پیغمبر اكرم (ص) اور ائمہ (ع) سے قرآن پر عمل كے سلسلہ میں مختلف تعبیرات پائی جاتی ہیں"اتّباع" "تمسّك" اور "حق تلاوت" جیسی تعبیر بھی قرآن پرعمل كے سلسلہ میں وارد ھوئی ہیں۔ ان میں سے بعض روایات كی طرف اشارہ كریں گے۔
پیغمبراسلام (ص) فرماتے ہیں: "اعملوا بالقرآن احلوا حلالہ وحرموا حرامہ ولاتكفروا بشی منہ" قرآن (اس كےدستورات) پر عمل كرو اس كے حلال كو حلال جانو اور اس كے حرام سے پرھیز كرو اور اس كی كسی بھی چیز كا انكار نہ كرو۔
دوسری روایت میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"یا حملۃ القران! اعملوا فان العالم من عمل بما علم و وافق عملہ علمہ و سیكون اقوام یحملون العلم لایجاوز تراقیھم، یخالف سریرتھم علانیۃ"
اے وہ لوگ جو قرآن كاعلم ركھتے ہیں! اس پر عمل كرو، چونكہ عالم وہ ہے جو اپنی معلومات پر عمل كرے اور اس كاعمل اس كے علم كے مطابق ھو۔ بھت جلد ایسے لوگ آئیں گے جن كا علم حلقوم سے نیچے ن ہیں اترے گا اور ان كا باطن ان كی ظاھری رفتار سے مخالف ھوگا۔
جب تك پیغمبر اسلام (ص)امت كے درمیان ت ہے لوگ مكلّف ت ہے كہ آنحضرت (ص) جس چیز كا امر كریں اس پرعمل كریں اور جس چیز سے منع كریں اس سے دوری اختیار كریں، چونكہ آپ احكام الھی كو بیان فرماتے ت ہے اور آپ كا كلام، كلام وحی تھا اور اپنے بعد امت كو بھی قرآن وعترت كی طرف رجوع كرنے كا حكم دیا اس كی بھی علت یہ تھی كہ چونكہ عترت قرآن كے علاوہ كچھ اور ن ہیں بیان كرتے ت ہے وہ بھی كلام خداكی تفسیر و تبیین فرماتے تهے۔
امام علی علیہ السلام بھت خوبصورت تعبیر كے ذریعہ فرماتے ہیں: "قرآن كو چاھيے كہ اندر كے لباس كی طرح ھمیشہ انسان كے ساتھ ر ہے "البتہ اس خصوصیت كے افراد كم نظر آتے ہیں: "طوبی للزاھدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة، اولئك قوم اتخذوا القرآن شعاراً "
ز ہے نصیب زاھدان دنیا! جو آخرت كے خواھاں ہیں وہ ایسی قوم ہیں جو قرآن كو اپنے لئے اندر كے لباس كی طرح قراردیتے ہیں۔ قرآن پر عمل كے سلسلہ میں جو الفاظ قرآن مجید میں ذكر ھوئے ہیں ان میں سے ایك لفظ "حق تلاوت" ہے "الذین آتیناھم الكتاب یتلونہ حق تلاوتہ اولئك یومنون بہ ومن یكفر بہ فاولئك ھم الخاسرون" اور جن لوگوں كوھم نے قرآن دیا ہے وہ اس كی باقاعدہ تلاوت كرتے ہیں اور ان ہیں كااس پرایمان بھی ہے اور جو اس كا انكار كرے گا اس كا شمار خسارہ والوں میں ھوگا ۔
source : tebyan