اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

امام خامنہ ای: اگر مہدویت نہ ہو تو انبیاء (ع) کی تمامتر کوششیں رائگاں جائیں گی

رہبر مع‍ظم نے فرمایا: اگر مہدویت نہ ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء (ع) کی تمام کوششیں، تمام دعوتیں، تمام بعثتیں، جان و روح کو تھکادینے والی زحمتیں، یہ سب بے سود ہوں اور رائگاں جائیں، اور بے اثر رہیں۔ چنانچہ مہدویت کا مسئلہ ایک اصلی اور بنیادی مسئلہ ہے؛ اصلی ترین الہی معارف میں سے ایک ہے۔
امام خامنہ ای: اگر مہدویت نہ ہو تو انبیاء (ع) کی تمامتر کوششیں رائگاں جائیں گی
رہبر مع‍ظم نے فرمایا: اگر مہدویت نہ ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء (ع) کی تمام کوششیں، تمام دعوتیں، تمام بعثتیں، جان و روح کو تھکادینے والی زحمتیں، یہ سب بے سود ہوں اور رائگاں جائیں، اور بے اثر رہیں۔ چنانچہ مہدویت کا مسئلہ ایک اصلی اور بنیادی مسئلہ ہے؛ اصلی ترین الہی معارف میں سے ایک ہے۔

 

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کل تہران ملاقات کے لئے آنے والے مہدویت کے ماہرین، اساتذہ، محققین اور مولفین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: انبیاء (ع) اسی کے لئے آئے۔ ہم نے بار بار عرض کیا ہے کہ وہ تمام قدم جو بنی نوع انسان نے کئی صدیوں کے دوران انبیاء (ع) کی تعلیمات کے سائے میں اٹھائے ہیں اس عریض اور چوڑی اور پکی شاہراہ کی طرف جارہے ہیں جو حضرت مہدی عَجّل اللَّہ تعالى فَرَجَہ الشَّریف کے دور میں بلند اہداف کی طرف تعمیر کی گئی ہے جس پر بنی نوع انسان گامزن ہوگا۔

اس اہم خطاب کا مکمل اردو متن قارئین و صارفین کے پیش خدمت ہے:

