اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

آخري سفير حق و حقيقت

آخري سفير حق و حقيقت

خدایا ہم تیری بارگاہ میں اپنی محرومیوں کا شکوہ لے کر حاضر ہیں ایسی محرومی کہ جس کے مقابل دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں بھلا تیرے منتخب ترین رسول تیرے حبیب اور تیرے عزیزترین بندے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فراق و فقدان کا دنیا کی کون سی نعمت مداوا کرسکتی ہے ۔ تیرے رسول کی امت حسرت دیدار کی آگ ہیں اشک فشاں ہے دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے گھروں سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند ہیں ہم اپنی غریبی و یتیمی پر جس قدر بھی نالہ کریں کم ہے ۔ خدایا ہماری اشک آلود نگاہوں کو دیکھ اور ہماری تسلی و تشفی کے لئے اپنے حبیب کی تصویر مجسم کو ظہور اور حکومت حق کی برقراری کی اجازت مرحمت فرما تا کہ ان کی آمد سوختہ دل مظلوموں اور محروموں کے لئے "مرہم " بن جائے " اللہم نشکوا الیک فقد نبینا " اے اللہ ! تو یقینا" رحیم و کریم ہے اور ہر شے کی قدرت و توانائی رکھتا ہے ۔

 

بارگاہ ربوبیت میں اس عاجزانہ التجا کے ساتھ ہم اٹھائیس صفرالمظفر ، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے یوم رحلت و شہادت کی مناسبت سے پورے عالم اسلام خصوصا" فرزند رسول بقیۃ اللہ الاعظم مہدی موعودعجل اللہ تعالی اور ان کے نائب برحق رہبر انقلاب اسلامی، دیگر مراجع عظام، علمائے اعلام اور مؤمنین و مخلصین کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں ۔

 

عالم حقیقت کو کس قدر طویل انتظار و اشتیاق کے بعد در یکدانہ آفرینش کے رخ زیبا کی زیارت نصیب ہوئی تھی سرزمین عرب سے وہ آفتاب نبوت و رسالت طلوع ہوا تھا کہ جس نے اپنی نورانی شعاعوں سے جہالت و گمراہی میں گھرے ہوئے دنیا پرست انسانوں کو تیئیس سال کی مختصر سی مدت میں خاک سے عالم پاک تک پہنچا دیا ۔

 

اے خدا کے آخری رسول! عالم وجود کی منتخب ترین ہستی! محبت و آشتی کے پیغامبر! رحمت مجسم! ہم آپ کو کس نام اور کس خطاب سے یاد کریں؟ زبان و الفاظ آپ کے اوصاف و کمالات کے بیان سے قاصر ہیں آپ اعلی ترین انسانی جمال و کمال کا مظہر اور الہی خلاقیت و انسانیت کا پر شکوہ ترین جلوہ ہیں ۔ آپ ہی باغ تخلیق میں لطف خداوندی کا صاف و شفاف چشمہ اور تمام نیکیوں اور خوبیوں کا روشن و تابناک آئینہ ہیں ۔ آپ کا پاکیزہ وجود فیض پروردگار کا وہ دریچہ ہے جہاں سے رحمتوں کی پھواریں جاری ہوتی ہیں اور عشق خدا کے سوتے پھوٹتے اور بندگی کے پودے تناور ہوتے ہیں ۔

 

آپ کی ذات والا صفات، خدا اور انسان کے درمیان رشتہ عبودیت کی ریسمان اور عالم فنا سے عالم بقا کی طرف جانے کے ل ئے صراط مستقیم کی پہچان ہے ۔


مسجد النبی

خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے امت کے در میان اپنے پاکیزہ وجود کو ایک مثال کے ذریعے بیان فرمایاہے کہتے ہیں: تصور کرو ایک بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں راہ سے بیراہ بھوکا پیاسا خستہ و درماندہ ایک کارواں بھٹک رہاہو ، نجات کی کوئی راہ سامنے نہ ہو چاروں طرف ہلاکت خیز ہیولے منھ پھاڑے کھڑے ہوں اورایسے میں سر سے پاؤں تک مہرو محبت میں ڈوبا ، اخلاق و مروت سے آراستہ تازہ دم مسکراتا ہوا بشاش چہرہ نظر آجائے جس کی بانچھیں بھیگی ہوئی ہوں اور داڑھی سے پانی ٹپک رہاہو تو اسے دیکھ کرقافلے والوں کا کیا حال ہوگا ؟! اب اگر وہ مہربان چہرہ اہل کارواں کی حالت زار دیکھ کر کہے : بھئی تم لوگوں کے چہروں سے تو بے پناہ تھکن اور تشنگی کا احساس ہورہاہے لگتاہے تم سب راستہ بھٹک گئے ہو اگر میں تم لوگوں کو ایک سرسبز و شاداب باغ میں پہنچادوں جہاں ایک صاف ستھرا پاک و پاکیزہ چشمہ بہہ رہاہے تو تم لوگ مجھ کو کیا دوگے ؟! ظاہرہے سب بیک آواز یہی کہیں گے : آپ جو بھی کہیں اگر ہمارے بس میں ہوا تو آپ کی خدمت میں تقدیم کردیں گے ۔ فرض کرو اس وقت وہ مردمہربان اگرکہے کہ میں تم لوگوں سے کچھ نہیں چاہتا صرف اتنا خیال رکھنا کہ راستے میں میرے احکام کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اس عہد و پیمان کے بعد جب وہ مرد مہربان قافلے والوں کو ہر قسم کی نعمتوں سے مالامال باغ تک پہنچا دے اور سب کے سب شکم سیر ہوکر تھک کے بیٹھ جا ئیں مرد مہربان ان سے کہے کہ آؤ آگے بڑھو اس سے کہیں ‌زیادہ طرح طرح کے میووں سے لداباغ اور شہد کی مانند چشمہ، ادھر بہہ رہاہے میں تم کو وہاں لے چلتاہوں وہ جگہ اس سے کہیں زیادہ اچھی ہے اور اہل کارواں اپنے عہد کو فراموش کرکے مرد مہربان کی پیروی کے بجائے شکم پری میں مشغول رہیں ۔ اور بالآخر صرف چند افراد مرد مہربان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کمال و ارتقا کے مشقت بار زینے طئے کرکے دائمی عیش و راحت کی منزلوں پر فائز ہوجاتے ہیں جبکہ پہلی منزل میں ساتھ چھوڑ دینے والے ، رات ہوتے ہی دشمنوں کی یلغار کا نشانہ بن کر گمرہی کے دام میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ (اقتباس از نہج الفصاحہ ترجمہ فارسی ابوالقاسم پایندہ ص آٹھ سو اڑتالیس)


