الف: زندگي ميں دين کے کردار کے لئے ايک عمومي اور کلي نظر يہ پيش کرنا اور يہ کہ کيا دين فقط انسان اور خدا اور عبادي اعمال اور اخلاقي اصول کے درميان روحي اور قلبي رابطہ رکھتا ہے کہ جن پر انسان کو پائيبند رہنا چاہئے، يا دين کي اثراندازي اس سے زيادہ وسيع ہے کہ جو انسان کي زندگي کے اجتماعي ، اقتصادي، اداري، سياسي پہلووں کو اپنے اندر شامل کرليتا ہے-
ب: مسلمانوں کے فکرو عمل اور ان کے عبادت سے متعلق اعمال کے مطابق، ديگر مذاہب اسلامي کے پيروان کے اجتماعي حقوق اور حقوق انساني کي خاطر ايک کلي قدم اٹھانا اس طرح ہے کہ اِس يا اُس مذہب کے پيروکاروں کو ان کے بنيادي حقوق سے کہ جن سے وہ، دوسرے مسلمان شہريوں کي طرح استفادہ کرنے کا حق رکھتے ہيں محروم نہ کريں، دوسرے يہ کہ لوگوں کا کسي خاص مذہب سے منسوب ہونے کا مسئلہ کسي قسم کے امتياز يا نقطہ ضعف کا سبب نے بنے-
ج: اسلام کے اصلي دشمن کے مقابلہ ميں ايک کلي نظريہ رکھنا، چاہے وہ اعتقادي پہلو سے ہو، جيسے الحاد اور اخلاق کيوجہ سے ہر چيز کا مباح ہونا يا سياسي پہلو سے ہو جيسے عالمي کفر-
د: مذہبي اختلافات کو ايک کلي اور روشن نگاہ سے ديکھنا چاہيے تاکہ ان کو صحيح صورت دي جاسکے کيونکہ اس سلسلے ميں وحدت کا مطلب يہ نہيں ہے کہ تمام مذاہب کو ملاکر ايک مشترک مذہب بنايا جائے، بلکہ اصول يہ ہے کہ اس سلسلے ميں تمام مذاہب کے پيروکاروں کي آراء اور عبادي اور شخصي آئين کو احترام کي نظر سے ديکھا جائے اس کے بعد جستجو اور تحقيق کي روش اور نقد وگفتگو کے اسلوب کو شک وگمان سے دور بغير کسي غرض کے متحد کريں-
ھ: حکومت اسلامي کو تشکيل دينے کي بنياد پر عمومي نظريات کو ہماہنگ کرنا اور اس کے کردار کو اجتماعي اور سياسي زندگي ميں پيش کرنا اس طرح کہ دنيائے معاصر ميں ڈموکريسي کے نظريہ کي طرح حکومت اسلامي کے ڈھانچے ميں تناقضات پيش نہ آئيں- ( جاري ہے )
source : www.tebyan.net