اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

امام جعفر صادق کے ہاں ادب کي تعريف

امام جعفر صادق کي مذہبي ثقافت کي قوت کا راز اس ميں تھا کہ اسکے چار ارکان ميں سے صرف ايک رکن مذہبي باقي تين ارکان ادب ‘ علم اور عرفان تھے دنيا کي تاريخ ميں يہ کہيں نہيں ملتا کہ کسي مذہب کے مکتب ميں علم و ادب کو اتني اہميت حاصل ہوئي ہے جتني جعفر صادق کي مذہبي ثقافت ميں ہوئي - جعفر صادق کي مذہبي ثقافت ميں علم و ادب کو اس قدر اہميت حاصل تھي کہ محقق اپنے آپ سے پوچھتا ہيکہ مذہبي ثقافت ميں ادب کي اہميت زيادہ تھي يا مذہب کي اور کيا علم کو زيادہ اہميت دي جاتي تھي يا مذہب کو - جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے
امام جعفر صادق کے ہاں ادب کي تعريف

امام جعفر صادق کي مذہبي ثقافت کي قوت کا راز اس ميں تھا کہ اسکے چار ارکان ميں سے صرف ايک رکن مذہبي باقي تين ارکان ادب ‘ علم اور عرفان تھے دنيا کي تاريخ ميں يہ کہيں نہيں ملتا کہ کسي مذہب کے مکتب ميں علم و ادب کو اتني اہميت حاصل ہوئي ہے جتني جعفر صادق کي مذہبي ثقافت ميں ہوئي - جعفر صادق کي مذہبي ثقافت ميں علم و ادب کو اس قدر اہميت حاصل تھي کہ محقق اپنے آپ سے پوچھتا ہيکہ مذہبي ثقافت ميں ادب کي اہميت زيادہ تھي يا مذہب کي اور کيا علم کو زيادہ اہميت دي جاتي تھي يا مذہب کو - جعفر صادق اس بات سے اگاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ ايک مومن چونکہ متقين کے ايمان کا حامل ہوتا ہے پس اسے علم و ادب سے روشناس ہونا چاہيے آپ کہا کرتے تھے ايک عام شخص کا ايمان سطحي اور بے بنياد ہے وہ چونکہ ايک عام انسان ہوتا ہے لہذا وہ اس بات سے آگاہ نہيں ہو سکتا کہ کس پر ايمان لايا ہے اور کس کيلئے ايمان لايا ہے اور اسکے ايمان کي بنياد مضبوط نہيں ہوتي اس لئے اسکے خاتمہ کا امکان ہوتا ہے -

ليکن وہ مومن جو علم و ادب سے بہرہ مند ہو گا اس کا ايمان مرتے دم تک متزلزل نہيں ہو گا کيونکہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہے کہ کس لئے اور کس پر ايمان لاياہے ؟

جعفر صادق يہ دکھانے کيلئے کہ علم و ادب کس طرح ايمان کي جڑوں کو گہرا اور مضبوط کرتا ہے دوسرے مذاہب کي مثال بھي ديتے تھے اور کہا کرتے تھے جب اسلام پھيل گيا اور جزيرہ العرب سے دوسرے ممالک تک پہنچا تو ان ممالک کے عام لوگوں نے اسلام کو جلدي قبول کر ليا ليکن جو لوگ علم و ادب سے آگاہ تھے انہوں نے اسلام کو جلدي قبول نہيں کيا بلکہ ايک مدت گذر جانے کے بعد جب ان پر ثابت ہو گيا کہ اسلام دنيا اور آخرت کا دين ہے تو پھر انہوں نے اسے قبول کيا-

جعفر صادق نے ادب کي ايسي تعريف کي ہے جس کے بارے ميں تصور بھي نہيں کيا جا سکتا کہ ادب کي اس سے اچھي تعريف کي گئي ہو گي انہوں نے فرمايا ادب ايک لباس سے عبارت ہے جو تحرير يا تقرير کو پہناتے ہيں تاکہ اس ميں سننے اور پڑھنے والے کيلئے کشش پيدا ہو يہاں پر توجہ طلب بات يہ ہے کہ جعفر صادق يہ نہيں فرماتے کہ تحرير يا تقرير اس لباس کے بغير قابل توجہ نہيں اپ اس لباس کے بغير بھي تقريروں اور تحريروں کو پر کشش سمجھتے ہيں ليکن آپ کے فرمانے کا مقصد يہ ہے کہ ادب کے ذريعے تحريروں اور تقريروں کو مزيد پر کشش لباس پہنايا جاتا ہے -

