بہت سے موضوعات كی خوش نصیبی یہ ہے كہ علماء اور دانشوروں كی محفلوں میں زیر بحث آتے ہیں مگر عوام اسے چھوتے بھی نہیں دنیا كے زیر بحث موضوعات میں كچھ ایسے دل كش و خوش نصیب موضوع ہیں جو اہل دانش و بینش كی محفلوں میں بار پاتے اور عالموں كے لبوں تك آتے ہیں۔ كچھ موضوع اس درجے تك نہیں پہنچتے وہ ہر كس و ناكس كے لئے نقل محفل ہوتے اور ہر شخص اس پر طبع آزمائی كرتا ہے، نتیجہ یہ كہ ان كی شكل و صورت بگڑ جاتی ہے اور محققین كیلئے نہ صرف دشواری بلكہ لغزش فكر كا باعث ہوتے ہیں۔
"روح و بدن " اسی طرح "خدا اور كائنات"، ان موضوعات میں ہیں جن كے بارے میں ہر شخص نے اپنے طور پر كوئی نہ كوئی نظریہ قائم كر ركھا ہے۔ البتہ اس عمل كے كچھ نہ كچھ وجوہات ہیں اور ان كا سبب محض اتفاق اور خوش نصیبی ہی نہیں ہے۔
فطری طور پر انسان سب سے پہلا سوٴال كرتا ہے۔ میں كون ہوں؟ جس دنیا میں ہوں وہ كیا ہے؟ نتیجتاً ہر ایك اپنے لئے ایك تسلّی بخش جواب ڈھونڈھ لیتا ہے، یہی وجہ ہے كہ ہر ایك كائنات اور اپنی ذات كے بارے میں ایك خاص تصّور كا حامل ہوتا ہے۔
روح اور بدن ایسا موضوع ہے جس كے بارے میں ہر ایك نے بچپن میں اپنی ماں، دائی اور دادی… اس كے بعد واعظ اور شاعر كی زبان سے كچھ نہ كچھ ضرور سنا ہے، اس لحاظ سے اس كا ذہن پہلے ہی سے تیار ہوتا اور كسی نہ كسی حد تك خاص نظریہ كی طرف رحجان بھی محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اسی بنا پر ممكن ہے كچھ لوگ مذكورہ عنوان كو دیكھتے ہی اس پر بات كو سننے كے لئے تیار ہوجائیں كہ:
- روح وہ نامرئی مخلوق ہے جو كسی نہ كسی مصلحت كی بنا پر بدن كے پردے میں مخفی ہے۔ یا اپنے چہرے پر بدن كا نقلی چہرا لگائے ہوئے ہے۔
یا اس سے بھی زیادہ گئی گذری بات یہ ہے كہ:
- روح وہ جن یا دیو ہے جو بدن كے محسوس حصّے سے دكھائی دیتا ہے۔
- بدن ظاہری اور عاریتی پردے كے سوا اور كچھ نہیں ہے اور روح كی نامرئی انگلیاں ہیں جو اس ظاہری پردے كے پیچھے كام كرتی ہیں۔ یہ بھی مكن ہے كہ جن لوگوں نے شعر و شاعری كی زبان سے روح كے بارے میں كچھ سنا ہو، ان كے ذہن فوراً یہ سننے كے لئے آمادہ ہوجائیں كہ:
- روح ایك ملكوتی پرندہ ہے، جس كے لئے چند وجوہ كی بنا پر بدن كا وقتی قفس تیار كیا گیا ہے۔
- وہ سدرہ نشین شاہباز ہے جو خلافِ طبع بدن كے ایك گوشہ میں سكونت اختیار كرتا ہے۔
- وہ بادشاہ ہے جس نے قصر بدن كو اپنے شاہی قصر كے لئے منتخب كیا ہے۔اور كبھی كبھی اپنے سے زیادہ مزین و آراستہ كرنے میں مصروف رہتا ہے۔
ہماری مراد شعر و شاعری كی زبان پر تنقید نہیں ہے، اس لئے كہ اس كی زبان اور ہو بھی كیا سكتی ہے، شعر و شاعری یا وعظ و خطابت كی زبان علم و فلسفے كی زبان سے مماثلت نہیں ركھ سكتی، كیونكہ ان كے مقاصدعلم وفلسفہ كے مقاصد سے مختلف ہیں۔ ہر فن كی اس فن سے مخصوص ایك چابی ہوتی ہے اور یہ بات بدیہی ہے كہ وہ چابی صرف اسی تالے كے لئے قابل استعمال ہوتی ہے، جس كے لئے بنائی گئی ہو۔
ہمیں ایسے افراد بھی ملتے ہیں جن كی شخصیت مركب ہوتی ہے۔ یعنی وہ بیك وقت شاعر بھی ہوتے ہیں اور فلسفی بھی۔ ان كی بات كا انداز یكساں نہیں ہوتا ہے كیونكہ خود فلسفہ و شاعری كے انداز جدا جدا ہیں۔
مثال كے طور پر دیكھئے روح اور بدن اور ان كے باہمی تعلق كے بارے میں ابوعلی سینا كی فلسفی كتابوں "الشفا" اور "الاشارات و التبنیھات" كی زبان اور اسی موضوع پر ان كے قصیدہٴ عینیہ كی زبان تقابل كی نظر سے ملاحظہ كیجئے۔
مطلع: ھبطت الیك من المحل الارفع ورقاء ذات تعزز و تمنّع
مقصد یہ ہے كہ علم و فلسفہ كی زبان اور شعر یا وعظ و خطابت كی زبان میں امتیاز ملحوظ ركھنا چاہیے تاكہ منكر افراد اور مادیات پسند لوگوں كی طرح غلطیوں كے شكار اور بددلی میں مبتلا نہ ہوں۔
درحقیقت فلاسفہ كے افكار و نظریات میں بھی كبھی كبھی وہ جھلك دكھائی دیتی ہے جو كم و بیش شعر و شاعری كے پیرائے اور زبان سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ جیسے افلاطون سے منسوب مشہود نظریہ، جس میں وہ كہتا ہے: روح ایك قدیم جوہر ہے، جو بدن سے پہلے موجود ہے، جب بدن كا ڈھانچہ تیار ہوجاتا ہے اس وقت یہ اپنے مرتبہ سے اتركر (تنزّل) بدن سے (تعلق) ملحق ہوتی ہے۔
source : tebyan