اسلامی قوانین دو بنیادوں پر استوار ھے ۔ان میں سے ایک ”کلمہ توحید ،،یعنی یکتا پرستی ھے جو تمام مسلمانوں کا شعار ھے۔ اور دوسرا ”توحید کلمہ ،،ھے جو تمام مسلمانوں کو وحدت و اتفاق اور اتحاد و یگانگی کی دعوت دیتا ھے اگر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلّم لوگوں کو یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے تو ان کو تفرقہ اور گروہ بازی سے بھی منع کرتے تھے ۔ اور ھمیشہ سے یہ آیت دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے پیش نظر رھی ھے :
اِنَّ ھَٰذِہ اُمَّتَکُم اُمَّةًوَاحِدةًوَاَنَا رَبَّکُم فَاعْبُدُون
(سورہ انبیاء ۹۲)”
بےشک یہ تمھاری امت ایک امت یعنی ایک دین کو ماننے والی ھے اور میں تمھارا پروردگار ھوں تم میری ھی عباد ت کرو ،،۔
بنا براین جو چیز بھی مسلمانوں کی وحدت کو نقصان پھونچائے، ان کے اتحاد کو درھم و برھم کرے ،ان کو مختلف گروھوں میں باٹے یا ان کے درمیان جو موجودہ شگاف ھے اس میں اضافہ کرے تو وہ ایک شیطانی فعل اور شیطانی نعرہ کھا جانے کا مستحق ھے ،جو جاھلوں یا اسلام سے ناواقف افراد کے منہ سے بلند ھوتا ھے ۔
دنیا کے مسلمان آٹھویں صدی ھجری تک انبیاء و اولیا اور صالحین امت کے بارے میں وحدت کلمہ رکھتے تھے ۔ وہ پیغمبر اسلام کی زیارت کے سفر کو مستحب جانتے تھے اور خود زیارت کو قربت کا ایک عمل سمجھتے تھے ۔ نیز اسلامی اساسوں اور پیغمبر اسلام کے آثار ، مثلاً خود آپ کی اور آپ کے فرزندوں اور صحابیوں کی قبر کی حفاظت پر بھت توجہ دیتے تھے ۔ اور اس راہ میں کسی کوشش سے دریغ نھیں کرتے تھے ۔ وہ مشاھد مقدسہ کو آباد رکھتے تھے اور اس طرح اپنی اسلامی ذمہ داریوں کو عملی جامہ پھناتے تھے ۔
پھلی بار آٹھویں صدی ھجری میں احمد ابن تیمیہ ( ولادت ۶۶۱ اور وفات ۷۲۸ ) نامی ایک شخص نے شام میں مسلمانوں کے درمیان پرچم مخالفت بلند کیا اور تمام مسلمانوں سے بغاوت کرتے ھوئے اس نے زیارت کے سفر کو حرام قرار دیا ۔ انبیاء وصالحین کی قبروں کی زیارت کو بدعت اور رسالت کے آثار کی حفاظت کو شرک قرار دیا ۔ البتہ اس شیطانی آواز کا اس وقت شام اور مصر کے بزرگ علماء اور دانشوروں نے گلا گھونٹ دیا اور ابن تیمیہ کا مسلک اور نظریہ رواج نہ پا سکا ۔
بسم االله الرحیم
لیکن بارھویں صدی ھجری میں ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد محمد ابن عبدالوھاب ( ولادت ۱۱۱۵ اور وفات ۱۲۰۷ ) نامی ایک شخص نے اس کے خبیث افکار کو دوبارہ زندگی دی اور ۱۱۶۰ میں خاندان محمد ابن سعود کے ساتھ رشتہ والحاق پیدا کیا۔ اس طرح یہ خبیث افکار نجد میں رائج ھوئے۔ اس مسلک کی نشر اشاعت کیلئے یہ لوگ عراقی ،اردنیٰ ،حجازی اور نجد کے اطراف میں مقیم قبائل کے ساتھ مسلسل خونی جنگ کرتے رھے ،نتیجہ میں توحید کے نام پر مسلمانوں کے ناموس اور پاکیزہ اقدار کی ھتک حرمت اور ان کے گھر بار کو آگ لگاتے اور ویران کرتے رھے ۔
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وھابی مسلک کو قابل دید عروج حاصل نہ ھو سکا یھاں تک ادھر آخری صدی میں برطانیہ کی مدد سے دوسری جنگ عظیم کے بعد آل سعود نجد و حجاز پر مسلّط ھو گئی ۔ اور یہ لوگ چند خود فروش اھل قلم کو خرید کر دوسروں کو گمراہ کرنے اوراس مسلک کو کہ جس کا مقصد ھی اسلام کی بنیادوں کومٹانے اور اسلامی آثار کو فنا کرنے اور نسل جدید کو گزشتہ نسلوں سے منقطع کرنے کے سوا کچہ اور نھیں ھے ،دور دراز علاقوں تک پھچانے میں کامیاب ھو گئے ۔اس راہ میں انھوں نے پٹرول ڈالر کی بنیاد پر کافی عروج حاصل کیا۔
لیکن باطل ایک ٹمٹماتا ھوا چراغ ھے اس کی تمام روشنی چند روزہ ھوتی ھے اور حق باقی رھنے والا ھے ۔ دوسرے لفظوں میں ”للباطل جولة و للحق دولة،،
اوراس بنا پر اھل سنّت اور تشیّع کی بھت سی شخصیتوں نے اس مسلک پر کھل کر تنقید کرتے ھوئے ابن تیمیہ کے افکار کو رد کیا ھے جن میں اکثریت اھل سنت حضرات کی ھے ۔
source : tebyan