اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

حضرت فضہ۔۔۔۔۔ کنیز نما شہزادی

حضرت بلال اور حضرت فضہ کا مرزبوم بردہ فروشی کیلئے بہت ہی مشہور تھا۔ اس ملک یعنی حبشہ کے انسانی وسائل (Human Resour
حضرت فضہ۔۔۔۔۔ کنیز نما شہزادی

حضرت بلال اور حضرت فضہ کا مرزبوم بردہ فروشی کیلئے بہت ہی مشہور تھا۔ اس ملک یعنی حبشہ کے انسانی وسائل (Human Resources)  کا عمومی مصرف بردہ فروشی تھا۔انسانی تاریخ میں غلامی کی ثقافت کو جو فروغ ملا اس میں یہ افریقی ملک یعنی ایتھوپیا مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ معاشی طور پر قدرے مستحکم  اقوام و ممالک زنجبار(جو حبشہ کا ایک اور نام ہے) کو سیاہ فام غلاموں کی کان سمجھتے تھے۔ یہاں سستے داموں قوی ہیکل اور سخت کوش غلام میسر ہوا کرتے تھے اسے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبلِ اسلام عرب معاشرے کا مستکبرانہ اجتماعی مزاج غریب ترین اور مستضعف ترین خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے افراد کو کس نظر سے دیکھتا ہوگا۔ اس لحاظ سے دور جہالت میں ہر دو افراد(حضرت فضہ  اور حضرت بلال ) کا مقدر صرف اور صرف پیوند زمین ہونا قرار پاتا۔ مگر اسلام کی غلام پروری اور غریب نوازی نے انہیں انسانی تقدس کے ایسے خلعت سے نوازا کہ امتداد زمانہ اس سے بوسیدہ نہ کر پایا۔ اس کا زرق و برق آج بھی انسانی کمال کے جویا سلیم الفطرت انسانوں کیلئے باعثِ کشش ہے جسے اس بات کا تعین کرنا کافی آسان ہے کہ رسولِ اکرمۖ پر لگائے گئے بردہ فروشی کے اوچھے اور بے بنیاد الزامات سراسر مبنی بر کذب ہیں ۔ اور ان الزامات کو رد کرنے کیلئے حضرت بلال اور حضرت فضہ کا بالترتیب مردانہ اور زنانہ کردار زندہ و جاوید ثبوت ہے کہ جسے کوئی کور چشم بھی رد نہیں کر سکتا ہے۔
حضرت فضہ۔۔۔ فرضی پستی اور حقیقی عروج:
طولِ تاریخ میں نوع انسانی کے جن طبقوں پر کسی نہ کسی بہانے سے گوناگوں مظالم روا رکھے گئے ہیں ان طبقوں سے حضرت فضہ کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رہا ہے۔ وطنیت کے اعتبار سے حضرت فضہ کا تعلق اسی غلاموں کی کان ایتھوپیا سے تھا۔ جس سے بقولِ علامہ جواد نقوی دام ظلہ عالی بجاطور پر بردہ فروشی کی ایک عالمی منڈی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ نسلی اعتبار سے حبشن اور صنفی اعتبار سے ایک سیاہ فام کنیز تھی۔ وطنیت کا جائزہ لیا جائے تو آج تک یہ خطہ زمین غربت و افلاس کی آگ میں سلگتا آرہا ہے۔ اس جدید دور میں بھی یہ ملک قدیم زمانے کی یاد تازہ کررہا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اس کی حالت کیسی رہی ہوگی؟ بحیثیتِ صنف عورت ذات کو ہر دور میں ظلم و تشدد کی کڑی دھوپ میں تپایا گیا۔ اس پر مستزادیہ کہ عورت کو پیدائشی لحاظ سے ہی پست و حقیر تصور کیا جاتا تھا۔ اب اگر یہی عورت رنگ و نسل اور سماجی اعتبار سے سیاہ فام کنیز بھی ہو تو اسے ظلم کی بٹھی میں جھونکنے سے کون روک سکتا تھا۔ اس دورکی مروجہ راہ و رسم کے مطابق حضرت فضہ ہر اعتبار سے موردِ جفا تھیں۔ لیکن دربارِ رسالت مآب میں کیا آئیں کہ اس کے مقدر کی کایا ہی پلٹ گئی۔ اور محبت و وفا کی زندہ علامت بن گئی۔