کيا امام جعفر صادق کي وفات سے ليکر اب تک اس ساڑھے بارہ سو سال کے عرصے ميں اب تک کسي نے ادب کي اتني مختصر جامع اور منطقي تعريف کي ہے ؟

جعفر صادق کا ادب کے متعلق دوسرا نظريہ يہ کہتا ہے ( ممکن ہے ادب علم نہ ہو ليکن علم کا وجود ادب کے بغير محال ہے ) علم و ادب کے رابطے کے متعلق يہ بھي ايک جامع اور مختصر تعريف ہے اور جيسا کہ امام جعفر صادق نے فرمايا ہے علم ميں ادب ہے ليکن ممکن ہے ہر ادب ميں علم نہ ہو ہميں اس بارے ميں کوئي علم نہيں کہ جعفر صادق علم سے زيادہ شغف رکھتے تھے يا ادب سے زيادہ لگاؤ رکھتے ؟ کيا آپ کے خيال ميں شعر کي قدر و منزلت زيادہ تھي يا علم طبعيات کي بعض ايسے لوگ ہو گزرے ہيں جو علم و ادب دونوں سے برابر دلچسپي رکھتے تھے ليکن ايسے لوگوں کا شمار صرف انگليوں پر کيا جا سکتا ہے کيونکہ انسانوں کي اکثريت کي استعداد اتني ہي ہے کہ يا تو وہ علم سے لگاğ رکھتے ہونگے يا ان کي دلچسپي ادب سے ہو گي - جو لوگ ادب سے شغف رکھتے ہيں وہ علم کو غم و غصے کا آلہ قرار ديتے ہيں اور مادي مقاصد کے حصول کا ذريعہ سمجھتے ہيں جس کا مقصد محض ريا کاري اور لہو لعب ہے اور لم کي جانب رجوع کرنے والے کي نسبت اپنے آپ کو زيادہ با ذوق اور خوش مزاج شمار کرتے ہيں -

جو لوگ علمي استعداد کے حامل ہوتے ہيں وہ ادب کو بچگانہ کام يا خيالي پلاؤ پکانے والے انسانوں کا خاصہ سمجھتے ہيں اور ان کي نظر ميں ادب سے لگاؤ کسي سنجيدہ اور سلجھيہوئے انسان کا کام نہيں کاروباري طقبے کي نظر ميں ادب محض زندگي کو فضول بسر کرنے کا نام ہے حتي کہ يہ طبقہ اديبوں کي عقل سليم کو بھي شک و شبہ کي نگاہ سے ديکھتا ہے اس کا خيال ہے کہ اگر ادب کے متوالوں ميں عقل سليم ہوتي تو وہ ہر گز ايسے فضول کام ميں زندگي نہ گنواتے اس طبقے کو چھوڑئے کيونکہ يہ نہ صرف ادب کے قائل نہيں بلکہ جب علم نے صنعت کو فروغ ديا اور صنعت نے مادي ترقي ميں مدد دي تب کہيں جا کر يہ لوگ علم کي اہميت کے قائل ہوئے يعني اٹھارويں صديعيسوي کے آغاز سے اس کي اہميت اجاگر ہوئي جب کاروباري طبقے نے محسوس کيا کہ صنعتيں مادي ترقي ميں ممدو معاون ہيں تو تب انہوں نے صنعتوں کي طرف توجہ دي -

ليکن امام جعفر صادق ان نادر روزگار افراد ميں سے تھے جو علم و ادب دونوں کے متوالے تھے جعفر صادق کي تدريس کے مقام پر اوپر يہ بيت رقم تھا -

