کی رپورٹ کے مطابق پشاور کے آرمی پبلک سکول میں کم سن بچوں پر ہونے والے حملہ کا درد دنیا کے ہر باغیرت انسان نے ایسے ہی محسوس کیا ہے جیسے اسے خود نشانہ بنایا گیا ہو، جیسے اسے زخم لگایا گیا ہو، جیسے اسے خون میں نہلایا گیا ہو، جیسے اسے گولیوں سے چھلنی کیا گیا ہو، جیسے اسے اجاڑ دیا گیا ہو، جیسے وہ برباد ہوا ہو۔ سفاکیت کا جو مظاہرہ اس سانحہ میں سامنے آیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں جہاں بڑے بڑے ظلم و دردانگیز مناظر ہماری آنکھوں نے دیکھے، اس جیسے دردناک مناظر و داستان دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی، سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں سامنے آنے والی قیامت کی گھڑیاں پاکستانیوں کی زندگی میں بالخصوص اور دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والوں پر بے حد گہرے اثرات چھوڑ گئی ہیں، ایسے اثرات جن کو بھلانے سے بھی شائد بھلایا نہ جا سکے۔
گذشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت آل پارلیمانی پارٹیوں کے اہم ترین اجلاس نے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہ ہمارا عدالتی نظام یہ سکت نہیں رکھتا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرے اور ملک دشمنوں کو ان کے کئے کی سزا دے، حکومت اور افواج پاکستان نے سب کے ساتھ ملکر عوام پاکستان کے بے حد اصرار اور پرزور مطالبہ کہ دہشت گردوں کو سر عام پھانسیوں پر لٹکایا جائے، ملٹری کورٹس کے قیام کا اصولی فیصلہ کیا او ر تمام پارلیمانی پارٹیوں نے اپنے تحفظات دور کرنے کے بعداس پر اتفاق کر لیا، اس فیصلہ کو بعض حضرات منی مارشل لاء اور بعض جمہوری مارشل لاء قرار دے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے تمام ادارے اگر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا رہے ہوتے تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ در حقیقت موجودہ نظام عدالت پر عدم اعتماد ہی سمجھا جاتا ہے، جو کہ ایک جمہوری منتخب حکومت کیلئے کڑوی گولی لینے کے مترادف ہے۔
اصل میں جمہوریت کا راگ تو یہاں بہت الاپا جاتا ہے مگر حکمرانوں کی ذاتی خواہشات سارے نظام پر بھاری ہوجاتی ہیں، جو اکثر و بیشتر جمہوریت کی بدنامی کا موجب بنتی ہیں، دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا اور انہیں آگے بڑھنے سے روکنا اس ملک و ریاست کی بقا و سلامتی کیلئے واجب اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے، مگر ہم نے دیکھا کہ یہاں ایک ووٹ کیخاطر دہشت گردوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے، انہیں جیلوں سے اٹھا کر اسمبلیوں میں لا کر بٹھا دیا گیا، انہیں پھانسی کے پھندوں کی جگہ سر کا تاج بنایا گیا، انہیں معاشرے کا ناسور سمجھنے کی بجائے معزز و مکرم کا درجہ دیا گیا، انہیں وزارتوں اور مشاورتوں سے نوازا گیا، سب ہی جانتے ہیں کہ یہ نوبت ایک دن میں یہاں تک نہیں آئی بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے، جس کا مطالعہ کیئے بغیر ہم آگے نہیں چل سکتے۔
اگرچہ سولہ دسمبر کو ہونے والا واقعہ اپنی جگہ ایک تاریخ رکھتا ہے، اس میں فقط کم سن بچے بہت بڑی تعداد میں انتہائی سفاکیت اور فرعونیت سے شہید کئے گئے مگر اس گروہ نے اس سے پہلے بھی ایسی ہی داستانیں رقم کی ہیں او ر ماؤں کی گودیں اجاڑی ہیں، بوڑھے والدین کے بڑھاپے کے سہارے ان سے چھینے ہیں، کتنے بچے ہیں جن کو بم دھماکوں میں چیتھڑوں میں بدل دیا گیا، کتنے پھول فرقہ واریت کے زہر سے مرجھا دیئے گئے، کتنی کلیوں کو دہشت گردوں نے اپنی سفاکیت کا شکار کرتے ہوئے مسل دیا، دنیا کو تو صرف ایک ملالہ ہی نظر آئی ہے، اس کے علاوہ کتنی کلیاں مرجھا گئیں کسی کو خبر نہیں۔ ہم چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ سفاکیت کی انتہا ہوگئی، یزیدیت کی جڑیں زور پکڑ رہی ہے، سفیانیت اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ہم نے ہر دروازہ پر دستک دی، ہمیں مایوس لوٹایا گیا، ارباب اقتدار نے ہمیں جھوٹی طفل تسلیاں دے کے ٹرخایا، عدالت نے انصاف کو قتل کرکے ہمیں ڈرایا، افواج نے ہمارے دشمنوں سے ہاتھ ملا کر ہمیں مایوس لوٹایا، سیاستدانوں نے ہماری قوم اور طاقت کا مذاق اڑایا، مذہبی گرو گھنٹالوں نے اپنے چہروں پر منافقت کا نقاب چڑھایا، ہمارا درد کسی نے محسوس نہ کیا، ہمارے زخموں پر کسی نے مرہم رکھنا گوارا نہ کیا، ہماری آہوں، سسکیوں اور نوحوں کی صداؤں پر کسی نے کان نہ دھرے، اس سارے عرصہ میں ہمارے گوہر نایاب ہم سے چھنتے رہے، ہمارے ہیرے ہم سے چرائے جاتے رہے، ہمارے لعل ہم سے بچھڑتے رہے، ہمارے کم سن خون میں لت پت ہوتے رہے، ہمارے جوان زخموں سے چور ہوتے رہے، ہمارے گھر لٹتے رہے، ہمارے رستے کٹتے رہے، ہماری راہوں پر بارود کا ڈھیر لگایا جاتا رہا، ہمیں بسوں سے اتار اتار کے ذبح کیا جاتا رہا، ہمیں آگ میں جلایا جاتا رہا، ہمیں کال کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا رہا، ہمیں پھانسی گھاٹ پر جھولایا جاتا رہا، ہمیں بندوق، قلم اور تلوار سے مارا جاتا رہا۔
ہمیں تعصب کا نشانہ بنایا گیا، ہمیں نفرتوں کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا رہا، ہمیں تنگ نظری و جہالت کا شکار کیا جاتا رہا ۔۔۔ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا، ہم نے اپنے جذبات اور غیرت کے جذبے کو حالات کی رو میں بہنے نہیں دیا، ہم نے دکھ جھیلے مگر مگر پیارے وطن کو دکھ نہیں دیئے۔۔۔۔ ہم نے خون دیا مگر پاکستان کا خون نہیں ہونے دیا۔۔۔ ہم نے ڈاکٹر دیئے مگر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو خون آلود نہیں ہونے دیا۔۔۔ ہم نے علماء دیئے مگر استحکام پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔۔۔۔ ہم نے وکلاء دیئے مگر علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر کو ریزہ ریزہ نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ ہم نے جنازوں کی قطاروں پر بھی وطن کی سالمیت اور استحکام کا شعار بلند کیا۔۔۔ ہم نے اس سرزمین پاک سے اپنی وفاداری نبھائی ۔۔۔۔ ہم نے ہتھیار نہیں اٹھائے۔۔۔ ہم نے کسی ایک فوجی کو بھی اتنے طویل عرصہ میں اپنی بندوق کا نشانہ نہیں بنایا۔۔۔ ہم نے کسی ایک فوجی کا سر قلم نہیں کیا۔۔۔ ہم نے کسی ایک رینجرز والے کا خون نہیں کیا۔۔۔ ہم نے کسی ایک پولیس والے پر وار نہیں کیا۔۔۔ ہم نے اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم کا جواز بنا کر دھماکے نہیں کیئے۔۔۔ ہم نے کسی ایک بے گناہ کا خون نہیں بہایا، ہم نے کسی کا بدلہ پاک سرزمین کو لہو میں ڈبو کر نہیں لیا۔۔۔ ہم نے کسی اسکول کو بارود کا ڈھیر لگا کر تباہ نہیں کیا۔۔۔
پشاور میں معصوم، بے گناہ اور انتہائی کم سن پھولوں کو بکھیرنے والوں نے اپنی روایتی بھونڈی دلیل اور جواز تراشا اور اس کا ربط خدا نخواستہ سنت نبوی ؐسے جوڑنے کی کوشش کی ہے، لعنت ہو ان بدبختوں اور ملعونوں پر جو ان کی حمایت اور مدد و تعاون میں ہر جگہ پیش پیش ہیں، اگر ان لوگوں کو اسی طرح کھل کھیلنے کی اجازت دے دی گئی تو وہ مقاصد حاصل ہونا بعید از قیاس ہیں، جن مقاصد کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ اگر دہشت گردوں کے بھونڈے جواز اور دلیل کی بنیاد پر بات کی جائے تو ستر ہزار بے گناہ و معصوم انسانوں کا لہو بہانے کے بدلے میں دہشت گردوں کی نسلیں بھی ختم کر دینا کم ہوگا۔۔۔
اگر افواج پاکستان اور فورسز کے سات ہزار سے زائد لوگوں کے خون کا بدلہ لیا جائے تو دہشت گردوں کو بلوں سے نکال نکال کے بھی مارا جائے تو ان کا دکھ کم نہ ہو گا۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ملک اور ریاست کے غداروں اور نقب زنوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا جائے، اگر اس موقعہ کو ضائع کر دیا گیا تو شائد ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم کی امید یہی ہے کہ دہشت گردوں سے آخری معرکہ جیت کر جشن فتح منایا جائے اور اس جشن کو شہدائے پشاور کے نام کیا جائے، جن کے لہو کی خوشبو اس وقت چہار سو پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کا درد ہر درد سے سوا ہو چلا ہے۔ خداوند کریم و مہربان سے دعا ہے کہ ان معصوموں کے ورثاء بالخصوص والدین کو ان کے غم سہنے کی ہمت عطا فرمائے۔ (آمین)
تحریر: ارشاد حسین ناصر
source : www.abna.ir