مہ (ع) کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جا سکتا ھے:
پھلا طریقہ:
ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشهور ھیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “
(تم دونوں امام هو اور دونوں شفاعت کرنے والے هو)
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”ہذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة “
(یہ خود بھی امام ھیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی اورنو اماموں کے باپ ھیں)
اور اس طرح بہت سی روایات موجود ھیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ھیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھے۔
دوسرا طریقہ:
گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اور چونکہ گذشتہ امام کا بیان، حجت اور دلیل هوتا ھے اور اس پر یقین رکھنا ضروری ھے جبکہ ھم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ھیں۔
اب رھا ائمہ (ع) کا بارہ هونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ھیں اور ھمارے لئے یھی کافی ھے کہ اس مشهور ومعروف حدیث نبوی کو مشهور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش“
(دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ھے:
”ان ہذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“
(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نھیں هوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) هوں گے)
اور اگر ھم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے صحیح مانا ھے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کر رھی ھے:
۱۔ دین کا قیامت تک باقی رہنا۔
۲۔ قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ھی هوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار هوں گے۔
اور یہ بات واضح ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نھیں ھیں جو شروع کی چار صدیوں میں هوئے ھیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ھے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نھیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی خلیفہ نھیں هوسکتے۔
تو پھر انکے علاوہ هونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ھیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے اور ان کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع) کے پاس جایا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)
source : tebyan