لغت میں قرآن کے معنی قرأت کرنے یا پڑھنے کے ہیں۔ قرآن وحیٔ الٰہی کے الفاظ ہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں حضرت محمّد(ص) پر نازل ہوۓ ہیں۔ حضرت محمّد(ص) تیس سال کی عمر میں خواب میں عالمِ غیب کے واقعات دیکھتے تھے اور اُس کے بعد پہلے سے زیادہ روحانی غور و فکر اور خلوت نشینی کی طرف راغب ہوئے۔ اِسی وجہ سے اپنے فارغ اوقات میں وہ شہر مکّہ کے نزدیک ایک پہاڑ میں واقع غارِ حرا میں پناہ لیتے تھے اور شہر کی گہماگہمی سے دور رہ کر مراقبہ اور جمعیتِ خاطر کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آپ(ص) کی عمر کے چالیس برس پورے ہوئے تو ایک بار، جب آپ(ص) غارِحرا میں اپنے پروردگار کے حضور غور و فکر میں مصروف تھے، آپ(ص) پر خدا کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اُس نے حکم دیا: اقرا (پڑھ)! آپ(ص) نے فرمایا: کیا پڑھوں؟
فرشتہ آپ کے نزدیک اور نزدیک تر ہوگیا اور آپ(ص) کو زور سے اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔ دو دفعہ یہ عمل دہرانے کے بعد تیسری دفعہ اُنھیں چھوڑنے کے بعد اُس نے کہا:
اقرا باسم ربك الذي خلق
خلق الانسان من علق
اقرا و ربك الاكرم
الذي علم بالقلم
علم الانسان ما لم يعلم
پڑھ، اپنے پروردگار کے نام سے،
جس نے تخلیق کیا؛ انسان کو جمے ہوئے خون سے ۔
پڑھ !
اور تمہارا پروردگار بہت کریم ہے،
جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی
اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
(96 : 1-5)
حضرت محمّد(ص) نے مذکورہ کلمات دہرائے۔ اُس کے بعد خوف اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں پہاڑ کے دامن سے نیچے اترنے لگے، نصف راستے میں آپ نے دوبارہ ایک آواز سنی جو کہتی تھی:
اے محمّد! آپ خدا کے پیغمبر ہیں اور میں جبرئیل ہوں۔
پیغمبر رک گئے اور اُنھوں نے تعجّب سے اپنےگرد و پیش دیکھا اور خدا کے فرشتے کو دیکھا جس نے سارے افق کی وسعتوں کا احاطہ کیا ہوا تھا اور آپٔ کو دیکھ رہا تھا۔
یہ پیغام جلد ہی ایک دوسرے پیغام کے ساتھ مل گیا جو براہِ راست حضرت محمّد(ص) سے خطاب تھا:
ن و القلم و ما يسطرون
ما انت بنعمة ربك بمجنون
و ان لك لاجرا غير ممنون
و انك لعلى خلق عظيم
"ن ۔
قلم کی اور جو کچھ (اہلِ قلم) لکھتے ہیں،
اُس کی قسم!
تم اپنے پروردگار کے فضل سے دیوانے نہیں
اور تمھارے لیے بے انتہا اجر ہے
اور تمھارے اخلاق بلند و اعلی ہیں۔"
(68 : 1-4)
اِس وحی کے بعد مدّتوں خدا کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوئی اور اِس توقف کی مدّت کے بعد نئے سِرے سے آیات کا نزول شروع ہوا اور ۲۳ سال تک، یعنی آپ کی زندگی کے آخری ایّام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
وحی کے پیغامات کا نزول ابتدا میں گونج کی صورت میں شروع ہوا جو آہستہ آہستہ ایک آواز میں تبدیل ہوتی گئی۔ نزولِ وحی کے دوران حضور (ص) کے چہرے پر واضح تبدیلیاں واقع ہوتی تھیں۔ آپ(ص) کا کہنا تھا کہ الفاظ بہت وزنی تھے۔ آپ(ص) جو آیات وصول کرتے تھے، وہ آپ(ص) کے پیروکاروں اور قریبی شاگردوں کے ذریعے حفظ ہوتی تھیں، اُس کے بعد ہڈّیوں، پتّوں یا چمڑے پر لکھ دی جاتی تھیں۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد(ص) قرآنِ کریم کو ایک الٰہی معجزہ گردانتے تھے اور اسے جاوداں الٰہی معجزہ فرماتے تھے۔
ایم ٹی اور ڈاٹ او آر جی
source : www.tebyan.net