ليس اليتيم قلمات والدہ ان اليتيم يتيم العلم والادب

يعني يتيم وہ نہيں جس کا باپ فوت ہو گيا ہو بلکہ يتيم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہے عربوں ميں جعفر صادق کي مذہبي ثقافت کے وجود ميں آنے سے پہلے ادب کا اطلاق صرف شعر پر ہوتا تھا جيسا کہ ہم ذکر کر چکے ہيں دور جاہليت ميں عربوں ميں ثري ادب کا وجود نہ تھا اور پہلي صدي ہجري ميں عربوں کے نثري ادب کے آثار معدود ہيں ان آثار ميں حضرت علي کا تہج البلاغہ خاصي اہميت کا حامل ہے جعفر صادق کو دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سالوں کے دوران نثري ادب کا شوق پيدا ہوا جيسا کہ کہاجا سکتا ہے کہ نثري ادب کو وجود ميں لانے والے امام جعفر صادق تھے -

کہتے ہيں کہ امام جعفر صادق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عرب قوم ميں ادبي انعام کا رواج ڈالا اگر ادبي انعام سے مراد يہ ہے کہ شاعر يا مصنف کو کوئي چيز عطا کي جائے تو يہ روايت صحيح نہيں ہے کيونکہ شعراء کو نوازنے کي رسم جزيرة العرب ميں زمانے سے جاري تھي اور اسلام کے بعد بھي يہ رسم جاري رہي اور جب کوئي شعر پڑھتا اور اسے اشراف کے پا س لے جاتا تو انعام سے نوازا جاتا تھا ليکن وہ لوگ جو نثري ادب ميں اضافہ کرتے تھے انہيں صلہ دينے کا رواج تھا اور نہ ہي عرب قوم نثري عبارات کو ادب کا جزو شمار کرتي تھي چہ جائيکہ نثري عبارت کا صلہ اديب کو ملتا ايک روايت کے مطابق نثري ياد گار اور انعام و اکرام عطا کرنيکي ابتدا امام جعفر صادق سے ہوئي -

اس ميں شک و شبہ کي کوئي گنجائش نہيں تھي کہ جعفر صادق نے ادبي نثر کے انعام کا تعين کيا ليکن البتہ يہ بات مشکوک ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے نثري اديبوں کو انعام عطا کرنيکا رواج شروع کيا يا ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر نے اس کام ميں سبقت لي شروع شروع ميں ادبي انعام دينے کيلئے تين ججوں کي کميٹي تشکيل دي گئي ايک امامجعفر صادق اور دوسرے ان کے دو شاگرد -

اس کے بعد يہ کميٹي پانچ ممبروں پر مشتمل ہو گئي اور اگر ان ميں سے تين افراد ايک مصنف کو انعام کا حقدار قرار ديتے تو پھر مصنف انعام کا حقدار ٹھہرتا تھا - جعفر صادق کي طرف سے جس عامل نے نثري ادب کي توسيع ميں مدد دي وہ يہ تھا کہ انہوں نے کسي مصنف کو کسي خاص موضوع پر لکھنے کے لئے مجبور نہيں کيا اور ہر ايک اپنے ذوق کے مطابق لکھنے کيلئے آزاد تھا اور جو کچھ لکھتا بعد ميں جعفر صادق کے سپرد کرتا اور آ اسے انعام کيلئے ججوں کے پينل کے سامنے پيش کر ديتے تھے اور اگر ججوں ميں سے تين جج ‘ مصنف کو انعام کا حقدار قرار ديتے تو انعام اسکے سپرد کر ديا جاتا تھا جعفر صادق نے کھلے دل سے ہر قسم کي نظم و شعر کو ادب ميں شامل کيا جعفر صادق کي نظر ميں اديب فقط وہ نہ ہوتا تھا جو شعر پڑھتا يا في البديہہ اشعار کے ذريعے اظہار خيال کرتا يا تقرير لکھتا اور پھر اسے ڑھتا بلکہ ہر وہ شخص جو کسي بھي موضوع پر نظم يا شعر ميں اظہار خيال کرتا جو امام جعفر صادق کے نظريئے کے مطابق ادب کي تعريف کے لحاظ سے دلچسپ ہوتا تو اس شخص کو اديب شمار کيا جاتا تھا اور علم و ادب کو نہ صرف مذہبي ثقافت کے لحاظ سے ضروري گردانتے بلکہ انساني وقار کي بلندي اور انسانوں ميں اچھي صفات کے فروغ کيلئے بھيعلم و ادب کو لازمي خيال کرتے تھے -