بی بی فضہ اسلامی قلعے میں پناہ گزین:
حضرت فضہ کے وجود کو چو طرفہ خطرہ لاحق تھا۔ لیکن اسلام کے قلعے میں پناہ گزینی سے تمام خطرات اپنے آپ فرو ہو گئے۔ چند ایک روایات کے مطابق اسے حبشہ کے بادشاہِ وقت نے تحفتاً آنحضورۖ کی خدمت بھیج دیا۔ اس کنیز کا اصل نام نوبیہ تھا جس کو تبدیل کرکے رسولِ کریم نے فضہ نام رکھا۔ گویا لفظ فضہ یعنی چاندی جیسا نام انتخاب کر کے آنحضورۖ نے یہی باور کرایا کہ جہالت پر مبنی انسانی تعظیم کے غیر منصفانہ معیارات میں انسانی پوست کے رنگ کو جو اہمیت دی جا رہی ہے ۔اسے اسلام کے معیارِ عزت و کرامت میں کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ یہاں رنگِ رخسارکے بجائے اب کیفیتِ دل کو دیکھا جائے گا۔ حضرت فضہ کے لئے دوسرا اہم مسئلہ بے خانمائی کا تھا جس کا خوبصورت حل یہ نکل آیا کہ رسول اکرم نے اس بے گھر کنیز کو ایسے گھر میں پناہ دلوادی کہ جس کے چرچے روئے زمین پر ہی نہیں بلکہ عالمِ ملکوت میں بھی ہیں۔ حضرت فضہ کے داغِ کنیزی کو شہزادیٔ کونین حضرت زہرا ء کی ہم نشینی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔ نیز ان کی غریب الوطنی کو اسلامی مدنیت نے اپنے اندر سمو دیا۔
نفسیاتی سہارا:
حضرت فضہ اس مثالی گھر میں جب وارد ہوئیں تو اس نے  تمام افرادِ خانہ نہ (بلا امتیاز صغیر و کبیراور زن و مرد ) کو بیکسوں، مفلسوں، غلاموں اور کنیزوں کے تئیں بے انتہا شفیق و مہربان پایا۔ بلکہ اس نے یہ  مشاہدہ کیا کہ ان کا معیارِگزربسر ایک نادار و مفلس شخص سے بھی کم تر ہے یہاں اکثر فاقوں پر فاقے لگ رہے ہیں۔ اس گھرمیں رسولِ کائنات کے سب سے چہیتے افراد کی معاشی حالت ایک عام انسان سے کسی طور بھی بہتر نہیں۔ وہ عیش و عشرت، خود پسندی، خود پروری، نفس پرستی اور تن پروری سے کوسوں دور ہیں۔ وہ کسی کی جسمانی حرارت کو اپنی راحت کیلئے استعمال کرنے کے خوگر نہیں ہیں۔ یہاں ایثار ہر فرد کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اس نے سوچا کہ ایک طرف اس بیت الشرف میں ایسی عظیم المرتبت ہستیاں رہ رہی ہیں اور اس پر ان کی تواضع اور انکساری کا یہ عالم کہ ایک کنیز کو کسی بھی لحاظ سے پست تر نہیں سمجھتے ہیں ۔ اسے یہ احساس ہوا کہ میرے لئے غربت و اخلاص اور غریب الوطنی اب کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اسے نفسیاتی کمک فراہم ہوئی۔ وہ اس گھرمیں کنیز بن کر آئی تھی اور بہت جلد فردِ خانہ کی حیثیت سے رہنے لگی۔ نہ صرف اس کے ماتھے سے داغ کنیزی مٹ گیا بلکہ چند ہی دن بیت الشرف میں رہ لینے کے بعد اس کے دل و دماغ سے احساسِ کمتری مکمل طور پر محور ہوگیا ۔
معمولی واقعہ مگر غیر معمولی درس:
