آپ (ص) کي جوانمردي کا يہ عالم تھا کہ اپنے ذاتي دشمنوں کو بھي معاف کرتے تھے- کسي گوشہ ميں بھي کوئي مظلوم و ستمديدہ ہوتا، جب تک اس کي مدد نہ کرتے چين سے نہيں بيٹھتے تھے- دور جاہليت ميں خود مکہ کے افراد کے درميان ہونے والے ديگر عہد و پيمان کے علاوہ ايک پيمان بعنوان ''حلف الفضول'' تھا جس ميں خود سرور کائنات (ص) بھي شريک تھے- ايک غريب الديار شخص مکہ ميں وارد ہوا اور اس نے ''عاص بن وائل'' کے ہاتھوں اپني کوئي چيز بيچي ليکن مکہ کے اس سرکردہ شخص نے چودھراہٹ دکھاتے ہوئے اس کي قيمت ادا نہيں کي، اس غريب بے چارہ نے بڑي کوششيں کيں، مختلف لوگوں سے مدد چاہي مگر ساري کوششيں لاحاصل تھيں، جب ہر جگہ سے مايوس ہوگيا تو کوہ ابوقبيس پر چڑھ کر چلانے لگا: ''اے فرزندان فہر! مجھ پر ظلم ہوا ہے-'' رسول اکرم (ص) اور آپ (ص) کے چچا زبير بن عبد المطلب نے اس کي يہ فرياد سني لوگ اکہٹ ہوئے اور فيصلہ کيا کہ اس کے حق کي دفاع کريں، عاص بن وائل کے پاس گئے اور کہا کہ اس کے پيسے دے دو- وہ ڈرا، مجبور ہوا اور جلدي سے پيسے دے ديے- اس دن سے انہوں نے يہ پيمان باقي رکھا کہ اگر کوئي اجنبي مکہ ميں داخل ہو اور اہل مکہ اس کے حق ميں ناانصافي کريں تو ہم اس کے حق کي مدافعت کريں گے- ظہور اسلام کے کئي سال بعد بھي حضورغ– فرماتے تھے: ''ميں اب بھي اس پيمان پر باقي ہوں-'' يہي وجہ ہے کہ بارہا آپ (ص) اپنے مغلوب دشمن کے ساتھ اس حسن سلوک سے پيش آئے کہ خود اس کے لئے باعث تعجب ہوا- ہجرت کے آٹھويں سال جب رسول اکرم (ص)نے مکہ کو فتح کيا تو فرمايا:''اليوم يوم المرحمۃ'' ''آج رحم و کرم اور عفو و بخشش کا دن ہے-'' آپ (ص) نے کسي سے کوئي انتقام نہ ليا، يہ آپ (ص)کي جوانمردي کي دليل ہے-
source : tebyan