علم کی عظمت سے کسی بھی طرح سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ وہ لازوال دولت ہے جو ہماری حفاظت کرتا ہے ، لیکن مال کی ہم کو حفاظت کرنی پڑتی ہے ، علم حاکم ہے اور مال محکوم ہے ، مال و دولت کے خزانے جمع کرنے والے تو مرگئے لیکن علم کا خزانہ جمع کرنے والے باقی ہیں ، وہ نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں لیکن دلوں میں موجود ہیں ۔
لفظ درجات کا کسی مخصوص حد کی تعیین کے بغیر مطلق استعمال ہوا ہے ۔قرآن کریم میں جس سے اس کی عظمت بزرگی کی نشاندھی ہوتی ہے ۔ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ذر خدا ،ملائکہ اور انبیاء طالب علم کو دوست رکھتے ہیں اور علم کو دوست نہیں رکھتا مگر سعادت مند انسان ۔ بس خوش نصیب ہے قیامت کے دن وہ طالب علم جو اپنے گھر سے باہر نکلے اور علم کے ایک دروازے کو اپنے لئے کھول دے۔ خدا اس کے ہر قدم پر اس کے لئے شہدائے بدر کے ایک شہید کا ثواب لکھتا ہے اور وہ صبح وشام خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گذار تا ہے اور مرنے کے بعد وہ آب کوثر سے سیراب ہو گا اور بہشت کے پھل کھائے گا اور بہشت میں حضرت خضر علیہ السلام کا دوست اور رفیق ہو گا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن جب پل صراط پر عالم اور عابد جمع ہوں گے تو عابد سے کہا جائے گا کہ بہشت میں داخل ہو کر اپنی عبادتوں سے بہرہ مند ہو جاو اور عالم سے کہا جائے گا کہ یہاں بیٹھو اور جسے چاہو اس کی شفاعت کرو اس لئے کہ جس کی شفاعت کرو گے خدا اسے قبول کر لے گا ، عالم قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام کی صف میں کھڑا ہو گا اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی جتنی شفاعت کر سکتا ہے شفاعت کرے گا اس لئے کہ قیامت کے دن تین گروہ گہنگاروں کی شفاعت کریں گے ۔ انبیاء ، علماء اور شہدا۔ ( جاری ہے )
source : tebyan