علم و ایمان کی جانشینی
علم و ایمان باہم متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کاباعث بنتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔
جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم کا کیا کردار ہے اور ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے تو ایسے سوال اور جواب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ بات واضح ہے کہ علم ایمان کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ممکن نہیں کہ علم توانائی اورروشنی کے ساتھ ساتھ عشق و امید بھی عطا کرے اورعلم ہماری خواہشات کی سطح بلند کرے اور علاوہ اس کے کہ اہداف و مقاصد کے حصول میں مدد دے۔ وہ خواہشات عقائد اور مقاصد ہم سے لے طبیعت جبلت کے تحت جن کا محور ایک شخص کی ذات اور خود غرضی ہوتی ہے اور ان کے بدلے ہمیں ایسے عقائد و اہداف عطا کرے جن کا محدود روحانی و معنوی عشق و محبت ہو علم کوئی ایسا آلہ نہیں جو ہماری ماہیت اور جوہر کو بدل سکے اسی طرح ایمان بھی علم کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ایمان ہمیں جہان طبیعت کی پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔ اس پر حاکم قوانین پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ہمیں ہماری پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔
تاریخی تجربات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ علم و ایمان کی جدائی سے انسانی معاشرے نے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایمان کی شناخت علم ہی کے سائے میں ہونی چاہئے۔ ایمان علم کی روشنی میں خرافات سے دور رہتا ہے۔
اگر علم ایمان سے دور ہو جائے تو پھر ایمان جمود اور اندھے تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ہی گرد بڑی تیزی سے گھومتا رہتا ہے اور پھر کسی منزل تک پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ جہاں علم و معرفت نہ ہو وہاں نادان مومنوں کا ایمان چالاک و عیار منافقوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے۔ اس کی مثال صدر اسلام میں خوارج کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مختلف صورتوں میں جابجا مل جاتی ہے۔ ایمان سے خالی علم کسی پاگل کے ہاتھ میں تلوار کی مانند ہے اور ایسا علم نصف شب چور کے ہاتھ میں چراغ کی مانند ہے تاکہ وہ آسانی سے اچھے سے اچھا مال لے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تہی از ایمان عالم اور کل ایمان سے خالی جاہل انسان کے رویے اور کردار میں طبیعت و ماہیت کے اعتبار سے ذرہ بھر فرق نہیں ہے۔ کل کے فرعون چنگیز اور آتیلا اور آج کے چرچل جانسن نکسن اور سٹالن جیسے لوگوں میں کیا فرق ہے؟
یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا علم نور اور طاقت نہیں ہے؟ علم کا نور اور طاقت ہونا فقط بیرونی دنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ علم ہمارے اندر کی دنیا بھی ہمیں دکھاتا ہے اور اسے ہم پر واضح کرتا ہے بنا برایں ہمیں اپنے اندر کی دنیا تبدیل کرنے کی طاقت بھی عطا کرتا ہے لہذا علم دنیا کی بھی تعمیر کر سکتا ہے اور ایمان کا کام (انسان سازی) بھی کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ علم کی قدرت و توانائی ایک اوزار کی سی طاقت و توانائی ہے یعنی اس کا انحصار انسان کے ارادے اورحکم پر ہے۔ انسان کسی بھی میدان میں کوئی کام کرنا چاہے تو علم کے آلہ کی مدد سے بہتر انجام دے سکتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مقاصد کے حصول میں علم انسان کا بہترین مددگار ہے۔
البتہ بحث یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ انسان آلات کے استعمال سے پہلے مقصد پیش نظر رکھتا ہے کیوں کہ آلات ہمیشہ مقصد کے حصول کے لئے خدمت پر مامور ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ مقاصد کہاں سے پیدا ہوئے ہیں؟