    علامہ مجلسی اور شیخ صدوق نے جناب سلمانِ فارسی سے نقل شدہ ایک روایت کتب احادیث میں رقم کی ہے جس کے مطابق رسولِ اکرمۖ کو امیرالمومنین اور لختِ جگر حضرت زہرا اور حسنین نے یکے بعد دیگرے دعوت کی۔ اور حضرتِ رسولِ اکرم ان حضرات کی دعوت قبول کرتے ہوئے مسلسل چند ایک روزخانہ زہراء  تشریف لے گئے۔ آخری روز کھانا کھانے کے بعد جب آنحضرتِ خانہ فاطمہ سے روانہ ہونے لگے تو دیوڑھی پر حضرتِ فضہ نے عاجزانہ لہجے میں عرض کیا۔ کہ کل یہ کنیز شہنشاہِ رسالت کو دعوت پہ بلاتی ہے امید ہے کہ تشریف لاکر عزت افزائی فرمائیں گے۔ رسولِ رحمت نے بخوشی دعوت قبول فرمائی۔ اگلے روز مقررہ وقت پر جب حضورِ اکرمۖ جناب فاطمہ کے گھر میں  وارد ہوئے تو سب نے آکر استقبال کیا۔ مگر آپ کی بغیر اطلاع اور اچانک تشریف آوری کا سبب جب اہلبیت اطہار نے دریافت کیا توفرمایا آج ہم فضہ کے مہمان ہیں۔
    اس بظاہر چھوٹے سے واقعہ میں دو اہم اور قابل ِ توجہ نکتے مضمر ہے اول یہ کہ خانہ اہلبیت میں جناب فضہ کو قلیل عرصہ میں ہی ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہوا تھا۔ اور وہ بھی باقی افرادِ خانہ کی طرح آزادانہ طور زندگی جی رہی تھیں۔ اسے بھی دیگر افراد کی طرح گھر میں ہر جائز فاصلہ لینے کا حق دیا گیا تھا۔ دوم یہ کہ پیغمبر اکرم نے بھی اس کی دعوت قبول کرکے مساوات پر مبنی انسانی منشور کو عملی صورت میں پیش کیا ۔ اور یہ امر ظاہر کردیا کہ رحمت للعالمین کی نظر میں سب اولادِ آدم تعظیم و تکریم کے لائق ہے اس میں رنگ و نسل ، صنف اور دیگر مصنوعی معیارات ناقابلِ التفات ہیں۔
حضرتِ فضہ کی روحانی تربیت:
خادمہ اگر اپنے مخدومہ کی خدمت کرے تو توقع کے عین مطابق ہے ۔ لیکن اگر مخدومہ بھی اپنی خادمہ کی خاطر زحمت کش نظر آئے تو ضرور باعثِ حیرت ہے۔ حضرت فضہ بلاشبہ خانہ زہرا میں ایک کنیز کی حیثیت سے داخل ہوئی۔ لیکن بہت جلد اس نے ایک شہزادی کا مقام حاصل کیا۔ اس مقام کا کیا کہنا کہ جہاں تقسیم کار کا اہتمام کچھ اس طرح کا ہو کہ ایک دن حضرت فضہ گھر کا کام کرے اور دوسرے روز شہزادی کونین، خاتونِ محشر تمام گھریلو امورات کی انجام دہی میں جناب فضہ کی مانند ہمہ تن مشغول ہو۔ کیا مساوات کی ایسی مثال کسی اور گھر میں مل سکتی ہے کہ بی بی پکائے اور باندی کھائے ؟اسی مساوات کا اثر تھا کہ حضرت فضہ بھی اس اہلبیت کی معنویت سے دھیرے دھیرے مانوس ہونے لگی۔ اور تدریجاًتعلیم و تربیت  کے مراحل طے کرنے لگیں۔ حضرت زہرا کا حضرت فضہ کے ساتھ تمام گھیریلو امورات مل بانٹا اس بات کی غمازی کرتا کہ حضرت فضہ کو دیگر معنوی، مذہبی اور تربیتی امور میں وقت صرف کرنے کا موقع دیا جارہا تھا۔ جس کا بھرپور فائدہ اٹھاکر حضرت فضہ معنوی اور علمی کمالات کے نت نئے مدارج طے کرتی گئیں۔یہ بات کسی علمی اور معنوی معجزے سے کم  نہیں ہے کہ خانہ نبوت کی پروردہ ایک حبشی کنیز  قرآنی علوم و معارف میں غوطہ زن ہوئیںاور وہ روز مرہ کی گفتگو قرآنی آیات کے توسط سے کرتی تھیں۔اسطرح اپنے مافی الضمیرکا اظہار قرآنی آیات کے وسیلے سے کرتی تھیں۔ جس سے یہ بات مترشح ہے کہ مادی اور جسمانی حقوق کے ساتھ ساتھ حضرت فضہ کو خانہ زہرا میں معنوی حقوق بھی بدرجہ اتم دیئے گئے تھے۔ محبت و الفت، عزت و کرامت، تعلیم و تربیت، شرافت و معنویت جیسے تمام لازمی عوامل جو انسانی شخصیت کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت ہی اہم ہوتے ہیں۔ حضرت فضہ کیلئے اس گھر میں میسر تھے۔ علاوہ ازیں حضرت زہرا کی ریاضت وعبادت کے گہرے نقوش ان کی (حضرت فضہ ) شخصیت پر نمایاں تھے یہی وجہ ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اس کنیز نما شہزادی نے ایک حساس اور ذمہ دارانہ کردار نبھایا ہے۔
