا پر بدگمانی -1
میں اس پرانی بات کے بارے میں ایک نئی بات کہنا چاہتا ہوں یا یوں کہئے کہ ایک نیا سوال اٹھانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ آیات اور احادیث کے حقیقی معانی کو ـ صرف اس لئے کہ بعض لوگوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوں اور ان سے ان کے بعض ذاتی عقائد کی تأئید نہ ہورہی ہو ـ توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کیا وہ (معاذاللہ) آیات الہی اور احادیث رسول (ص) کا مذاق نہیں اڑا رہے ہیں؟ کیا ان کا یہ عمل (معاذاللہ) خدا اور رسول (ص) پر بدگمانی کے زمرے میں نہیں آتا؟
قرآن مجید کی سورت مائدہ کی آیت 55 میں رب متعال کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔
یہ ایک آیت ہے جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ مدینہ کی مسجد میں؛ اسی وقت ایک سائل مسجد میں داخل ہوا وہ ضرورتمند تھا اور مسجد یقیناً مسلمانوں سے بھری ہوئی ہوگی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ بھی موجود تھے اور مسلمان بھی نماز کی نیت سے مسجد میں ہی تھے۔ لیکن کسی کو شاید سائل کی آواز سنائی نہیں دی رہی تھی مگر وہاں ایک عظیم شخصیت کے مالک انسان کامل نافلہ ادا کررہے تھے وہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہ تھا۔
رکوع کی حالت میں تھے کہ سائل قریب پہنچا اور آپ (ع) نے اپنی انگوٹھی سائل کے سامنے بڑھا دی اور سائل انگوٹھی اتار کر چلا گیا؛ یہ ایک واقعہ تھا اہل بیت رسالت (ع) کے جود و سخا اور عظمت و کرامت کے بے شمار دیگر واقعات کی مانند، جو لمحوں میں ختم ہوا، تا ہم یہ لمحوں میں ختم ہونے والا واقعہ ایک عظیم اعلان کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور وہ اعلان اللہ تعالی کی جانب سے تھا:
ترجمہ: تمہارا حاکم و سرپرست بس اللہ ہی ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور خیرات و زکاة دیتے ہیں اس حالت میں کہ وہ رکوع میں ہیں۔
یہ اللہ کا کلام ہے لیکن کیونکہ اس کا مصداق علی(ع) ہیں اسی لئے اس کی تأویلات شروع ہوئیں۔ کیفیتِ دلالت میں تأویلات شروع ہوئیں۔
مسجد میں نماز علی علیہ السلام ادا کررہے تھے؛ اس میں شک ممکن نہیں تھا اور تأویل بھی ممکن نہیں تھی؛
سائل آیا تو علی علیہ السلام نے ہی سائل کو رکوع کی حالت زکاة کے طور پر انگوٹھی عطا فرمائی؛
یہ بھی متواتر حدیث کی شکل میں موجود ہے اور اس وقت بھی کوئی اس میں شک نہیں کرسکتا تھا؛ آج بھی کوئی شک نہیں کرسکتا گو کہ معاصر تاریخ میں ولایت کے دشمن پیدا ہوئے ہیں جبکہ اس سے پہلے صرف مخالفین تھے جو دشمنی نہیں کرنا چاہتے تھے اور اہل بیت (ع) کی دشمنی کو اپنے لئے عیب سمجھتے تھے تا ہم نئے زمانے میں ابھرنے والے غدیر کے دشمنوں نے تمام حقائق کا انکار آسان کرنے کے لئے حدیث و تاریخ و تفسیر کی نئی اشاعتوں سے فضائل اہل بیت (ع) مٹانے کا اہتمام شروع کردیا ہے گو کہ اگر ان کے اسلاف آج سے ایک سو سال قبل یہ کام کرنا شروع کردیتے تو انہیں بہت آسانی ہوتی جبکہ موجودہ زمانے میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ تمام پرانے نسخے علم و دانش کے متوالوں نے محفوظ کرلئے ہیں۔
بہرصورت آیت نازل ہوئی ہے؛ آیت علی (ع) کی اسی فضیلت کے بارے میں ہے اور اس کا مصداق امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔ لیکن مخالفین نے اس میں تأویل کرکے کہا کہ نہیں جناب "ولی" کا مطلب "حاکم و سرپرست" نہیں بلکہ اس کا مطلب "دوست" ہے۔
