اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

آپ کی اہل بیت سے آخری رخصت

آپ کی اہل بیت سے آخری رخصت

امام حسین اپنے اہل بیت سے آخری رخصت کے لئے آئے حالانکہ آپ کے زخموں سے خون جاری تھا ،آپ نے حرم رسالت اور عقائل الوحی کو مصیبتوں کی چادر زیب تن کرنے اور ان کو تیاررہنے کی وصیت فرما ئی ،اور ان کو ہمیشہ اللہ کے فیصلہ پر صبر و تسلیم کا یوںحکم دیا:''مصیبتوں کے لئے تیار ہوجائو ،اور جان لو کہ اللہ تمہارا حامی،و مددگاراورمحافظ ہے اور وہ عنقریب تمہیں دشمنوں کے شر سے نجات دے گا ،تمہارے امر کا نتیجہ خیر قراردے گا ،تمہارے دشمنوں کو طرح طرح کے عذاب دے گا ، ان مصیبتوں کے بدلے تمہیں مختلف نعمتیں اور کرامتیں عطا کرے گا ،تم شکایت نہ کرنا اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ کہنا جس سے تمہاری قدر و عزت میں کمی آئے ''۔(٢)

حکومتیں ختم ہو گئیں ،بادشاہ چلے گئے ،موجودہ چیزیں فنا ہو گئیں لیکن اس کا ئنات میں یہ لامحدود ایمان ہمیشہ باقی رہنے کے لائق و سزاوار ہے، کون انسان اس طرح کی مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اللہ کی رضا اور تسلیم امر کیلئے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان کا استقبال کرتا ہے ؟ بیشک رسول اعظم ۖ

 

١۔صواعق محرقہ، صفحہ ١١٧۔١١٨۔جوہرة الکلام فی مدح السادة الاعلام، صفحہ ١١٩۔

٢۔مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ٣٣٧۔

کی نظرمیںحسین کے علاوہ ایسا کارنامہ انجام دینے والی کو ئی ذات و شخصیت نہیں ہے ۔

جب آپ کی بیٹیوں نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو ان پر حزن و غم طاری ہو گیا، انھوں نے اسی حالت میں امام کو رخصت کیا ،ان کے دلوں پر خوف طاری ہو گیا ،رعب کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ہوگیا،جب آپ نے ان پر نظر ڈالی تو آپ کا دل غم میں ڈوب گیاان کے بند بند کا نپ گئے ۔

علامہ کاشف الغطا کہتے ہیں : وہ کون شخص ہے جوامام حسین کے مصائب کی تصویر کشی کرے جو مصیبتوں کی امواج تلاطم میں گھرا ہو ،ہر طرف سے اس پر مصیبتوں کی یلغار ہو رہی ہو ،اسی صورت میں آپ اہل و عیال اور باقی بچوں کو رخصت فر مارہے تھے ،آپ ان خیموں کے نزدیک ہوئے جن میں ناموس نبوت اور علی و زہرا کی بیٹیاں تھیں تو خوفزدہ مخدرات عصمت و طہارت نے قطا نامی پرندہ کی طرح اپنے حلقے میں لے لیا حالانکہ آپ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا تو کیا کو ئی انسان اس خوفناک مو قع میں امام حسین اور ان کی مخدرات عصمت و طہارت کے حال کو بیان کرنے کی تاب لا سکتا ہے اورکیا اس کا دل پھٹ نہیں جائے گا،اس کے ہوش نہیں اڑجا ئیں گے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جا ری نہ ہوجا ئیں گے''۔(١)

امام حسین پر اپنے اہل و عیال کوان مصائب میں رخصت کر نا بہت مشکل تھا حالانکہ رسول اللہ ۖ کی بیٹیاں اپنے منھ پیٹ رہی تھیں ،بلند آواز سے گریہ و زاری کر رہی تھیں،گویا وہ اپنے جد رسول ۖ پر گریہ کر رہی تھیں ،انھوں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ آپ کو رخصت کیا ،اس عجیب منظر کا امام حسین پرکیا اثر ہوا اس کو اللہ کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ہے ۔