فقاہتِ جنابِ فضہ:
    تاریخ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ غلاموں اور کنیزوں کو ازدواجی زندگی سے اکثر و بیشتر محروم رکھا جاتا تھا اور بعض دفع اس فطری ضرورت کو پورا کرنا ان کے لئے بہت ہی مہنگا ثابت ہوتا تھا۔ عکس العمل اس کے حضرت فضہ کو جہاں دیگر حقوق حاصل تھے وہاں خود حضرت امیر نے جناب فضہ کا عقد تثعلبیہ نامی ایک شخض سے کرایا۔ لیکن یہ عقد طویل المدت ثابت نہ ہوسکا۔ صرف ڈیڑھ سال بعد ہی ثعلبیہ کا انتقال ہوگیا۔ کتاب الانساب کے مطابق پہلے شوہر کے انتقال کے چند روز بعد ہی ایک اور شخص سلیکہ نے حضرت فضہ کے حضور خواستگاری کا پیغام بھیجا جسے حضرت فضہ نے رد کیا۔ چنانچہ یہ دور حضرت عمر کے زمانۂ خلافت کا تھالہذا  سلیکہ نامی اس شخص نے خلیفہ کے اثرورسوخ کے توسط سے خواہشِ عقد کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر نے جناب فضہ کو طلب کیا اور خواستگاری کو رد کرنے کا سبب پوچھا تو حضرت فضہ نے جوابا ًکہا کہ پہلے شوہر کے  انتقال کے بعد ابھی شریعت اسلامی کے مطابق عدت کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ اور اس مدتِ عدت  کے د وران دوسرا نکاح خلاف شرع ہے۔ اور اگر بالفرض اسی دوران یہ دوسرا عقد بھی ہو جاتا تو یہ بھی ممکن تھا کہ فوت شدہ شوہر سے میں حاملہ ہوتی۔ اس صورت میں اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوتا کہ حمل پہلے شوہر سے ہے یا دوسرے شوہرسے ۔اور اگر اولاد ثعلبیہ کی ہوتی تو بغیر حق وراثت ،سلیکہ کی وراثت کی وارث قرار پاتی اور یوں سلیکہ کی اپنی اولاد کی حق تلفی ہوتی۔ اس واقع سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فضہ نہ صرف شرعی احکام سے واقف تھیں بلکہ ان شرعی احکام کی توضیح و تشریح سے بھی آشنا تھیں۔ حضرت  فضہ کا تفقہ دیکھ کر حضرت عمر نے بے ساختہ ایک تاریخی جملہ کہا کہ'' ابوطالب کے گھر کی جاریہ بھی بنی عدی سے زیادہ فقہ کی عالمہ ہے '')کتاب الانساب ابن حجرعقلانی بحوالہ جناب فضہ مولف راحت حسین ناصری(
کربلا اور جناب فضہ:
    واقعہ کربلا میں حضرت فضہ کا کردار پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔حضرت فضہ نے جو تربیت خانہ فاطمہ میں حاصل کی تھی وہ تربیت کربلا میں کام آگئی۔ یقینا خانہ نبوت حسنین اور زینب و کلثوم کے ساتھ ساتھ حضرت فضہ کیلئے ایک ایسی تربیت گاہ تھی کہ جہاں ان ذواتِ مقدسہ کو مصائب و شدائد کی آندھیوں کے سامنے ڈٹے رہنے کی تربیت ملی۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین عازم کربلا ہوئے تو حضرت فضہ  بھی محذرات عصمت و طہارت کی معیت میں عشقِ اہلبیتِ رسول کاامتحان دینے نکل پڑیں۔ جناب فضہ نے وادیٔ عشق میں جگہ جگہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ وہ اس عظیم سانحہ میں بھی اہلبیت کرام کے شانہ بہ شانہ ظلم و تعدی کے خلاف لڑتی رہیں۔ مقاتل نگاروں نے حضرت فضہ کو واقعہ کربلا کے ہر پڑا ؤپرایک فعال کردار کے طور پیش کیا ہے۔