آیت قرآن مجید کی ہے اور فرمان اللہ کا ہے اور مخالفین ولایت کا دینی اور اعتقادی اصول یہ ہے کہ آیت قرآنی کی تأویل نہ کی جائے بلکہ اس کے ظاہری مفہوم پر ہی اکتفا کیا جائے کیونکہ اس عقیدے کے مطابق قرآن کی تأویل ممکن نہیں ہے اور اس کے باطنی معانی کا ادراک بھی ممکن نہیں ہے یہاں تک کہ جب سورہ طہ کی پانچویں آیت "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى" (طہ - 5) = وہ سب کو فیض پہنچانے والا ہے اس کا عرش پر اقتدار قائم ہے" نازل ہوئی تو حضرات نے کہا کہ اور خدائے مہربان عرش پر رونق افروز ہوا (بیٹھ گیا) اور اس آیت کو تجسیم پروردگار کی دلیل قرار دیتے ہوئے خدا کو صاحب جسم قرار دیا۔ مگر جو بھی آیت اہل بیت (ع) کے بارے میں اتری ان ہی حضرات نے ان آیات کی تأویل کو جائز قرار دیا۔
اور ہاں! یہ بات میں نے ایسے ہی نہیں کہی کہ ولایت کے مخالفین خدا کو تجسیم کے بھی قائل ہیں اور اللہ کو جسم سمجھتے ہیں بلکہ یہ 1987 کی بات ہے جب اللہ تعالی نے حج بیت اللہ کی توفیق عطا فرمائی؛ جہاں بھی پہنچتے وہابی تعلیمات سے محروم نہ رہتے اور ہر مقام پر اسی مقام کے موقع و مناسبت سے وہابی تبلیغی مواد سے نوازا جاتا اور وہابی ہر ملک کے حجاج کو ان کی زباں میں یہ مواد فراہم کیا کرتے تھے۔ عرفات بھی پہنچے تو یہ حضرات پہنچ آئے اور کوئی تین کتابچے مجھے بھی تھمادیئے لیکن عجیب بات یہ تھی کہ ایک کتابچہ کھولا تو جو کچھ سب سے پہلے نظر آیا وہ کچھ یوں تھا: "آج یوم عرفہ ہے اور یہ میدان عرفات ہے؛ آج یوم دعا ہے اور جان لو کہ الله تعالی آج کے روز "زمین والے آسمان" پر اتر کر آ بیٹھا ہے اور تمہاری دعائیں سنی جاتی ہیں اور اللہ انہیں قبول فرماتا ہے". اور ان کی اس بات سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ الله کے لئے جسمانیت کے قائل ہیں جو کسی وقت کسی خاص مقام پر جا کر بیٹھتا ہے اور بندوں کا مشاہدہ کرتا اور ان کی باتیں سنتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اگر اللہ کو (معاذاللہ جسمانیت کے وصف سے متصف کیا جائے تو ایسی صورت میں اگر وہ کہیں پہنچتا ہے تو دوسرے مقامات سے غائب ہوگا اور یہ بہت بڑی خامی ہے جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ پوری کائنات میں موجود ہے اور وہ الله کی ذات اس باطل تصور سے بہت بالاتر اور جسمانیت اور کلی طور پر مادی اوصاف سے پاک و منزہ ہے؛ جگہ نہیں گھرتا بلکہ نور مطلق اور شعور مطلق ہے۔
بہر صورت جب یہ آیت اتری تو حضرات نے آیت کے مصداق اور اس کی دلالت کو پسند نہ کیا؛ انہیں اللہ کا فرمان پسند نہ آیا چنانچہ اللہ پر بدظنی کا اظہار کرنے لگے ـ شاید وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے مگر وہ اس بدگمانی میں مبتلا ہوگئے تھے چنانچہ ـ خدا کے فرمان کا سیدھا مفہوم چھوڑ کر اس کی تأویل میں لگ گئے اور کہنے لگے کہ اس آیت میں "ولی" کا مطلب "حاکم" نہیں ہے بلکہ "دوست" ہے!۔
اگر رسول اللہ (ص) اور قرآن و سنت رسول اللہ (ص) کا اعتبار خدا سے اور مسلمانوں کا اعتبار اسلام سے ہے تو پھر خدا کی بات کیوں نہیں مانی گئی اور اس میں تأویل کیوں ہونے لگی؟
