جناب ٹرنر کے بيانات سے جو بات سامنے آتي ہے وہ درج ذيل ہے -
1- امريکہ جو ايران کو اپنا سب کچھ سمجھتا تھا اور ايران کو اپني ملکيت اور قدرت تصور کرتا تھا - تمام طرح کے امکانات ، محاسبات ،ايجنٹوں اور سياسي ، فوجي ، سي آئي اے کے اطلاعاتي تجزيوں کے باوجود انقلاب کي برق رفتاري اور ھدايت الہي امام کے سامنے بالکل بے بس ہو گيا -
2- انہوں نے انقلاب اسلامي کي کاميابي کا تصور بھي نہيں کيا تھا -
3- حتي کہ وہ اس بات کي توقع بھي نہيں کر رہے تھے کہ وہ مذھبي اور روحاني رہنما جنہوں نے رضا شاہ پہلوي کي وجہ سے سالوں جلاوطني کي زندگي گزاري ، وہ مختلف عقائد کے حامل افراد کو اپني طرف راغب کرکے ايک پرچم تلے جمع کرنے ميں کامياب ہو جائيں گے -
4- مسٹر ٹرنر بڑي اچھي طرح سے ان کميونسٹ گروہوں سے آگاہ تھے جو پہلے ايران ميں نہيں تھے ، اچھي طرح سے اسے معلوم تھا کہ ايران کا ہمسايے ميں سوويت يونين ايک طاقتور ملک ہے - انہوں نے بڑي کوشش کي تھي کہ ايران کي فوج ميں امريکي فوج سے وابستہ اعلي مہارت کے حامل تيمسار مقربي جيسے جاسوسوں کي شناسائي کي جاۓ کيونکہ وہ جانتے تھے کہ مقربي ايک فرد کا نام نہيں بلکہ ايک رواني ہے جس ميں کميونسٹي تفکرات شامل ہيں -
رضا شاہ پہلوي اور امريکي اپنے خلاف ہونے والي ہر کاروائي کو کميونسٹوں پر ڈال ديتے تھے اور انقلابي کاروائياں بھي انہيں پر ڈال دي گئيں اور يوں وہ وحدت ملت ايران کو عملي جامعہ پہننے کے عمل کو نہ سمجھ سکے اور انہيں اس بات کا ذرا بھي اندازہ نہ ہوا کہ ملت ايران حضرت امام خميني کي رہبري تلے ايک ہو رہي ہے -
5- ايک اور نکتہ يہ کہ شاہ ايک طاقت ور فوج کے ہوتے ہوۓ جو سالانہ کئ بلين ڈالر خرچ کرکے امريکہ سے اسلحہ خريدتي تھي اور ساواک خفيہ ايجنسي جو امريکہ کي خفيہ ايجنسي سي آئي اے سے وابستہ تھي ، ان دونوں کي موجودگي کے باوجود شاہ انقلاب ايران کو کنٹرول کرنے ميں ناکام رہا - ( جاري ہے )
source : www.tebyan.net