آپ جانتے تھے کہ ايک ايسا معاشرہ جس کے افراد اديب و عالم ہوں اس ميں دوسروں کے حقوق کي پا مالي کم ديکھنے ميں آتي ہے اور اگر سب علم و ادب سے آشنا ہو جائيں تو تمام طبقوں کے باہمي تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہيں امام جعفر صادق کي نظر ميں مذہبي ثقافت جس کے چار رکن يعني مذہب ادب علم و عرفان ہيں شيعہ مذہب کي تقويت و بقاء کيلئے بہت مفيد اور موثر تھے امام جعفر صادق نے شيعہ مذہب کيلئے سن پير کي مانند کوي بڑي عمارت تعمير نہيں کي ليکن جو ثقافت وہ وجود ميں لائے ہيں وہ سن پير سے زيادہ دائمي ہے کيونکہ ايک مذہبي عمارت کو تباہ کيا جا سکتا ہے جيسا کہ سن پير کے پہلے کليسا کو تباہ کر ديا گيا تھا ليکن جعفر صادق کي مذہبي ثقافت کو کوئي ختم نہيں کر سکا -

سن پير کا پہلا کليسا قسطنطين (عيسائي روم کے پہلے بادشاہ) نے 326 عيسوي ميں بنانا شروع کيا اور چند سالوں کے بعد تکميل کو پہنچا يہ کليسا ماڈرن دور تک باقي رہا اس وقت جب ژول دوم عيسائي مذہب کے رہنما کے حکم سے اس کليسا کو گرا ديا گيا اور جديد کليسا کي تعمير سروع کي گئي جو سن پير کے نام سے روم ميں پايا جاتا ہے اگر جعفر صادق مذہب شيعہ کيلئے ايک پر شکوہ عمارت تعمير کرواتے تو ممکن تھا ايک ايسا آدمي پيدا ہوتا جو اس مذہب سے مخالفت کي بنا پر اس عمارت کو گرا ديتااور اج اس کا نام و نشان نہ ہوتا ليکن امام جعفر صادق نے شيعہ مذہبي ثقافت کي بنياد کو اس طرح مستحکم اور مضبوط کيا کہ وہ ہميشہ کے لئے باقي رہے اور اسے کوئي بھي تباہ نہ کر سکے اور نام و نشان نہ مٹا سکے آپ نے ثقافت کے چار ارکان کو جن کا ذکر اوپر آيا ہے تقويت پہنچائي خصوصا تين ارکان مذہب و ادب اور علم کيلئے کافي کوشش کي آ نے اس کيلئے اس قدر جدوجہد کي کہ دوسري صدي ہجري کے پہلے پچاس سالوں ميں جو آپ کا تعليم دينے کا زمانہ تھا اسلامي دنيا ميں علم و ادب کي توسيع کا آغاز ہوا اور اگرچہ آپ تنہا علم و ادب کے محرک نہيں بنے ليکن آ نے سب سے پہلے اس راہ ميں قدم رکھا اور دوسروں نے اس کي پيروي کي جعفر صادق علم و ادب کي توسيع اور علماء اديبوں کو شوق دلانے کيلئے قدم آگے نہ بڑھاتے تو دوسري صدي کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران اور تيسري صدي جري کے تمام دور اور چوتھي صدي ہجري کے ساري عرصے ميں جو بڑي ادبي و علمي تحريک وجود ميں آئي ہر گز وجود ميں نہ آ سکتي وہ لوگ جو کہتے ہيں کہ عباسي خلفاء نے علم و ادب کي ترويج ميں سبقت حاصل کي وہ غلط فہمي کا شکار ہيں -

پہلے عباسي خلفاء کا مقصد اپني حکومت کي بنياديں مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ بھي نہ تھا اور ان کے بعد جو خلفاء آئے وہ زيادہ تر نفساني خواہشات کے غلام تھے وہ کسي حد تک ہي علم و ادب کي طرف راغب ہوئے جيسا کہ ہم نے متوکل کے بارے ميں مختصرا ذکر کيا ہے -