ہم پوچھتے ہیں: اللہ تعالی لوگوں کو اپنی حاکمیت ماننے کا حکم دیا لیکن یہ کونسی بات ہوئی کہ اللہ خود آجائے اور لوگوں کو اپنی دوستی جتانا شروع کردے کہ بھئی سنو! میں تمہارا دوست ہوں! میرے رسول (ص) بھی تمہارے دوست ہیں اور میرے یہ خاص بندے ـ جنہوں نے حالت رکوع میں زکاة دی ہے ـ بھی تمہارے دوست ہیں! اگر کہا جائے ـ اور کہا بھی گیا ہے ـ کہ تم اللہ کے دوست بنو تم اللہ والے ہو جاؤ (آل عمران آیت 79) اور اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرو (آل عمران 132) تو یہ بالکل درست ہے لیکن یہاں اللہ کے عمومی رویئے اور خطاب کے برعکس کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ "میں اور میرے رسول (ص) اور مدینہ کی مسجد میں زکاة دینے والے انسان کامل تمہارے دوست ہیں؛ یہ بات ہضم نہیں ہوتی صرف مجھے ہی نہیں بلکہ قرآن سے تھوڑی سے آگہی رکھنے والے کسی بھی انسان کو ہضم نہیں ہوتی، آخر قرآن کی اتنی بےحرمتی کیوں ہوتی ہے؟ کیا قرآن تمام مسلمانوں کی کتاب نہیں ہے؟ کیا سب کو اس کی تکریم نہیں کرنی ہے؟ بہرحال اس طرح کی تأویلات سے یہ بات بڑی شدت سے محسوس ہورہی ہے کہ اللہ کے کلام کو غیر معتبر سمجھا گیا ہے اور جتایا گیا ہے کہ خدا کے کلام کے وہی معنی درست ہیں جو ولایت کے مخالفین نے بیان کئے ہیں! یہ بہت اچنبھے کی بات ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
اللہ تعالی نے دوستی اور اخوت کے بارے میں پہلے ہی تأکید فرمائی ہے: " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ" بے شک مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں" (حجرات آیت 10) "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ = اے ایمان لانے والو!اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو حوالے موالی نہ بناؤ۔" (سورہ نساء آیت 144) ۔ اس طرح کی کئی آیات قرآن مجید میں آئی ہیں اور کئی احادیث میں رسول اللہ (ص) نے بھی مؤمنین کو ایک دوسرے کے دوست بتایا ہے اور پھر قرآن ہی میں ایک بہت مشہور آیت میں ارشاد ہوا کہ کہ: " مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (فتح - 29)؛ = محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت، آپس میں بڑے ترس والے اور مہربان ہیں"۔ تو پھر اس انما ولیکم اللہ نازل کرنی کی ضرورت کیوں پڑی جبکہ یہ آیت نزول کی اعتبار سے آخری آیات میں سے ہے اور اس وقت مسلمانوں کے درمیان تمام رشتوں کی تشریح ہوچکی تھی اور اس سے بہت قبل مدینہ ہجرت کرتے ہی رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنایا تھا اور یہ بھی ولایت کے مخالفین اور دشمنوں کے لئے بڑی سخت سے بات ہوگی کہ اس دن جب علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) آپ نے سب مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا مگر میرا آپ نے کسی کے ساتھ اخوت کا رشتہ قائم نہیں فرمایا تو رسول اللہ (ص) نے ہاتھ بڑھا کر ارشاد فرمایا: اے علی! تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی۔ گو کہ یہ عظیم فضیلت بھی علی (ع) کے لئے فضیلت نہیں سمجھی گئی جبکہ یہ کسی اور کے بارے میں ہوتی تو اس کا مقام کہاں سے کہاں تک پہنچانے کی کوششیں ہوتیں۔
