بقلم: افتخار علی جعفری
ماہ رمضان خود شناسی کا مہینہ ہے البتہ خود شناسی اور معرفت نفس ایک ایسا عمل ہے جو دائمی اور ہمیشگی ہے ماہ رمضان سے مخصوص نہیں ہے۔ کبھی بھی انسان کو خود شناسی سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ معرفت نفس کا مدرسہ ایک مدرسہ ہے جس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
خود شناسی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر یقین پیدا کریں کہ ہم انسان ہیں حیوان نہیں ہیں نبات نہیں ہیں جماد نہیں ہیں۔ لیکن ان تمام عوالم کے خواص ہمارے اندر موجود ہیں۔ اور انسان گزشتہ عوالم کی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔
اتزعم انک جرم صغیر وفیک انطویٰ العالم الاکبر
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم ایک چھوٹا سا موجود ہو جبکہ تمہارے اندر ایک عالم اکبر رکھ دیا گیا ہے۔
قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں انسان کا وجود چار مراتب؛ الہی، عقلی، مثالی اور مادی کا مالک ہے۔( تفسیر انسان بہ انسان، ص ۱۶۵)
’’تویی کہ مظھر ذات و صفات الھی
بہ ملک صورت و بہ معنی، تو عرش رحمانی
کتاب جامع آیات کائنات تویی
از آن کہ نسخہ لاریب فیہ را جانی
اگر بہ کنہ کمال حقیقت برسی
زخویشتن شنوی آن صدای سبحانی‘‘
ترجمہ: ’’تم وہ ہو جو اللہ کی ذات و صفات کا مظہر ہو، صورت میں تم فرشتہ اور حقیقت میں عرش رحمانی ہو۔ تم کائنات کی آیتوں کی جامع کتاب ہو اور یہ کہ تم لاریب فیہ کا نسخہ ہو۔
اگر تم اپنی حقیقت کی کنہ اور گہرائی تک پہنچ جاو تو تم اپنے باطن سے اللہ سبحانہ کی آواز سنو گے‘‘۔
روح الہی جو انسان کی انسانیت کا معیار ہے، علوم و معارف کی جامع کتاب اور ایسی بے پناہ صلاحیتوں کا منبع ہے کہ اگر انسان کے لیے وہ صلاحیتیں بالقوہ سے بالفعل میں تبدیل ہو جائیں اور ان علوم و معارف کا دروازہ اس پر کھل جائے تو انسان مادی و معنوی کمالات کے مراتب و مدارج کو طے کرتا ہوا عرش رحمانی تک پہنچ جائے گا اور اس کی زبان کن فیکون کا کام کرے گی۔
اللہ نے اس اشرف المخلوقات میں اپنی روح قرار دے کر تمام کمالات اور خوبیوں کو حاصل کرنے کا مستعد بنا دیا۔ اور اس کے بعد ارادے کی عظیم نعمت سے نواز کر انتخاب کا اختیار دے دیا۔ جب انتخاب کا اختیار دیا تو اچھے اور برے کی پہچان بھی دے دی، سیدھا اور غلط راستہ بھی دکھلا دیا اور دونوں راستوں کا انجام بھی واضح کر دیا۔
اب یہ وہ منزل ہے جہاں سے خود سازی اور تکامل کی بات شروع ہوتی ہے۔ خودسازی کی پہلی منزل یہ ہے کہ انسان اس راستے کا انتخاب کرے جو رضائے الہی کی طرف جا رہا ہے نہ غضب الہی کی طرف، جو بہشت و جنت کا راستہ ہے نہ دوزخ و جہنم کا۔ یا دوسرے لفظوں میں جو اس کی فطرت کا راستہ ہے یا شیطنت کا۔
خودسازی کے لیے سب سے پہلے انسان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس نے کون سا راستہ اختیار کیا ہے فطرت کا یا شیطنت کا۔ اگر فطرت کے راستے پر ہے تو پھر اسے اس راہ میں مزید ترقی حاصل کرنے اور کمال کے مدارج طے کرنے کے لیے دین اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ لیکن اگر خلاف فطرت شیطنت کے راستے پر چل رہا ہے تو پھر اس سے ہماری کوئی بحث نہیں ہے۔
ماہ رمضان اس انسان کے لیے خود سازی، معنوی کمالات میں ترقی اور دسترخوان الہی پر مہمانی کا مہینہ ہے جو راہ حق پر گامزن ہے۔ لیکن جس شخص نے ابھی تک اس راستے کا انتخاب ہی نہیں کیا ہے جس پر چل کر نیکیوں کا ثواب ملتا ہے نمازیں روزے اور دیگر اعمال خیر اس میں ایندھن کا کام کرتے ہیں اور اس کی گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو ایسے شخص کے لیے روزہ صرف فاقہ اور نمازیں صرف ورزش کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا ماہ مبارک کے پہلے دن خود کو پہنچانا ضروری ہے کہ ہم کس منزل پر ہیں؟ کس راستے پرگامزن ہیں؟ کس سمت جا رہے ہیں؟ جب یہ معرفت اور خودشناسی حاصل ہوجائے گی تو اس وقت یہ نمازیں اور روزے ہمارے لیے مفید فائدہ ہوں گے اور ان سے ہماری زندگی میں تبدیلی واقع ہو گی اور ہمارا آج گزرے کل سے بہتر ہو گا۔
source : abna