تيسري صدي ہجري اور چوتھي صدي ہجري ميں علم و ادب کي جانب عباسي خلفاء کي توجہ کو اس زمانے کے رسم و رواج کي ضرورت سمجھا جا سکتا ہے نہ کہ علم و ادب کي طرف عباسي خلفاء کي خصوصي توجہ ‘ سنتيس 38 عباسي خلفاء جنہوں نے مجموعا پانچ سو سال سے زيادہ عرصہ حکومت کي ان ميں سے صرف چند ہي علم و ادب کي طرف مائل ہوئے اور باقي مادي لذتوں کے حصول کي فکر ميں لگے رہے -

بہر کيف اس بات سے انکار نہيں کرنا چاہيے کہ انہيں چند خلفاء کي علم و ادب سے دلچسپي ‘ علم و ادب کے فروغ کا باعث بني اگرچہ ہميں معلوم ہے کہ انہوں نے اس زمانے کي روش کے مطابق علم و ادب سے دلچسپي کا اظہار کياچونکہ بيت المال ان کے تصرف ميں تھا اور اس کے علاوہ وہ قيمتي تحائف بھي وصول کرتے تھے جو لگا تار ان کيلئے عوام بھيجتے تھے وہ شعراء خطيبوں مصنفين اور علماء کو بڑے بڑے انعامات سے نواز سکتے تھے اور يہ انعامات دوسروں کو علم و ادب کي تحصيل کي طرف مائل کرتے تھے تاکہ وہ بھي خليفہ کي توجہ کو اپني طرف مبذول کرا سکيں اور بڑے بڑے انعامات حاصل کريں -

يہ بھي کہا جا سکتا ہے کہ شعراء جاہليت کے زمانے ميں عربي بدو قبائل کے سرداروں کي عادت تھي اور خيال کيا جاتا ہے کہ اس فطرت ثانيا کي ابتدا خود عربوں نے کي تھي انہوں نے کسي اور قوم سے حاصل نہيں کي تھي کبھي کبھار ايسا ہوتا تھا کہ قبيلے کا سردار شاعرانہ ذوق کا حامل نہ ہوتا يا اشعار کا مفہوم نہ سمجھتا ت و بھي رسم و رواج کے مطابق وہ شاعر کے کلام کو ضرور سنتا تھا شو بہناور کے بقول چونکہ عرب بدووں کے قبائل کے سردار جب بيکار اور نکمے پن سے تنگ آ جاتے تھے تو اپنا وقت شاعروں کے نغمے سننے پر صرف کرتے تھے -

شو بنہاور ‘ عرب بدو قبائل کے اشعار سننے کو نہ صرف ان کي بيکاري پر محمول کرتا ہے بلکہ اس کے بقول ہر وہ کام جو انسان حصول معاش کے علاوہ انجام ديتا ہے وہ سب بيکاري ميں شامل ہيں مثلا کھيليں ‘تفريحات مہمان نوازياں وغيرہ کي بنيادي وجہ يہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فضول کاموں ميں لگانا چاہتا ہے اس جرمن فلسفي نے اپنے کمرے ميں اپنے سر کے اوپر ايک کتبہ نصب کيا ہوا تھا جس پر کندہ تھا کہ وہ انسان جو تمہيں دو پہر يا شام کے کھانے کي دعوت دے تمہارا سب سے برا دشمن ہے کيونکہ وہ تمہيں کام نہيں کرنے ديتا -

جب شاعر قبيلے کے سردار کے سمنے اپنے اشاعر پڑھتا تو وہ اسے انعام و اکرام سے نوازتا اور ادب کا تقاضا يہ تھا کہ شاعر اپنے اشعار ميں قبيلے کے سردار کي شان ميں چند بيت شامل کر ديتا تھا -

ليکن اس کي شان کے بيان کي ايک حد معين تھي اور اس طرح دور جاہليت کے شعراء مبالغہ آرائي سے کام نہيں ليتے تھے اور اپنے آ کو قبيلہ کے سردار کے مقابلے ميں پست ظاہر نہيں کرتے تھے ان کي مدح ميں ايسا شکر يہ ہوتا تھا جو ايک مہمان ‘ ميزبان کي مہمان نوازي پر ادا کرتا ہے -