چلئے صرف ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ مخالفین کی بات صحیح ہے اور یہاں اللہ نے اپنے اور رسول (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) کو عوام کا دوست قرار دیا ہے لیکن یہاں بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ "اس آیت کے مطابق پہلا درجہ اللہ کا ہوا، دوسرا رسول اللہ (ص) کا ہوا اور تیسرا امیرالمؤمنین علیہ السلام کا؛ یعنی اس تأویل کی روشنی میں بھی انہیں خدا اور رسول (ص) کے بعد سب پر مقدم فرمایا اگر ایسا ہے تو پھر دوسرے ان پر مقدم کیوں ٹہرے جبکہ خدا نے انہیں مقدم ٹہرایا ہے!!؟
حدیث غدیر
حدیث کا اعلی ترین مرتبہ حدیث متواتر ہے۔ اسی لئے حدیث غدیر کی سند کا ذکر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ متواتر حدیث ہے اور ابتدائی طور پر 110 صحابہ سے نقل ہوئی ہے۔
رسول اللہ (ص) نے روز غدیر ارشاد فرمایا: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، اللهُمَّ وال من والاه، وعاد من عاداه، وانصر من نصره، واخذل من خذله وأحب من أحبه، وأبغض من أبغضه، وأدر الحق معه حيث دار۔
ذرا نکتے دیکھئے اس حدیث میں:
رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
* میں جس کا مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں
* یا اللہ! محبت کر اس سے جو علی سے محبت کرے
* یا اللہ! تو دشمنی کر اس سے جو علی کی دشمنی کرے
* یا اللہ! مدد فرما اس کی جو علی کی مدد کرے
* یا اللہ! تو اس شخص کی مدد کرنا ترک کردے جو علی کی مدد کرنا ترک کردے
* یا اللہ! تو محب بن اس کا جو علی کا محب ہو
* یا اللہ! تو بغض فرما اس سے جو علی کا بغض دل میں بسائے
اور یہاں ایک خاص دعا جو رسول اللہ (ص) علی کے حق میں دے رہے ہیں:
* یا اللہ! تو حق اسی جانب موڑدیا کر، جس طرف علی(ع) مڑتے ہیں!!
یہ ہر نکتہ قابل غور و تأمل ہے لیکن ہماری بحث کا موضوع یہ نکات نہیں ہیں بلکہ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حدیث 110 سنی محدثین نے روایت کی ہے۔ لیکن اس حدیث کے بارے میں بھی سورہ مائدہ کی آیت 55 کے واقعات رونما ہوئے ہیں جبکہ اس حدیث سے پہلے اور اس حدیث کے بعد چار آیتیں نازل ہوئی ہیں اور کئی دوسرے قرائن بھی ہیں جو باطل خیالات کی تردید کردیتے ہیں۔
مرحوم علامہ عبدالحسین امینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے 11 جلدوں پر مشتمل ایک کتاب "الغدیر" کے عنوان سے لکھی ہے جس میں انھوں نے حدیث غدیر کا ہر لحاظ سے احاطہ کیا ہے۔
جب نجف اشرف میں کسی مولوی صاحب نے خط بھیج کر کہا کہ "تم حدیث غدیر سے استناد و استدلال کرتے ہو جب کہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے اور یہ کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آپ (شیعہ علماء) سنی کتب سے اس کا ثبوت کیوں نہیں دیتے" اور اسی خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ "شیعہ علماء کی تاریخ میں کوئی کتاب نہیں لکھی اور شیعہ علماء سنی علماء کی کتابوں سے استفادہ کررہے ہیں" تو دو دوستوں "علامہ آقا بزرگ تہرانی" اور "علامہ عبدالحسین امینی" رضوان اللہ علیہما نے درس و بحث چھوڑ کر ان دو کاموں کو مکمل کرنے کا عہد کیا۔ علامہ آقابزرگ تہرانی نے تاریخ میں شیعہ مؤلفین و مصنفین اور ان کی کاوشوں کی فہرست جمع کرنے اور علامہ امینی نے صرف اور صرف سنی کتب سے حدیث غدیر کو اکٹھا کرنے اور ان کے سنی ثبوت فراہم کرنے کا عہد کیا۔
