اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

قرآن کو دل سے قبول کرو

قرآن سے رہنمائي لينے کے ليۓ ضروري ہے کہ انسان اپنے دل سے شيطاني وسوسوں کو پاک کرے اور پاک دل کے ساتھ قرآن سے رہنمائي حاصل کرنے کي کوشش کرے - حضرت علي(عليه السلام) مسلمانوں اور دنيا و آخرت کي سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصيت فرماتے ھيں کہ قرآن کو اپنا رھنما قرار ديں اور اس کي مخلصانہ نصيحتوں پر کان دھريں، اس لئے کہ <اظ•ِنَّ ہٰذَا الْقُرآنَ يَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ اَقوَمُ وَ يُبَشِّرُ المُومِنِينَ الَّذِينَ يَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَہُم اَجرًا کَبِيراً> ”‌بے شک يہ قرآن اس راستہ کي ھدايت
قرآن کو دل سے قبول کرو

قرآن  سے رہنمائي لينے کے ليۓ ضروري ہے کہ انسان اپنے دل سے شيطاني وسوسوں کو پاک کرے اور پاک دل کے ساتھ قرآن سے رہنمائي حاصل کرنے کي کوشش کرے - حضرت علي(عليه السلام) مسلمانوں اور دنيا و آخرت کي سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصيت فرماتے ھيں کہ قرآن کو اپنا رھنما قرار ديں اور اس کي مخلصانہ نصيحتوں پر کان دھريں، اس لئے کہ <اظ•ِنَّ ہٰذَا الْقُرآنَ يَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ اَقوَمُ وَ يُبَشِّرُ المُومِنِينَ الَّذِينَ يَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَہُم اَجرًا کَبِيراً>

”‌بے شک يہ قرآن اس راستہ کي ھدايت کرتا ھے جو بالکل سيدھا ھے اور ان صاحبان ايمان کو بشارت ديتا ھے جو نيک اعمال بجالاتے ھيں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ھے“-

جو نکتہ يھاں پر قابل تاکيد ھے، يہ ھے کہ اس آيہ شريفہ کے مضمون پر ايمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ھے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ايسا ايمان و اعتقاد انسان کي روح پر حاکم نہ ھو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختيار ميں نہ دے اور اپنے کو کج فکري، خود پسندي اور نفساني خواھشات سے پاک و صاف نہ کرے ھر لمحہ ممکن ھے شيطاني وسوسوں کے جال ميں پھنس جائے اور گمراہ ھو جائے، پھر جب بھي قرآن کي طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن ميں بھي ايسے مطالب اور آيات ڈھونڈے گا جو کہ اس کي نفساني خواھشات سے ميل کھاتے ھوں -

واضح ھے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفساني خواھشات اور حيواني ميلانات کے موافق نھيں ھيں- انسان اپني طبيعت کے مطابق خواھشات رکھتا ھے اور وہ يہ چاہتا ھے کہ قرآن بھي اس کي خواھش کے مطابق ھو، اس بنا پر فطري بات ھے کہ جھاں قرآن انسان کے حيواني و نفساني خواھشات کے برخلاف بولے گا انسان اس سے ذرا سا بھي خوش نہ ھوگا اور جھاں آيات قرآن اس کي نفساني خواھشات کے موافق ھوں گي وہ کشادہ روئي کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا-

البتہ يہ تمام فعل و انفعالات اور تاثير و تاثرات اس کے اندر ھي اندر مخفي طور پر انجام پائيں گے ليکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال ميں ظاھر ھوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار ديتي ھے کہ قرآن کي طرف رجوع سے پھلے، انسان اپنے ذھن کو ھر طرح کي خود پسندي اور کج فکري سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفساني خواھشات اور ھوا و ھوس سے منھ موڑ لے تاکہ ايک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآني مکتب ميں قدم رکھے، اس صورت ميں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ھے اور نھايت شوق و رغبت کے ساتھ الٰھي معارف کو قبول کرتا ھے-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات ا تا 5)
درود کی برکات و فضلیت و اہمیت وجوب
قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
سفیانی کا خروج علامات حتمیہ میں سے ہے؛ سفیانی کا ...
خاتم النبیینۖ ایک نظر میں
قرآن کریم میں قَسَم کی اقسام
اسلامی اخلاق میں ایمان کی تاثیر
مرسل آعظم کی بعثت انسانوں کیلئے عظیم نعمت الھی ہے
قرآن مجيد اور نسائيات
ماہ رمضان میں سحری کے اعمال اوردعائیں

 
user comment