بسم‌اللَّہ‌الرّحمن‌الرّحيم‌

سب سے پہلے تو میں شکریہ ادا کرتا ہوں تمام بھائیوں اور بہنوں کا جو مختلف اور ضروری شعبوں میں مصروف کار ہیں اور محنت کررہے ہیں، خواہ نماز کی ترویج کے شعبے میں، خواہ زکاة، تفسیر اور مہدویت (مہدی شناسی) کے شعبوں میں، خواہ ان دیگر شعبوں میں جو جناب محسن قرائتی نے بیان کئے اور حق و انصاف یہی ہے کہ ان شعبوں میں ایک حقیقی انفاق و خیرات اور اللہ کی بارگاہ میں صدقۂ مقبولہ ہے انشاء اللہ۔ ہم سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں تاہم جناب قرائتی کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے، شکریہ تو ہم ادا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کام خدا کا کام ہے خدا کے لئے ہے ان شاءاللہ کہ خداوند متعال ہی ان کا اور ان کے رفقائے کار کا شکریہ ادا کریں؛ لیکن ہمیں قدردانی کرنی چاہئے۔ میں یہ چند جملے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرتا چلوں:جناب قرائتی ایک بہت ہی اچھا اور سبق آموز نمونہ ہیں بذات خود۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن کاموں کی ذمہ داری انھوں نے سنبھالی اور انہیں سرانجام دیا وہ سب ایسے کام تھے جن کی جگہ خالی تھی اور انہیں انجام پانا چاہئے تھا اور انھوں نے یہ خالی جگہیں پر کردیں؛ ان کے ان کاموں کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ بعض کام اچھے ہوتے ہیں لیکن دوبارہ سہ بارہ انجام دیئے جاتے ہیں (تکراری اور Repetitive) ہیں اگر کوئی ضروریات کو پہچانے اور خلاؤں کو ڈھونڈ نکالے اور ہمت و اہتمام کرکے ان خلاؤں اور خالی جگہوں کو پر کرے، تو اس کی اہمیت دو گنا ہوتی ہے۔ جناب قرائتی نے اس طرح عمل کیا ہے؛ نماز کے قضیئے میں بھی ـ نماز اتنی عظمت کے باوجود، اتنی اہمیت کے باوجود، رکن دین، انسان کے تمام اعمال کی قبولیت کا سبب و بنیاد، اگر معاشرے میں اس کو اہمیت نہ دی جائے، اور اس کو ضرورت کے مطابق توجہ نہ دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑا خلا ہے ـ انھوں نے اس خلا کو توجہ دے، زکاة کا مسئلہ بھی، جو حقیقتاً ہمارے معاشرے میں بے اعتنائی کا شکار تھا، اور یہی معاشرتی بے اعتنائی ایک کمزور نقطہ تھا، ایک نقص تھا، انھوں نے ہمت کی، میدان عمل میں اترے؛ ہرجگہ حاضر ہوئے ہر مقام پر بات کی، سب سے اصرار کیا، تھکاوٹ قبول نہیں کی، تا کہ یہ مسئلہ سب کے لئے حل ہوجائے۔ تفسیر کا قضیہ بھی ایسا ہے، مہدویت کا مسئلہ بھی اور دیگر قضایا بھی ایسے ہی ہیں جن کو جناب قرائتی نے سنبھالا ہے۔ یہ ایک نکتہ ہے ہمارے عزیز اور محترم آقائے قرائتی کے کاموں میں۔دوسرا نکتہ جس کی اہمیت پہلے نکتے سے کہیں بڑھ کر ہے، ان خلوص ہے۔ یہی صفا و خلوص بھی ان کی کامیابیوں کا سبب ہے۔ خدائے متعال خالص نیتوں کا ساتھ دیتا ہے؛ خلوص نیت ان کاموں کی پیشرفت میں عجیب اثر رکھتا ہے جو اس نیت سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے؛ بہت اہم ہے۔ میں نے یہ اس لئے عرض نہیں کیا کہ اب ہم کسی کی تجلیل کریں اور کسی کو خراج تحسین پیش کریں اور کسی کو بڑا بنا کر پیش کریں۔ ان چیزوں کی نہ تو آقائے قرائتی کو ضرورت ہے اور نہ ہی وہ ان چیزوں کی توقع رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم ان چیزوں کے درپے ہوتے ہیں؛ ہم چاہتے ہیں کہ کام کی یہ کیفیت ہمارے لئے، ہم سب کے لئے، خاص طور پر ہم طلبہ کے لئے ـ نمونہ عمل قرار پائے؛ یعنی ہم اسی طرح عمل کریں؛ نہ یہ کہ ہم بھی یہی کام کریں؛ بلکہ اس طرح کام کریں کہ خلاؤں اور خالی جگہوں کا سراغ لگائیں، ایسی چیزوں کو ڈھونڈیں جن کی ہمیں ضرورت ہے انہیں پا لیں۔ ہر کسی کا اپنا ذوق ہے، ہر کسی کا اپنا استعداد ہے، ظرفیت و صلاحیت ہے، ان ظرفیتوں سے استفادہ ہو، یہ پہلی بات۔دوسری بات یہ ہے کہ کام کو استمرار بخشیں اور اس کا پیچھا نہ چھوڑیں۔ کہ میں یہیں جناب قرائتی اور ان کے رفقائے کار سے چاہتا ہوں کہ جو کام انھوں نے شروع کئے ہیں انہیں مطلقاً ترک نہ کریں؛ ان کاموں کو جاری رکھنا چاہئے، ان کی پیروی ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی کام شروع کریں اور جب بھی اس کی برکتیں اور ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں، خوشیاں منائیں، خوشنود ہوجائیں، خدا کا شکر بھی کریں، لیکن ساتھ بے نیازی اور عدم ضرورت اور سیری بھی محسوس ہو؛ نہیں، اس کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ ہمیں امید کہ انشاء اللہ خداوند ان کی اور آپ سب بہنوں اور بھائیوں کی مدد فرمائے، طول عمر عنایت فرمائے، سلامتی عنایت فرمائے تا کہ اپنے کاموں کو انجام تک پہنچا سکیں؛ یہ اہم ہیں۔ مہدویت کا مسئلہ مہدویت کا مسئلہ ـ ان دنوں جو نصف شعبان اور عظیم اسلامی بلکہ انسانی عید کی آمد آمد ہے ـ ان ایام سے زیادہ تناسب رکھتا ہے۔ اتنا ہی عرض کروں کہ مہدویت کا مسئلہ اعلی دینی معارف کے حلقے اور دورانئے میں چند اہم بنیادی مسائل میں سے ایک ہے؛ مثلاً مسئلہ نبوت کی طرح، مسئلہ مہدویت کی اہمیت کو اسی حد میں قرار دینا چاہئے؛ کیوں؟ کیونکہ وہ چیز جس کی بشارت مہدویت سے ملتی ہے، وہی چیز ہے جس کی خاطر تمام بعثتیں انجام پائیں اور تمام انبیائے الہی (ع) آئے اور وہ بشارت ایک توحیدی دنیا کا قیام ہے جو عدل کی بنیادوں پر استوار ہو اور اس میں ان تمام صلاحیتوں اور ظرفیتوں کو بروئے کار لانا ممکن ہو جو خداوند متعال نے انسان کے وجود میں ودیعت رکھی ہیں؛ ایک ایسا زمانہ ہے حضرت مہدی سلام اللَّہ عليہ و عَجّل اللَّہ تعالى فَرَجَہ کا زمانہ۔ توحیدی معاشرے کا زمانہ ہے، توحید کی حاکمیت کا زمانہ ہے، انسانوں کی زندگی کے تمام شعبوں پر معنویت اور دین کی حقیقی حاکمیت کا زمانہ ہے اور عدل کے قیام کا زمانہ ہے بمعنی کامل و جامع معانی میں۔ انبیاء (ع) اسی کے لئے آئے۔ ہم نے بار بار عرض کیا ہے کہ وہ تمام قدم جو بنی نوع انسان نے کئی صدیوں کے دوران انبیاء (ع) کی تعلیمات کے سائے میں اٹھائے ہیں اس عریض اور چوڑی اور پکی شاہراہ کی طرف جارہے ہیں جو حضرت مہدی عَجّل اللَّہ تعالى فَرَجَہ الشَّریف کے دور میں بلند اہداف کی طرف تعمیر کی گئی ہے جس پر بنی نوع انسان گامزن ہوگا۔ جس طرح کہ انسانوں کی ایک جماعت پہاڑیوں اور گھاٹیوں، دشوار گزار راستوں اور دلدلوں سے بھری وادیوں اور کانٹے دار راستوں سے بعض افراد کی راہنمائی میں چل رہے ہیں اور مرکزی شاہراہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جب وہ مرکزی شاہراہ تک پہنچتے ہیں، تو مزید راستہ کھلا ہے؛ صراط مستقیم واضح اور روشن ہے؛ اس پر چلنا آسان ہے، آسانی سے اس راستے پر قدم اٹھاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب وہ مرکزی سڑک تک پہنچیں تو وہیں ٹہر جائیں گے؛ اس کے بعد در حقیقت بلند الہی اہداف کی طرف حرکت کا آغاز ہوتا ہے؛ کیونکہ انسان کی قابلیتیں لامتناہی اور نہ ختم ہونے والی ہیں۔ گذشتہ تمام صدیوں کے دوران انسان ٹیڑھے راستوں، بھول بھلیوں، دشوار، مشکل اور سخت راستوں سے گذرتے ہوئے مختلف النوع رکاوٹوں سے ٹکرا ٹکرا کر رنجور جسم، مجروح اور زخم آلود پیروں سے ان راستوں کے بیچ قدم اٹھاتا رہا ہے تاکہ مرکزی شاہراہ تک پہنچ سکے۔ یہ مرکزی شاہراہ زمانہ ظہور ہی ہے کہ اصولی طور پر ایک لحاظ سے بنی نوع انسان کی حرکت وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ اگر مہدویت نہ ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء (ع) کی تمام کوششیں، تمام دعوتیں، تمام بعثتیں، جان و روح کو تھکادینے والی زحمتیں، یہ سب بے سود ہوں اور رائگاں جائیں، اور بے اثر رہیں۔ چنانچہ مہدویت کا مسئلہ ایک اصلی اور بنیادی مسئلہ ہے؛ اصلی ترین الہی معارف میں سے ایک ہے۔ لہذا تقریباً تمام الہی ادیان میں بھی ـ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ـ ایک چیز موجود ہے جس کا حقیقی مفہوم مہدویت ہی ہے؛ تاہم ان ادیان میں یہ مفہوم تحریف کا شکار ہوا ہے، اس کی شکلیں مبہم ہیں، جو صحیح طور پر روشن نہیں ہیں اور معلوم نہیں ہے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ مسئلہ مہدویت اسلام میں بھی مُسَلَّمات میں سے ہے؛ یعنی یہ مسئلہ شیعہ کے لئے مخصوص نہیں ہے؛ تمام اسلامی مذاہب اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ دنیا کی انتہا پر حضرت مہدی عَجّل اللَّہ تعالى فَرَجَہ الشَّریف کے ہاتھوں حق و عدل کی حکومت قائم ہوگی۔ مختلف ذرائع اور طُرُق سے متعدد معتبر روایات مختلف مذاہب کے منابع و مآخذ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہیں لہذا اس میں کوئی شک و تردد کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم شیعہ مذہب کا امتیاز اس حقیقت میں ہے کہ یہاں مہدویت کا مسئلہ ایک مبہم مسئلہ نہیں ہے؛ ایک پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ناقابل فہم ہو؛ ایک واضح اور روشن مسئلہ ہے، اس کا واضح مصداق موجود ہے اور ہم آپ (عج) کو پہچانتے ہیں، ان کی خصوصیات سے واقف ہیں، ان کے آباء و اجداد کو پہچانتے ہیں، ان کے خاندان کو جانتے ہیں، ان کی ولادت کو جانتے ہیں، اور ان کی ولادت کی تفصیلات سے باخبر ہیں۔ اس تعارف میں بھی صرف شیعہ روایات میدان میں نہیں آتیں بلکہ غیر شیعہ منابع سے بھی روایات موجود ہیں اور یہی روایات اس تعارف کو ہمارے لئے آسان اور روشن کردیتی ہیں اور دوسرے مذاہب کے علماء اور پیروکاروں کو بھی توجہ دینی چاہئے اور غور کرنا چاہئے تا کہ اس روشن حقیقت کا ادراک کرسکیں۔ لہذا اس مسئلے کی اہمیت کی سطح اتنی بلند ہے اور ہم پر دوسروں سے کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مسئلے کی طرف توجہ دیں اور اس پر بحث کریں اور اس مسئلے پر دقیق، غائرانہ اور مضبوط و مدلل کام انجام دیا جائے۔ انتظار کا مسئلہ بھی تو مہدویت کا جداناپذیر جزء ہے، فہمِ دین اور اسلام کے اعلی اہداف کی جانب اسلامی امت کی بنیادی، سماجی اور عمومی تحریک کی شناخت و ادراک کی کلیدی اصطلاحات (Keywords) میں سے ہے؛ انتظار یعنی خواہش و رجحان یعنی تاک میں رہنا ایسی حقیقت کے جو قطعی اور حتمی ہے؛ یہ انتظار کے معنی ہیں۔ انتظار یعنی ایک قطعی اور حتمی مستقبل؛ بالخصوص ایک حیّ و حاضر موجود کا انتظار؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی کہہ دے "کہ کسی کی ولادت ہوگی، کوئی معرض وجود میں آئے گا" نہیں، ایک ایسے امام ہیں جو موجود ہیں، حاضر ہیں، لوگوں کے بیچ رہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ لوگ امام زمانہ (ع) کو دیکھتے ہیں لیکن انہیں نہیں پہچانتے۔ بعض روایت میں آپ (عج) کو حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ بھائی انہیں دیکھ رہے تھے وہ بھائیوں کے درمیان تھے، ان کے ساتھ تھے، ان ہی کے فرش پر چلتے تھے، لیکن وہ انہیں پہچان نہیں رہے تھے۔ ایک ایسی روشن حقیقت جو واضح بھی ہے اور محرک بھی ہی انتظار کی مدد کرتی ہے۔ بنی نوع انسان کو اس انتظار کی ضرورت ہی، امت اسلامی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ انتظار انسان پر فرا


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مومن کی بیداری اور ہوشیاری
وہ احادیث جو حضرت معصومہ (س) سے منقول ہیں
جواں نسل اصلاح اور ہدایت کی روشن قندیل بنے
نہ اُنس و محبت ، نہ شوہر اور نہ
خدا کی معرفت اور پہچان
حضرت علی علیه السلام کی خلافت حدیث کی روشنی میں
خطبات امام حسین علیہ السلام ( شہادت یا واقعیت کا ...
نور عظمت حق
ا سلامی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات
بعثت رسول کیوں؟

 
user comment