علامہ امینی نے عہد کیا تھا کہ کسی بھی شیعہ کتاب سے استناد نہیں کریں گے اور انھوں نے اس عہد کو نبھاتے ہوئے لبنان و مصر و حجاز و عراق و ایران و ہند تک کے تمام کتب خانوں میں پہنچ کر وہاں کچھ عرصہ قیام کرکے حدیث غدیر کے ثبوت اکٹھے کئے اور جب 20 سال کا عرصہ گذرا تو دوستوں نے دو عظیم مجموعے اور انسائیکلوپیڈیاز تیار کررکھے تھے۔
علامہ تہرانی نے ایک مجموعہ تیار کیا جس کا نام تھا: "الذریعة الی تصانیف الشیعة" جو 20 جلدوں پر مشتمل تھا۔ یہ بیس جلدیں در حقیقت ایک قسم کی فہرست اور ایک قسم کی تاریخ تصنیف و تألیف ہے۔
علامہ امینی نے بھی الغدیر نامی دائرةالمعارف تیار کرلیا جس کی 11 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اس کتاب نے انکار کے تمام راستے بند کردیئے۔
اور ہاں! جس طرح کہ کوئی آیت انّما ولیُِّکم اللہ ... کا انکار نہیں کرسکا ہے کوئی بھی سنی عالم ـ خواہ وہ دشمن ہو یا دوستی کا اظہار کرنے والا اور ولایت کا انکاری ہو ـ نے کبھی بھی حدیث غدیر کا انکار نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا ممکن ہی نہ تھا بلکہ کئی سنی علماء نے اس کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں کیونکہ غدیر کا واقعہ اہل تشیع کے لئے محدود و مختص نہیں ہے یہ اسلام کی عظیم امانت ہے جس کا تحفظ سنی علماء بھی ضروری سمجھتے آئے ہیں گو کہ یہ باتیں وہابیت کے ظہور سے قبل کے زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کتابوں کے قلمی نسخے بعض ممالک میں موجود ہیں جنہیں چھاپنے کی بجائے چھپایا گیا ہے۔ لیکن اس حدیث کی دلالت و مصداق میں امامت کے مخالفین نے بلا استثنا تأویل جائز گردانی ہے کیونکہ انہیں رسول اللہ کا یہ کلام پسند نہیں آیا تھا!! چنانچہ اہل بیت (ع) کی فضیلت میں اترنے والی آیات کی تأویل جائز قرار دینے والوں نے جب اللہ سے (معاذاللہ) زیادہ جاننے کا عملی دعوی کرتے ہوئے آیات کی تأویل جائز قرار دی ہو تو ان سے حدیث پر رحم کرنے کی توقع کرنا بےجا ہے۔
جب ایک قوم اپنے بنیادی عقیدے کے خلاف ورزی کرکے خاص قسم کی آیتوں کی تأویل کرکے ان کے معانی و مفاہیم کو بگاڑنے کی جسارت کرسکتی ہے وہ حدیث پر کیونکر رحم کرےگی؟ جبکہ ان کے ماضی قریب اور آج کی نسبت ماضی بعید میں حدیث سوزی کا عظیم واقعہ ہوگذرا ہے جب خلیفہ نے احادیث اکٹھی کروا کر نذر آتش کردیں اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ جناب "عین ممکن ہے کہ کوئی حدیث کو قرآن سمجھ لے چنانچہ حدیث کو جلادینا چاہئے"۔ خلیفہ خود کہتے ہیں کہ "میں نے بکرے کے کندھے کی ہڈی پر ایک حدیث لکھی تھی اور میں پوری رات نہ سوسکا کیونکہ میں اس کو جلائے بغیر سوگیا تھا"؛
البتہ حدیث سوزی کا اصل فلسفہ یہی بھی ہوسکتا ہے کہ حدیث غدیر ـ جو لوگوں نے لکھ کر محفوظ کرلی تھی، کو نیست ونابود کیا جاسکے! اور اسی طرح علی علیہ السلام کی خلافت اور اہل بیت (ع) کی امامت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی حدیثوں سے حکام کی گلوخلاصی ممکن ہوسکے۔
یہ سلسلہ کافی عرصے تک رہا تھا چنانچہ حدیث کو بگاڑنا تو کیا جلانا بھی جائز سمجھا جاتا تھا؛ حدیث نگاری بالکل ممنوع ہوچکی تھی؛ گو کہ آج کے زمانے میں بعض ممالک میں حدیث کو نذر آتش کرنے والے شخص کو توہین رسالت مجرم ٹہرا کر پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ـ یعنی حدیث سوزی در حقیقت توہین رسالت ہے اور اگر کسی نے اجتہاد کرکے بھی حدیث کو جلانا تجویز کیا تو وہ توہین رسالت کا مرتکب سمجھا جاتا ہے اور اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ـ یہ البتہ درست اقدام ہے لیکن صحیح اور متواتر احادیث کی تحریف درست عمل نہیں ہے۔
