- جناب على ابن عبداللہ ابن عباس نے '' رزين '' كو خط ميں لكھا'' ابعث اليّ بلوح من أحجار المروة عليہ اسجُد'' كہ مروہ كے پتھروں ميں سے ايك صاف سا پتھر ميرے ليے بھيجنا تا كہ ميںاس پر سجدہ كرسكوں'' (5)
6- كتاب فتح البارى ( شرح صحيح بخاري) ميں نقل ہوا ہے كہ '' كان عمر ابن عبدالعزيز لا يكتفى بالخمرة بل يضع عليہا التراب و يسجد عليہ'' عمر ابن عبدالعزيز نماز كے ليے صرف چٹائي پر اكتفا نہيں كرتے تھے بلكہ اس پر مٹى ركھ ليتے اور اس پر سجدہ كرتے تھے-(6)
ان تمام روايات سے كيا سمجھ ميں آتا ہے؟ كيا يہى سمجھ ميں نہيں آتا كہ اصحاب اور انكے بعد آنے والے افراد كى ( ابتدائي صديوں ميں) يہى سيرت تھى كہ زمين پر يعنى خاك ، پتھر، ريت اور سنگريزوں و غيرہ پر سجدہ كرتے تھے-
اگر آج ہمارے زمانے ميں كچھ مسلمان اس سنت كو زندہ ركھنا چاہيں تو كيا اسے بدعت كے عنوان سے ياد كيا جائے؟
كيا فقہائے اہلسنت كو نہيں چاہيے كہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سنّت نبوى (ص) كو زندہ كريں، وہى كام جو اللہ تعالى كى بارگاہ ميں انتہائي خضوع، انكسارى اور عاجزى سے حكايت كرتا ہے اور سجدہ كى حقيقت كے ساتھ زيادہ سازگار ہے- ( ايسے دن كى اميد كے ساتھ)-
حوالہ جات :
1) مسند احمد ، جلد 3، ص 327 ، سنن بيہقى ، جلد1 ، ص 439-
2) السنن الكبرى بيہقى ، جلد 2، ص 106-
3) مصنف ابن ابى شيبہ ، جلد 1، ص 397-
4) طبقات الكبرى ، ابن سعد، جلد 6، ص 53-
5) اخبار مكّہ ازرقي، جلد 2 ،ص 151-
6) فتح البارى ، جلد 1 ، ص 410-
source : www.tebyan.net