بعض لوگوں کا خيال ہے کہ وہ شعراء جو شاعروں کے اجتماعي ميں شعر پڑھتے تھے لوگوں سے رقم بٹورتے تھے جب کہ ايسا ہر گز نہيں -

دور جاہليت ميں عربي شعراء اپني عزت و وقار کا خاص پاس رکھتے تھے وہ قبائل کے سرداروں سے انعام ليتے اسے ايک طرح کي مزدوري سمجھا جاتا تھا اس طرح قبيلے کے رئيس کو صرف اتنا ہي حق پہنچتا تھا جتنا شاعر اپنے شعروں ميں ادا کر ديتا تھا شاعر  يہ بات کہنے ميں حق بجانب ہوتا تھا اس نے قبيلہ کے سردار کي شان ميں شعر کہہ کر اس پر احسان کيا ہے ليکن سردار قبيلہ نہيں کہہ سکتا تھا کہ اس نے شاعر کو نواز کر احسان کيا ہے وہ لوگ جو شاعروں کے اجتماع ميں شعر خواني کرتے ان کا مقصد شہرت اور مقبوليت پانا ہوتا تھا وہ لوگوں سے کسي تحفے و غيرہ کے اميدوار نہيں ہوتے تھے -

ليکن امام جعفر صادق کے زمانے تک کسي دور ميں ايسا اتفاق نہيں ہوا کہ جزيرہ عرب ميں کسي شاعر نے شاعروں کے اجتماع ميں سردار قبيلہ کے سامنے نثر کا کوئي قطعہ پيش کيا ہو وہ مضامين جو شعر کے قالب ميں نہيں ڈھلتے عربوں کي نظر ميں ادب کا حصہ نہيں تھے -

حتي کہ قرآن نازل ہوا اور قرآن کي نثر عرب بدوؤ ں کا پہلا نثري سرمايہ قرار پائي ليکن عرب قوم چونکہ قرآن کو ايک معجزہ خيال کرتي تھي لہذا وہ اسے ادب سے بالا تر شے خيال کرتي تھي اس کے باوجود کہ قران نے عربوں کو اس بات کي نشاندہي کي تھي کہ نثر بھي ادبي سرمايہ قرار پا سکتي ہے پہلي صدي ہجري ميں ماسوائے حضرت علي اور آ کے پوتے زين العابدين اور پھر محمد باقر کے کسي نے بھي ادبي نثر پر توجہ نہيں دي اور نہ ہي کوئي کتاب لکھي -

جعفر صادق کے زمانے تک جو لوگ کتاب لکھنا چاہتے تھے ان کا خيال تھا کہ انہيں اپنے افکار کو شعر ي قالب ميں ڈھالنا چاہيے اور چونکہ شعر اوزان و بحروں کا محتاج ہوتا ہے اور شاعر قافيے کي رعايت کرتا تھا لہزا وہ لوگ ازادي سے اپنا مافي الضمير بيان نہيں کر سکتے تھے -

جعفر صادق نے ادبي نثر کي توسيع کي مدد سے ان اسلامي مفکرين کے افکار کو پر عطا کئے جو اس وقت تک شعر کي بحروں ميں قيد تھے اور اس کے بعد جو کوئي کتاب لکھنا چاہتا نثر سے کام ليتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامي ادب ميں شعر کي اہميت پر بھي کوئي اثر نہ پڑتا -

جعفر صادق کا فرمان جو انہوں نے اپنے بيٹھنے کي جگہ اپنے سر کے اوپر کندہ کروايا ہوا تھا کس قدر شاندار ہے کہ " يتيم وہ نہيں جس کا باپ نہ ہو بلکہ يتيم وہ ہے جو علم و ادب سے بے بہرہ ہو "


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سیدالشہداء کے لئے گریہ و بکاء کے آثار و برکات
نیک گفتار
عظمت امام حسین علیہ السلام
مومن کی اپنے دینی بھائیوں کے لئے غائبانہ دعا
جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
كربلا اور حائر حسینی
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل
قرآن کا سیاسی نظام
غدیر اور اخوت اسلامی

 
user comment