چونکہ انسان طبیعی لحاظ سے حیوان ہے اور اکتسابی اعتبار سے انسان یعنی انسانی صلاحیتوں کو ایمان ہی کے سائے میں تدریجاً پروان چڑھنا چاہئے۔ انسان اپنی طبیعت کے زیر اثر مادی ذاتی حیوانی اور طبیعی مقاصد کی طرف خود بخود آگے بڑھتا ہے۔ آلات کو اسی راہ میں استعمال کرتا ہے۔ لہذا ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو انسان کا مقصد و آلہ نہ ہو بلکہ انسان کو ایک آلہ کی طرح اپنی طرف حرکت دے۔ ایسی قوت چاہئے جو انسان کے اندر ایک دھماکہ کرے اور اس کی پوشیدہ صلاحتیوں کو بروئے کار لائے۔ ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو ضمیر میں انقلاب برپا کردے اور نئے نئے افق عطا کرے۔ یہ ایسے کام ہیں جو علم اور سائنس کے بس میں ہیں اور نہ ہی انسان و طبیعت پر حاکم قوانین کے کشف کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ البتہ انسانی روح میں بعض قدروں کے مقدس و گراں بہا ہونے سے یہ بات بن سکتی ہے اور ان قدروں کا تقدس انسان کے اعلیٰ میلانات و رجحانات سے پیدا ہوتا ہے اور خود یہ رجحانات بھی انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز تفکر کی پیدائش ہوتے ہیں ان میلانات کو کسی لیبارٹری یا قیاس و استدلال سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس خاص طرز فکر کے بارے میں آئندہ ہم وضاحت کریں گے یہ علم کی دسترس میں نہیں ہے۔قدیم اور جدید تاریخ بتاتی ہے کہ علم و ایمان کی جدائی نے کیا گل کھلائے ہیں۔ جہاں ایمان تھا اور علم نہ تھا وہاں انسان دوستانہ کوششیں ایسے امور پر صرف ہوئیں جن کا نتیجہ کچھ زیادہ ہے اور گاہے اچھا نہ نکلا یہ کوشش تعصب جمود اور کبھی نقصان دہ لڑائیوں کا باعث بنیں۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس طرح جہاں فقط علم اور ایمان نہ تھا جیسا کہ آج کل کے بعض معاشروں میں نظر آتا ہے ایسے میں تمام علمی طاقت صرف خود غرضی خود پرستی دھوکہ دہی دھونس عیاری و استحصال جیسے امو ر پر خرچ ہوئی۔
گذشتہ دو تین صدیوں کو سائنس پرستی اور ایمان سے فرار کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں بہت سے دانشوروں کی یہ رائے بنی کہ انسان کی تمام تر مشکلات کا حل سائنس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن تجربہ نے اس کے خلاف ثابت کیا اور آج دنیا میں کوئی دانشور ایسا نہیں جو انسان کے لئے ایمان کی کسی نہ کسی صورت کی ضرورت کا قائل نہ ہو اگرچہ یہ ایمان غیر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ بہر حال ماورائے سائنس کسی اور چیز کی ضرورت پر اب سب متفق ہیں۔
برٹرینڈرسل مادی رجحانات کے باوجود معترف ہے کہ
"ایسا کام جس میں صرف آمدن پیش نظر ہو اس کا نتیجہ زیادہ ثمر آور نہیں ہوتا۔ ایسے نتیجہ کے لئے کام اختیار کرنا چاہئے جس میں کسی ہدف مقصد اور فرد پر ایمان بھی مضمر ہو۔"( زنا شوئی وا خلاق )
آج مادہ پرست بھی اپنے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فلسفی اعتبار سے ہم مادہ پرست ہیں اور اخلاقی حوالے سے آئیڈیلسٹ (مثالی بے معنی) ہیں۔ یعنی فکری و نظری پہلو سے مادی ہیں اور عملی پہلو سے معنوی ہیں۔( جارج پویسٹر اصول معلوماتی فلسفہ)
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نظری و فکری اعتبار سے مادی ہو اور عملاً معنوی (مثالی و آئیڈیلسٹ)۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے جسے مادہ پرست ہی حل کر سکتے ہیں۔
جارج سارئن دنیا کا مشہور و معروف دانشور اور مقبول ترین کتاب "تاریخ سائنس" کا مصنف ہے۔ انسان کو انسان بنانے اور انسانیت کی بنیادوں پر بشری تعلقات استوار کرنے میں علم کی نارسائی اور انسان کے لئے ایمان کی اشد و فوری ضرورت کو یوں بیان کرتا ہے:
"علم نے بعض میدانوں میں عجیب و غریب اورعظیم ترقی کی ہے لیکن قومی و بین الاقوامی سیاست اور انسانی روابط جیسے میدان ابھی تک اسے منہ چڑا رہے ہیں۔"
جارج سارئن انسان کے لئے مذہبی و دینی ایمان کی ضرورت کا اعتراف کرتا ہے انسان کے لئے " آرٹ مذہب اور سائنس" کی مثلث کے ضروری ہونے پر گویا ہے کہ
"آرٹ حسن کو آشکار کرتا ہے اور یہی زندگی کی خوشی کا سبب بنتا ہے۔ دین محبت کا پیغمبر اور زندگی کی موسیقی ہے۔ سائنسی کا سروکار حق سچ اور عقل کے ساتھ ہے جو نوع بشر کی ہوشمندی کا باعث ہے ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہے۔ آرٹ بھی ضروری ہے دین بھی چاہئے اور سائنس کی ضرورت لازمی ہے زندگی کے لئے مطلق صورت میں سائنس کی ضرورت لازمی ہے لیکن تنہا سائنس کسی صورت بھی کافی نہیں ۔"( شش بال ص ۳۰۵)
source : tebyan