عمر بن سعد خبیث النفس نے ہتھیاروں سے لیس اپنی فوج کو یہ کہتے ہوئے امام پر حملہ کرنے کے لئے بلایا:ان پر اپنے حرم سے رخصت ہونے کے عالم میں ہی حملہ کردو ،خدا کی قسم اگر یہ اپنے اہل حرم کو رخصت کر کے آگئے تو تمہارے میمنہ کومیسرے پر پلٹ دیں گے ۔

ان خبیثوں نے آپ پر اسی وقت تیروں کی بارش کر نا شروع کردی تیر وںسے خیموں کی رسیاںکٹ گئیں ،بعض تیر بعض عورتوں کے جسم میں پیوست ہو گئے وہ خوف کی حالت میں خیمہ میں چلی

 

١۔ جنة الماویٰ، صفحہ ١١٥۔

گئیں،امام حسین نے خیمہ سے غضبناک شیر کے مانند نکل کر ان مسخ شدہ لوگوں پرحملہ کیا،آپ کی تلوار ان خبیثوں کے سرکاٹنے لگی آپ کے جسم اطہر پر دا ئیں اور بائیں جانب سے تیر چلے جو آپ کے سینہ پر لگے اور ان تیروں میں سے کچھ تیر وںکی داستان یوں ہے :

١۔ایک تیر آپ کے دہن مبارک پر لگا تواس سے خون بہنے لگا آپ نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ نے آسمان کی طرف بلند کیا اور پروردگار عالم سے یوں گویا ہوئے : ''اللّھم اِنّ ھذا فیک قلیل ''۔(١)

''خدایا یہ تیری بارگاہ کے مقابلہ میں نا چیز ہے ''۔

٢۔ابو الحتوف جعفی کاایک تیر، نور نبوت اور امامت سے تابناک پیشا نی پر لگا آپ نے اس کو نکال کر پھینکاتو خون ابلنے لگا تو آپ نے خون بہانے والے مجرمین کے لئے اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا کئے :''پروردگارا ! تو دیکھ رہاہے کہ میں تیرے نا فرمان بندوں سے کیا کیا تکلیفیں سہ رہاہوں ،پروردگارا تو ان کو یکجا کرکے ان کوبے دردی کے ساتھ قتل کر دے، روئے زمین پر ان میں سے کسی کو نہ چھوڑاور ان کی مغفرت نہ کر ''۔

لشکر سے چلا کر کہا :''اے بری امت والو!تم نے رسول کے بعد ان کی عترت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا،یاد رکھوتم میرے بعدکسی کو قتل نہ کر سکو گے جس کی بنا پر اس کو قتل کرنے سے ڈروبلکہ میرے قتل کے بعددوسروں کو قتل کرنا آسان ہو جا ئے گا خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ خدا شہادت کے ذریعہ مجھے عزت دے اور تم سے میرا اس طرح بدلہ لے کہ تمھیںاحساس تک نہ ہو ۔۔۔''(٢)۔

کیا رسول اللہ جنھوں نے ان کو مایوس زندگی اور شقاوت سے نجات دلا ئی ان کا بدلہ یہ تھا کہ حملہ کرکے ان کا خون بہا دیاجائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیاجس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںخدا نے امام کی دعا قبول کی اوراس نے امام حسین کے مجرم دشمنوں سے انتقام کے سلسلہ میں دعا قبول فرمائی اور کچھ مدت نہیں گذری تھی کہ دشمنوں میں پھوٹ پڑگئی اور جناب مختار نے امام کے خون کا بدلہ لیا،ان پر حملہ کرنااور ان

 

١۔الدر التنظیم، صفحہ ١٦٨۔

٢۔مقتل حسین ''مقرم ،صفحہ ٣٣٩۔

کو پکڑنا شروع کیاوہ مقام بیدا پر چلے گئے تو جناب مختار نے ان پر حملہ کیا یہاں تک کہ ان میں سے اکثر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

زہری کا کہنا ہے: امام حسین کے ہر قاتل کو اس کے کئے کی سزا دی گئی ،یا تو وہ قتل کردیا گیا ، یا وہ اندھا ہوگیا،یا اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا ،یا کچھ مدت کے بعد وہ دنیا سے چل بسا ۔(١)