    حضرت فضہ ان تمام مظالم کا چشم دید گواہ ہے جو طول تاریخ میں اہلبیت کرام پر ڈھائے گئے۔ غور طلب بات ہے کہ رشتہ ٔازدواج میں منسلک ہونے اور صاحب اولاد ہونے کے بعد بھی جناب فضہ نے درِ اہلبیت سے اپنا ناطہ استوار رکھا۔کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور تھی کہ جس نے اس عظیم خاتون کو مودت ِ اہلبیت کامجسم نمونہ بنایا۔ نیزجتنے بھی مصائب اہلبیت نے جھیلے یہ عظیم خاتون بھی بہ رضاو رغبت ان مصائب کا مقابلہ کرنے میں اہلبیت کی شریک ٹھہری ۔  اس کا ہر مصیبت کی گھڑی میں پیش پیش رہنا ہی اپنے آپ میں ناقابل تردید دلیل ہے کہ اسے اہلبیت کے کردار و اخلاق نہایت ہی متاثر کیا تھا۔اور اہل ِ بیت کے حسن سلوک نے اس کے دل میں مودت کی جوت جگائی تھی ۔اور ہر اس گزر گاہ کو روشن کیا جس پر حضرت فضہنے اپنے دور حیات میں قدم رکھا۔ اور اب بھی ان کامرقد مقدس مودت ِ اہلبیت کی زندہ علامت ہے یہی وجہ ہے دشمنان ِاہلبیت ان کامرقدِ مقدس اب بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔
    حضرتِ فضہ نے بھی کربلا میں تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی۔ کشت و خون اور ماردھاڑ بچشمِ سر دیکھا۔ تاراجی خیام میں اپنی ضعیفی کے باوجود طفلانِ کربلا کو جلتے ہوئے خیموں سے نکالنے میں حضرت زینب کی ممدومعاون بنیں۔ الغرض بڑی مستعدی کے ساتھ روز عاشورہ کئی ایک محاذوں پر مختلف ذمہ داریوں کو نبھایا۔سانحہ کربلا کے بعد خانوادہ ٔرسالت کے ساتھ ساتھ حضرت فضہ عزم و استقلال کا مجسم نظر آئیں۔ انہوں نے تحریکِ کربلا کا اصل ہدف اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ لہذا کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ اس نے قیدخانے کی سخت تر ین صعوبتیں جھیلیں۔ بھرے بازارمیں اپنی شہزادیوں اور اپنے تئیں بے حرمتی کے مناظر دیکھے۔ دیار بہ دیار سفر کی اعصاب شکن مشکلات کو عظیم تر مقصد کی خاطر گلے لگایا۔ دربار ابن زیاد اور دربارِ یزید میں درسگاہِ نبوت سے حاصل کردہ تکلم کے جوہر دکھائے۔ خاص طور سے دربار یزید میں حضرت فضہ کی جرتمندی سنہرے حروف میں اوراق تاریخی میں موجود ہے۔ یزید نے جب رسول زادیوں کی جانب اپنی پلیدنگاہ اٹھائی تو سن رسید حضرت فضہ یزید اور خاندانِ نبوت کی ان شہزادیوں کے درمیان حائل ہوگئیں۔ یزید نے برہمی کے عالم میں حضرت فضہ  کو سامنے سے ہٹ جانے کو کہا لیکن وہ اس کی دھمکی آمیز لہجے سے مرعوب نہ ہوئیں۔ یزید نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ فضہ کو درمیان سے جبراً ہٹائیں۔ یہ دیکھ کر حضرت فضہ دربار یزید میں مسلح  حبشی غلاموں سے مخاطب ہوئیں۔ ان انہیں یہ غیرت دلائی کہ کیا تمہارے ہوتے ہوئے بھی تمہاری ملک و قوم کی بیٹی کے ساتھ بھی کوئی دست درازی کا کرسکتا ہے؟ یہ سننا تھا کہہ ان حبشی غلاموں نے تیوریاں چڑھائی۔ ان کی غیرتِ قومی جوش مارنے لگی۔ یہاں تک کہ  یزیدکوحالات کی نزاکت کے پیش نظراپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔
    یہ تھا حضرتِ فضہ کا کمالِ تدبر جس سے یزید جیسا ظالم و جابر بھی مات کھا گیا۔ نیز حضرت فضہ کا وہ جذبہ عقیدت بھی آشکارہوا جو اس کے دل میں خاندانِ عصمت و طہارت کے لئے تھا۔ اصل میں یہی جذبہ عقیدت ہے کہ جس نے اس گمنام کنیز کو ایک مشہور و معروف شہزادی بنادیا۔ صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی ہزاروں زبان و قلم اس کنیز نما شہزادی کی تو صیف تعریف میں رطب اللسان ہیں۔اور ان ذکر ِ خیر تا ابد ہوتا رہے گا۔
تاریخ کا نورانی کردار اور عصری ظلمت:
  اسلام پر لگائے گئے مذکورہ بے بنیاد الزام کو رد کرنے کے لئے تاریخ میں حضرت فضہ کی بولتی چالتی تصویرکافی ہے۔ لیکن ان زندہ جاوید حقیقتوں سے صرف نظر کر کے اسلام دشمن قوتیں اسلام پر لگائے گئے طرح طرح کے الزامات کو ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔اور بد قسمتی سے چند ایک نام نہادکلمہ گو طاغوت کے سازشی خاکوں میں اپنے اور دیگر مسلمانوں کے خون سے رنگ آمیزی کر رہے ہیں۔عالمی منظر نامے پر اس وقت بہت سے ایسے دہشت گرد گروہ اس کار خیر کو سر انجام دینے میں لنگوٹھیاں کس کر بر سرِ گرم عمل ہیں۔ ان دہشت گرد گروہ میں داعش،طالبان،جبہ نصرہ،الشبا ب،بوکوحرام اور القائدہ وغیرہ شامل ہیں۔اسے  بڑھ کر سوئِ اتفاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ جہاں حضورِ اکرم ۖ  اور اہلبیتِ رسول نے مل کر فضہ نامی ایک گمنام افریقی خاتون کو انسانی عظمت و شرافت کی بلندی تک پہنچایا۔وہاں اسی افریقہ کے ایک ملک نائجیریا میں بوکوحرام نے اسلامی جہاد کے نام پر سینکڈوں اسکولی بچیوں اور دیگر خواتین کو اغوا کرلیا ہے۔اور ان کو مالِ غنیمت کے طور اپنے مصرف میں لایا ہے۔چیکبوک نامی ایک علاقے کی اسکولی طالبات کو گزشتہ سال یعنی ٢٠١٤ ء میں اغوا کر لیا گیا تھا اور اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ معصوم بچیاں ان درندوں کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکیں۔ حال ہی میں نائیجیریا کی فوج  نے سیم بیسا نامی جنگل میں بوکو حرام کے اڈوں پر ایک بڑی کاروائی کے دوران ٢٠٠ نو عمر اور نوجواں لڑکیوں کے ساتھ  سو (١٠٠) کے قریب دیگرخواتین کو ان وحشیوں کے قبضے سے رہائی دلا دی ۔بی بی سی اردو سروس کے مطابق رہا ہونے والی خواتین میں چیکبوک کی اسکولی طالبات شامل نہیں ہیں۔
اسی طرح عراق و شام میں بوکو حرام سے فکری ہم آہنگی رکھنے والی دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی ہزاروں خواتین کو بے جان اشیاء کی طرح اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ۔ صرف ایزدی قوم سے تعلق رکھنے والی تین ہزار سے زائد خواتین کو داعش نے اغوا کر کے نہ صرف جنسی درندگی کا شکار بنایا ہے بلکہ دورِ جاہلیت کی رسم کے عین مطابق کنیزوں کی طرح فروخت بھی کر لیا ۔ انہوں نے  بھرے بازاروں میں کنیزوں کے سٹال سجائے جہاں ان بد نصیب خواتین کی بولی لگائی گئی۔ اس ظالم گروہ نے ہزاروں داستانہائے الم رقم کیں۔ جنمیں ایک ہی داستان ہر صاحبِ دل انسان کو خون کے آنسوں رلا دینے کے لئے کافی ہے۔ یہ داستانِ غم انگیز عمشا (Amsha)نامی ایک عراقی خاتون کی ہے جو ایزدی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بد نصیب خاتون کی آنکھوں کے سامنے اس کے شوہر اور دیور کے سروں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس بیوہ کو شوہر کے مارے جانے کی تعزیت یوں پیش کی گئی کہ اسے داعش کے درندے اپنے ساتھ زبردستی لے گئے  ۔ جس وقت اس خاتون کے ساتھ یہ سانحہ ٔ جانکاہ پیش آیا اس کی گود میں ایک اکیس (٢١)ماہ کا بچہ پل رہا تھا اور اسوقت وہ حاملہ بھی تھی۔ برطانیہ میں شایع ہونے والے گائڈین(  guardian   The ) میں چھپی ایک مفصل رپورٹ کے مطابق اس خاتون نے داعش کی قید میں ایسے وحشت ناک مناظر دیکھے کہ جنہیں وہ زندگی بھر نہیں بھول سکتی ہے۔اس خاتون کا کہنا ہے کہ اسے دیگر سینکڑوں خواتین کے ساتھ اشیائے خرید و فروخت کی مانند سٹور میں رکھا گیا ۔تا وقتیکہ کہ کو ئی خریدا ر آئے اور اس کی قیمت ادا کر کے اپنے ساتھ لے جائے ۔اس خاتون نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہاکہ مجھے ایک  وسیع مگر تاریک ہال میں دیگر سینکڑوں مغویہ خواتین اورنوجوان لڑکیوں کے ساتھ رکھا گیا ۔ جنمیں چند کم عمر بچیاں شامل تھیںجن کی عمریں پانچ سال سے بھی کم تھی ۔
یہ خاتوں مزید کہتی ہے کہ'' کسی کو بھی اس تاریک قید خانہ سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی ۔ اور قید خانے سے رہائی کی صرف اور صرف  ایک صورت تھی کہ کسی خریدار کے ہاتھوںفروخت ہوجانا ۔ سب سے پہلے خوبصورت لڑکیوں کی باری آگئی ۔ ایک دن کا منظر قیامت خیز تھا جب میں نے دیکھا کہ دس سالہ بچی کو ماں سے جدا کر کے فروخت کیا گیا ۔اس بچی نے دامنِ مادر سے چمٹے رہنے کی خاطر ہزار ہا جتن کئے لیکن ظالموں نے اس کی ایک بھی نہ سنی اور غم زدہ  ماں سے کم سن بیٹی کو چھین ہی لیا ۔ وہ ماں روتی بلکتی رہی ، دہائی دیتی رہی لیکن وہاں کون تھا جو اس کی داد رسی کرتا۔میں خود بھی اُس بچی کے لئے ابھی بھی فکر مند ہوں۔''
 واضع رہے کہ مذکورہ خاتوں کو بینِ آغوش اور بینِ حمل دو بچوں سمیت محض ١٢ امریکی ڈالروں کی قیمت کے عوض ایک پچاس سالہ شخص کے ہاتھوں بیچ دیا گیا۔ جس نے اسے ذرخرید جان کر ہر طرح کی ظلم و زیادتی روا رکھی۔ اتفاقاً یہ اس شخص کے چنگل سے رہا ہو گئی ہے مگر رہائی سے اس کی زخم خوردہ روح کچھ اس طرح ٹوٹ کر بکھر چکی ہے کہ اب اسے جینے کی تمنا  ہی نہ رہی ۔ اس کا کہنا ہے کہ'' اس کے والدین اس کی رہائی پر خوش ہیں لیکن خود  وہ اب موت کی منتظر ہے۔''
محولہ بالا دلدوز واقعہ دورِ جاہلیت کی سفاکی کو بھی بھلا دیتا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ابو لہب کے وارث دین ِ اسلام کو نت نئے حربوں سے بدنام کرنے پر کمر بستہ ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بہیمیت کو قانونی شکل دینے کے لئے اسلامی شریعت کا سہارا لیا جاتا ہے۔