مسجد النبی

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ہمیشہ درد و مصیبت میں مبتلا عالم بشریت سے عشق و دوستی کی بنیاد پر نبوت و رسالت کا عظیم و خطیر بار اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا اور فریب و مکر ، جہالت و نادانی اور کذب و زور میں اسیر انسانوں کو حق و حقیقت کی راہ دکھاتے رہے اگرچہ اس راہ میں ان کو سخت ترین آزار و اذیت ، بے وطنی اور مسلسل جنگ و پیکار کی منزلوں سے گذرنا پڑا یہاں تک کہ آپ نے خود فرمایاہے : " تبلیغ و ہدایت کی راہ میں مجھ کو جتنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا کسی نبی و وصی کو اتنی تکلیفیں نہیں پہنچائی گئی ہیں ۔"

 

مکہ و مدینہ کے کوچہ و بازار نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و الہ و سلم کی غربت و مصیبت پر ماتم کناں ہیں کیونکہ آپ نے جس وقت ایک دنیا غفلت و جہالت کی نیند سورہی تھی ، بیداری و آگہی کی اذان بلند کی بارش نور کے قطروں سے دل و دماغ کے بنجر ویرانوں میں ایمان و اخلاص کے پودے اگائے اور ان کی ‌زندگیوں کو سر سبز و شاداب کردیا ۔ اپنے پیرووں کو آواز دی :

 

" اس دنیا میں چند روزہ میہمانوں کی طرح زندگی بسر کرو ، حرص و ہوس میں گرفتار نہ ہونا ورنہ راہ سے بے راہ ہوجاؤگے ، ایسی عمارتیں بنانے سے کیا فائدہ جس میں تم ساکن نہ رہ سکو ، وہ چیزیں جمع نہ کرو کہ جس کا کھانا تمہیں میسر نہ آئے اور وہ آرزوئیں نہ کرو کہ جہاں تک پہنچ نہ سکو ۔" ( روایت دوہزار ایک سو اٹھاسی نہج الفصاحہ)

 

وہ نبی رحمت جس نے اپنی حیات مبارکہ کی آخری سانسوں میں بھی اپنی امت کو فراموش نہیں کیا ان کی نجات و فلاح کے لئے وصیت کے عنوان سے فرمایا : امن و سلامتی کے دو محکم و استوار حصار " ثقلین" یعنی قرآن و اہل بیت (علیہ السلام) تمہارے درمیان چھوڑکر جارہاہوں ہدایت و آگہی کی ان ریسمانوں کو ہرگز نہ چھوڑنا کیونکہ ان کے بغیر سعادت و نجات حاصل نہیں کر سکتے ۔

 

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے تمام درد و غم میں شریک، یاور و مددگارحضرت علی علیہ السلام کہ جن کو اپنے پیرووں کے مجمع عام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ولی امر مسلمین قرار دیاتھا آپ کی رحلت کے وقت فرماتے ہیں :

 

اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) ! ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں ، آپ کی رحلت کے ساتھ نبوت و رسالت اور بندوں کے درمیان الہی پیغام رسانی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور آسمانی خبریں آنا بند ہوگئیں ، آپ کے فراق کا غم دوسرے غموں پر بالا ہوگیا اس مصیبت میں ہرایک برابر سے عزادار ہے اگر آپ نے صبر و شکیبائی کا حکم نہ دیا ہوتا اور بے تابی و بے قراری سے منع نہ کیا ہوتا تو اتنا آنسو بہاتا کہ اشک خشک ہوجاتے اور یہ درد جانکاہ کبھی بھی مجھ سے جدا نہ ہو تا آپ کا غم "غم جاوداں" ہوجاتا آپ کی مصیبت کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے کیا کہا جائے کہ زندگی نہیں پلٹائی جا سکتی اور موت سے نہیں روکا جا سکتا ، میری ماں آپ پر قربان، خدا کی بارگاہ میں ہم کو نہ فراموش کیجئے گا اور اپنی یادوں میں ہمیشہ محفوظ رکھئےگا۔

پیغمبر (ص) کی کریمانہ رفتار
پیغمبر (ص) کی کریمانہ رفتار
رسول اكرم (ص) ملت اسلاميہ كے رہبر اور خدا كا پيغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے آپ (ص) كو مختلف طبقات كے افراداور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان كو توحيد

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نھج البلاغه بعض متعصبين کي نگاه ميں
35حیوانات کا نام قرآن مجید میں آیا ہے
رمضان کے لغوی اور اصطلاحی معنی
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
حضرت علی اکبر(ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں ...
حضرت فاطمہ زہر(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ عمل
شیخ مفید کی تین سچی حکایتیں
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ
قافلہ آل محمّد کا شام میں ورود
اذان ومؤذن کی فضیلت

 
user comment