٣۔امام کے لئے اس تیرکو بہت ہی بڑا تیر شمار کیا جاتا ہے ۔مو رخین کا بیان ہے :امام خون بہنے کی وجہ سے کچھ دیر سے آرام کی خاطر کھڑے ہوئے تو ایک بڑا پتھر آپ کی پیشا نی پر آکر لگا آپ کے چہرے سے خون بہنے لگا ،آپ کپڑے سے اپنی آنکھو ں سے خون صاف کرنے لگے تو ایک تین بھال کا تیر آپ کے اس دل پر آکر لگاجو پوری دنیائے انسانیت کے لئے مہر و عطوفت سے لبریز تھا آپ کواسی وقت اپنی موت کے قریب ہونے کا یقین ہو گیا آپ نے اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر یوں فرمایا:''بسم اللّٰہ وباللّٰہ، وعلیٰ ملّة رسول اللّٰہِ ۖ،الٰہ اِنّکَ تعلمُ أَنّھُم یقتلُوْنَ رجُلاً لیسَ علیٰ وجہ الارض ابنُ بِنتِ نبیٍ غَیْرِہِ ''۔

تیر آپ کی پشت سے نکل گیا ،تو پرنالے کی طرح خون بہنے لگا آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں خون لینا شروع کیا جب دونوں ہاتھ خون میں بھر گئے تو آپ نے وہ خون آسمان کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: ''ھوَّنَ مَانَزَلَ بِیْ اَنَّہُ بِعَیْنِ اللّٰہِ ''۔''معبود میرے اوپر پڑنے والی مصیبتوں کو آسان کردے بیشک یہ خدا کی مدد سے ہی آسان ہو سکتی ہیں''۔

امام نے اپنا خون اپنی ریش مبارک اور چہرے پر ملا حالانکہ آپ کی ہیبت انبیاء کی ہیبت کی حکایت کر رہی تھی اور آپ فر مارہے تھے :ھکذاأکون حتی القی اللّٰہ وجد رسول اللّٰہ وأَنا مخضبُ بدم ۔۔۔''۔(٢)''میں اسی طرح اپنے خون سے رنگی ہوئی ریش مبارک کے ساتھ اللہ اور اپنے جد رسول اللہ ۖ سے ملاقات کروں گا''

٤۔حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آپ کے منھ پر لگا،آپ نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ نے آسمان کی طرف بلند کیا اور مجرموں کے متعلق پروردگار عالم سے یوں

 

١۔عیون الاخبار، مؤ لف ابن قتیبہ ،جلد ١،صفحہ ١٠٣۔١٠٤۔٢۔ مقتل خوارزمی، جلد ٢ ،صفحہ ٣٤۔

عرض کیا:''اللّھم احصھم عدداًواقتُلھم بدداً،ولا تذرعلی الارض منھم احداً''۔(١)۔

آپ پرتیروں کی اتنی بارش ہوئی کہ آپ کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ،جسم سے خون بہا اورآپ پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ زمین پر بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی گردن میں سخت درد ہورہاتھا ، (آپ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ )خبیث مالک بن نسیر نے آپ پر حملہ کر دیا اس نے آپ پر سب و شتم کیا، تلوار بلند کی آپ کے سر پر خون سے بھری ایک بلند ٹوپی تھی امام نے اس کو ظالم کی طرف پھینکتے ہوئے اس کے لئے یہ کلمات ادا کئے :''لااَکلتَ بیمینک ولاشربتَ،وحشرک اللّٰہ مع الظالمین ''۔

آپ نے لمبی ٹوپی پھینک کر ٹوپی پر عمامہ باندھاتو ظالم نے دوڑ کر لمبی ٹوپی اٹھائی تو اس کے ہاتھ شل ہو گئے ۔(٢)

 


source : www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )
اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں حصول علم
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ
نہج البلاغہ کی عظمت
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر
نمازِ شب کتاب و سنّت کی روشنی میں
خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)

 
user comment