 داعش کی جانب ایک ویب سائٹ پر اس سلسلے میں ایک مضمون چھپا ہے جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ غیر مسلم خواتین کو اسلامی روایات کے عین مطابق بطورِ مالِ غنیمت قبضے میں لے لیا گیا  ۔۔ اس مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ کسی بھی فرد کواس میں شک وشبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ کفار کے اہل و عیال کو غلام بنانا اور مالِ غنیمت میں حاصل شدہ عورتوںسے جنسی حظ اٹھانا نیزانہیں بطورِ کنیز بیچ دینا اسلامی شریعت  کے عین مطابق ہے اوراس بات کا رد کرنا  یا  مذاق اڑاناقرآنی آیات اور سنت رسول ۖکو ٹھکرانے اور مذاق اڑانے کے مترادف ہے'' (معاذاللہ)  (The guardian uk.19 october 2014)
 یہ دریدہ دہنی کی انتہا ء نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنی سفاکیت کو  یہ دہشت گرد اسلام کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ اور یوں دینِ رحمت کی بدنامی کے لئے مواد فراہم کرتے ہیں جس کا اسلام مخالف پروپگنڈا مشینری خوب استعمال کرتی ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بی بی فضہ  کی تاریخی شخصیت کا خوب پرچار ہو ۔جو نہ صرف دشمنانِ اسلام کے لئے دندان شکن جواب ثابت ہوگا بلکہ ان آستین کے سانپوں (دہشت گرد گروہ)کی ہرزہ سرائی کا بھی ایک موثر توڑ ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بوکو حرام اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا منحوس وجود عالمی طاغوت کا مرہونِ منت ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں جو افرادی قوت استعمال ہو رہی ہے ۔وہ بد قسمتی سے کلمہ گو مسلم نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور ان کلمہ گو جوانوں کی بربریت پسندی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات،اصل اسلامی تاریخ، اسلام کے صاف و شفاف منابع،اور علی الخصوص اسلامی انسٹیچیوشن سے تربیت یافتہ ان تمام مثالی کرداروں سے نابلد رکھا گیا ہے جن میں حضرت ِ فضہ  بھی شامل ہیں۔ لگی لپٹی کے بغیر کہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ درِ اہلبیت سے روگردانی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج چیکبوک نائیجیریا کی سینکڑوں نو عمر طالبات گزشتہ ایک سال سے بوکوحرام کے رحم و کرم پر نہ جانے کس حال میں ہیں۔چنانچہ بوکو حرام بھی اسی روگردانی کا کڑوا پھل ہے ۔قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ درِ رحمت کو چھوڑ کر دہشت و وحشت کے دشت و بیاباں کی خاک چھاننے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ۔             


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ماہ رجب کےواقعات
نماز کی اذان دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز
شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
بے فاﺋده آرزو کے اسباب
شیطان اور انسان
سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟

 
user comment