جب حضرت ابراہيم عليہ السلام اور حضرت اسماعيل عليہ السلام نے خانہ کعبہ کي بنيا د رکھي اور اس کي ديواروں کو بلند کيا تو ان دونوں نے اللہ کے حضور يہ دعا کي کہ اے اللہ ہماري اس مزدوري کو اپنے حضور قبول کرنا -
«و اذ يرفع ابراهيم القواعد من البيت و اسماعيل ربّنا تقبّل منّا» (بقره، 127)
ترجمہ : اور ( وہ وقت ياد کرو) جب ابراہيم و اسماعيل اس گھر کي بنياديں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (يہ عمل) قبول فرما-
جي ہاں ، ہماري نظر ميں نماز اور روزہ ہي عبادت ہے ليکن قرآن کي نظر ميں کسي عمارت کي تعمير ميں کيا جانے والا ہو کام جو خدا کي رضا کے ليۓ ہو وہ بھي عبادت ميں شمار ہو گا -
کيسے اور کس طرح سے سے عبادت کرني چاہيۓ ؟
عبادت کے دوران اس بات کا خيال رکھنا چاہيۓ کہ اس ميں خرافات شامل نہ ہوں اور عبادت کو اللہ کي ذات کے ليۓ کرنا چاہيۓ - عبادت ميں ميں دکھاوا انسان کو اللہ کے نزديک رسوا کر ديتا ہے - عبادت کے طريقے کو وحي کي روشني سے ہي سيکھنا چاہيۓ -
حضرت ابراھيم عليہ السلام نے اللہ تعالي سے چاہا کہ ہميں عبادت کا طريقہ بتايا جاۓ -
انسان کو دنيا ميں رہنمائي کے ليۓ رہبر کي ضرورت ہوتي ہے اور اگر کوئي انسان خود کو ہر فن مولا سمجھ کر اپنے ليۓ آداب،رسوم ، تخيلات اور خواہشات مرتب کر لے اور ان کے مطابق اپني زندگي کو گزارنا شروع کر دے تو خدشہ يہ ہوتا ہے کہ معاشرہ افراتفري کا شکار ہو جاۓ اور پھر موسي کي قوم کي طرح کے حالات پيش آتے ہيں - اس ليۓ انسان کو انبياء کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کو اپنا کر ان پر عمل پيرا ہونا چاہيۓ تاکہ انسان کے کام کاج اور طور طريقوں سے خدا خوش ہو جاۓ اور ان کے روز مرہ کے کام بھي عبادت ميں شمار ہونے لگيں -
اللہ نے انسان کي رہنمائي کے ليۓ اس زمين پر ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء کو مبعوث فرمايا تاکہ وہ انسان کو ايک منظم معاشرتي سانچے ميں ڈھاليں اور انسان کے افکار و گفتار اور رويوں کو درست کريں -
source : tebyan