احادیث جلائی گئیں اور جب علی علیہ السلام اور نو درجے کے ایمان پر فائز سلمان، اور بعد کے زمانوں میں حق و باطل کا معیار ٹہرنے والے عمار یاسر اور مقداد بن اسود اور زبیر بن عوام نے نے لوگوں کو غدیر خم کا واقعہ یاد دلایا تو تحریر موجود نہ تھی اور بہت سوں نے تو حکام کے خوف سے اور مخالفین ولایت نے بغض آل محمد (ص) کی بنا پر کہا: "ہمیں یاد نہیں رہا" جبکہ رسول اللہ (ص) کا وصال شیعہ روایت کے مطابق حجةالوداع کے 70 دن بعد اور سنی روایت کے مطابق 84 دن بعد ہوا اور اتنے عرصے میں اتنا عظیم واقعہ کوئی بھولتا نہیں ہے اور اگر حجۃالوداع کے حاجیوں کے اس بھلکڑپن کا یقین کیا جائے تو بہت سی حدیث کی کتابوں کو ممنوع الاشاعت کرنا پڑےگا جو رسول اللہ (ص) کے وصال کے کئی عشرے بعد نقل حدیث کرنے کے قابل ہوئے تھے۔
بہرصورت منکرین ولایت و امامت ایک صحیح اور متواتر حدیث کا تو انکار نہ کرسکے لیکن اس کی تأویل کو جائز قرار دیا کیونکہ ان کے نزدیک رسول اللہ (ص) کے فرمان کا وہ مطلب نہیں ہے جو رسول اللہ (ص) سمجھتے تھے یا لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جو منکرین ولایت سمجھتے ہیں! وہ رسول اللہ (ص) سے ناراض تھے چنانچہ دوسرے مقامات پر بھی انھوں نے ایسا ہی کیا بہت سی حدیثیں گڑھ لیں اور کئی مقامات پر عام مسلمانوں کے لئے مسلمہ حقوق کو اہل بیت (ع) سے منع کیا۔
منکرین ولایت و امامت کا کہنا ہے کہ یہ جو رسول اللہ (ص) نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں یہ علی(ع) کے مولا ہیں؛ اس میں مولا سے مراد دوست ہے!
جبکہ اس سے قبل اللہ تعالی نے رسول اللہ (ص) کو ایک عجیب حکم دیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی؛ فرمایا: یَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللہ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (سورہ مائدہ آیت 67)
ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
اس آیت میں کئی نکتے ہیں:
اللہ تعالی حضرت رسول اکرم (ص) کو اپنا حبیب قرار دیتا ہے لیکن یہاں اللہ تعالی نے سخت لب و لہجہ اپنایا ہے
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: جو کچھ میں نے آپ پر نازل کیا اسے لوگوں تک پہنچا دو۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے رسالت کا کام انجام ہی نہیں دیا۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) اس حکم الہی کا ابلاغ کرنے کے حوالے سے مسلمانوں کے بعض افراد سے تحفظات رکھتے تھے چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائےگا۔ اللہ تعالی نے ان کو "ناس" کہا جن سے تحفظات تھی اور ساتھ فرمایا کہ کفار کی گمراہی سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
پانچواں نکتہ: اللہ تعالی نے فرمایا: میں کافرین کے گروہ کو کبھی ہدایت نہیں عطا کرتا۔
چھٹا نکتہ: آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اب آپ (ص) کی رسالت کا دور مکمل ہونے والا ہے اوراس حکم کا ابلاغ فرما کر آپ (ص) کی رسالت کا بڑا حصہ مکمل ہوجائے گا۔
source : www.abna.ir