محترمہ زھرا گونزالس ایک امریکی شیعہ مسلمان ہیں ۔ انہوں نے ایک مراسم بنام " جشنوارہ دختران آفتاب " میں مغربی ممالک کی مسلمان خواتین کے لیۓ حجاب کے متعلق پائی جانے والی مشکلات کے متعلق بات کرتے ہوۓ کہا مسلمان عورتیں یورپی ممالک میں خود کو محجب رکھنے کے لیۓ بہت ہی سختیاں جھیلتی ہیں ۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوۓ اس پر ایک طرح کا لرزہ طاری تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ ایران اور دوسرے بہت سے اسلامی ممالک، جہاں پر حجاب آزاد ہے اور مسلمان خواتین آسانی سے اپنی عزت و حرمت کو پوشیدہ رکھ سکتی ہیں مگر اس کے باوجود بعض عورتیں اپنے حجاب کا خیال نہیں رکھتی ہیں ۔
انہوں نے اپنے متعلق بتاتے ہوۓ کہا کہ میری عمر کوئی 12 یا 13 برس ہو گی جب میری والدہ مشرف بہ اسلام ہوئیں تھیں۔ میری ماں نے مسلمان ہونے کے بعد کسی جبر کے بغیر مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی جسے ہم سب نے بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ قبول کر لیا اور اسلام کے دائرے میں داخل ہو گۓ ۔ اس دن کے بعد سے میں حجاب کرکے باہر آیا کرتی تھی ۔ مجھے اچھی طرح سے وہ دن یاد ہے جب اسکول میں پہلی بار میں سر پر روسری رکھ کر گئی تھی ۔ اس دن میں نے روسری پہن کر بار بار خود کو آئینے کے سامنے دیکھا ۔ میں روسری پہن کر بڑی خوشی محسوس کر رہی تھی اور چاہتی تھی کہ میرے دوست بھی میری اس خوشی میں شامل ہوں ۔ میرا تو خیال یہ تھا کہ میرے سارے دوست میری اس روسری کو دیکھ کر بہت خوش ہونگے مگر اس صبح جیسے ہی سکول کی بس پہنچی تو بس میں داخل ہونے والی آخری نفر تھی ۔ مجھے دیکھتے ہیں سارے بچے ساکت سے ہو گۓ ۔ اس کے بعد ایک نے آواز لگائی کہ اسے دیکھو ! سر پر کیا رکھا ہے ۔ ایک دوسرے بچے نے میری طرف گندی چیز پھینکی ۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور میرا دل کرتا تھا کہ بس سے اتر کر بھاگ جاؤں مگر اسی دوران بس کے ڈرائیور نے دروازہ بند کرتے ہوۓ بس کو چلا دیا تھا ۔ میں بڑی مشکل سے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھی ۔ اس دن میں نے مدرسہ تک کا فاصلہ بہت ہی سختی کے ساتھ طے کیا مگر ان سب کے جملوں اور بدتمیزیوں کو برداشت کرتی رہی ۔ مدرسے پہنچ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ جیسے میری روسری گیلی ہو چکی ہے ۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میرے پیچھے بیٹھے ہوۓ بچے باری باری میرے سر پر تھوکتے رہے تھے جس کی وجہ سے میری روسری گیلی ہو گئی ۔ اس کے بعد یہ ماجرا تقریبا ہر روز میرے لیۓ عادی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے میں ہمیشہ دو یا تین روسریاں اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی تاکہ اگر ایک خراب ہو جاۓ تو اتار کر دوسری پہن لوں ۔
خانم گونزالس بڑے جذبے کے ساتھ یہ ساری داستان بیان کر رہی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ بالکل بھی ان یادوں سے ناراحت نہیں تھیں ۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ ان واقعات کو یاد کرکے غمگین ہوتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا !
کیا میں حضرت زینب (س) سے افضل ہوں ؟ جنہوں نے کربلا کے سارے دکھوں اور تکالیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کیا ۔
ھرگز نہیں !
اب میں اپنے مسلمان ہونے پر ایک چھوٹا سا وظیفہ ادا کرکے بھلا کیوں غمگین ہوں ۔
source : www.tebyan.net