اس پر شور دنیا میں نوع بشر برابر حرکت و جنبش میں ھے ۔ انسان مسلسل مصائب و مشکلات کے موجوں میں گِھر کر اپنے جسم و جان پر مشقتوں اور دشواریوں کو محض اس لئے برداشت کرتا ھے کہ گلزار زندگی سے امیدوں کے پھول یکے بعد دیگرے چن سکے اور جب تک انسان کا رشتہ ٴ حیات مقراض موت سے منقطع نہ ھو جائے اور امیدوں کی کھڑکی بند نہ ھو جائے وہ اپنی کوششوں سے باز نھیں آتا اور نہ جستجوئے توفیق سے دست بردار ھوتا ھے ۔ مختصر یہ کہ یھی چراغ امید ھے جو صاحب آرزو کی آرزو کو فروزاں رکھتا ھے ۔ اور یھی امیدیں زندگی کی تمام تلخیوں کو شیریں وخوش گوار بناتی ھیں ۔
کوئی امید دولت و ثروت میں شر شار رھتا ھے اور اس کے حصول کے لئے انتھک کوشش کرتا ھے اور کوئی عزت و شھرت کی تلاش میں حیران و سر گرداں رھتا ھے اور اس کے حصول کے لئے دیوانہ وار مسلسل سعی و کوشش میں مشغول رھتا ھے کیونکہ ھر فرد کی خواھشات اس کی جسمانی اور روحی تکامل سے وابستہ ھوتی ھیں ۔ اور ھر شخص کا آئیڈیا و طرز تفکر حصول مقصد میں الگ الگ ھوتا ھے لیکن اس نکتہ کو فراموش نھیں کرنا چاھئے کہ یہ ضرورتیں اور خواھشیں اسی وقت اسباب خوش بختی فراھم کرتی ھیں جب یہ اس کی روحانی ضرورتوں کے مطابق ھوتی ھیں اور احتیاجات فکری کو سکون بخشتی ھوں ۔ سطح معرفت کو اوج ارتقاء تک پھونچاتی ھوں اور چراغ فروزاں کی طرح راہ زندگی کو روشن کر کے بد بختی کے ھول انگیز تاریکی سے نجات دلاتی ھوں ۔
البتہ ان غرائز میں سے کبھی کوئی ایک غریزہ مثلا حرص و طلب وغیرہ طغیان و سر کشی کر کے آدمی کی بد بختی کی جڑوں کو مضبوط کر دیتا ھے ۔ انھیں میں سے ایک غریزہ حسد بھی ھے ۔ حسد حاسد کو آغوش آسائش میں دیکھنا گوارہ نھیں کرتا بلکہ حاسد دوسروں کی نعمتوں کو دیکہ کر جلتا ھے بقول سقراط بو الھوس اور حاسد دوسروں کے موٹا پے کو دیکہ کر لاغر ھوتا رھتا ھے ۔
حاسد وہ بیچارہ شخص ھے جو اپنی پوری زندگی ایک ایسی امید میں صرف کر دیتا ھے جو اس کے لئے نا قابل حصول ھے اور دوسروں کو حاصل ھے ۔ پس وہ اسی پر حسرت و آہ کرتا ھے اور اسکی تمنا ھوتی ھے کہ تمام شقاوت و بد بختی دوسروں کے نصیب میں ھو جائے اور اپنے تمام حیلوں کو اس لئے صرف کرتا ھے کہ دوسروں کی سعادت ان سے سلب ھو جائے ۔
ایک مشھور رائٹر لکھتا ھے: ھمارے نفوس صحراء میں اس شھر کے مانند ھیں جس میں نہ کوئی قلعہ ھو نہ حصار جس کی سعادت و آسائش کوچور لوٹ رھے ھوں ۔ معمولی سی نسیم ھمارے دل کے بے پایاںسمندر کو مضطرب و متلاطم کر دیتی ھے ۔ خواھشات کے غیر محدود دشمن ھمارے نفوس کے گھروں میں داخل ھو کر امر و نھی کرتے ھیں ۔ ھر جاھل اس بات کو جانتا ھے کہ اگر اس کے سر میں درد ھونے لگے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ھے لیکن جس میں حسد کی بیماری ھے وہ بیچارہ جلتا رھتا ھے ۔ اور کوئی اس کا علاج نھیں کر سکتا ۔
ھر حاسد کا ھدف دوسروں کی نعمت ھے اور وہ اپنے مختلف دسیسہ کاریوں اور حیلوں سے ان کی نعمتوں کو چھین لینے کی کوشش کرتا ھے! اور معمولی توجہ کے بغیر وہ اپنے نا پاک احساسات کا شکار ھو جاتا ھے ۔ اسی لئے وہ محسودین پر جھوٹ و اتھام کے پل باندہ کر اپنی خباثت نفس کا اظھار کرتا ھے ۔ اور اگر اس طرح اس کا مقصد پورا نہ ھو تو اس کے لئے بعید نھیں ھے کہ وہ لوگوں کے حریم آزادی پر حملہ آور ھو جائے ۔ اور اپنی خواھشات کے زیر اثر لوگوں کی روحانیت کو شکست و ریز کر دے ۔ لیکن کیا یہ انسان کی واقعی خواھش ھو سکتی ھے ؟ اور کیا یہ انسان کی زندگی کا واقعی مقصد ھے؟
حاسد نہ صرف یہ کہ دائرھٴ انسانیت سے خارج ھے بلکہ وہ حیوان سے بھی بد تر ھے ۔ کیونکہ جو شخص دوسروں کے آلام و مصائب میں غور و فکر نہ کر سکے وھی انسانیت کا مصداق نھیں ھے چہ جائیکہ جو شخص دوسروں کے آلام و مصائب پر مسرور و خندہ زن ھو اور اس کو اپنی کامیابی سمجھتا ھو ! اس کو موجودات کی کس فھرست میں رکھا جائے گا؟
source : tebyan