ایک ماہرِ نقل طالب علم کو کسی ایسے امتحانی مرکز میں بیٹھ کر جب امتحان دینا پڑا جسمیں جدید آلات کی مدد سے امتحان دہندگان کی نگرانی کی جاتی ہے تواسے چارو ناچار اپنی پرانی عادت چھوڑ کر صحیح ڈگر پر آنا ہی پڑا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس امتحان حال میں ایسی کون سی خاصیت ہے جو ایک پیشہ ور ناقل کو اپنی دیرینہ اور قبیح حرکت سے چھٹکارا مل گیا اور وہ بھی محنت سے پڑھنے کی چاشنی سے آشنا ہو گیا ؟
یہ کوئی جادو نہیں بلکہ جدید سائنسی ایجاد یعنی CLOSE GIREUIT CAMERA کا کرشمہ ہے یہ کیمرہ امتحانی مراکز میں لگے ہوتے ہیں اور امتحان دہندگان کی نظروں سے اوجھل سپر انٹندٹ کنٹرول روم میں بیٹھ کر بذریعہ کمپیوٹر امتحانی مرکز میں موجود تمام طالب علموں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے یعنی یک طرفہ نگرانی ہے وہ امتحان دہندگان کو دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن امتحانی مرکز میں بیٹھے طلباء اسکو نہیں دیکھ نہیں پاتے جبکہ نقل کے فن کا دارومدار طالب علم کی نگراں عملے کے ساتھ آنکھ مچولی پر ہوتا ہے روایتی امتحانی مراکز میں جہاں نگراں عملہ طالب علم کی حرکات پر نظر رکھتا ہے وہیں ناقل بھی ان کے رخ اور زاویہ کو دیکھ کر اپنا کام کرجاتا ہے۔ نظارت و نگرانی کا یہ جدید نظام اب وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے ۔بڑے اور قدرے ترقی یافتہ شہروں میں جگہ جگہ یعنی شہراہوں، عوامی مقامات اور خصوصی تنصیبات کی حفاظت و نگرانی اسی خفیہ اور ڈیجیٹل آنکھ کے ذریعے کی جاتی ہے۔
اب اگراس جدید نظام نگرانی کے متعلق انسان تمنا کرے کاش پوری کائنات میں ایسا ہی کوئی نظام ہو، تو دفعتا ًاسلام کا وہ قدیم اورآفاقی تصور دل و دماغ میں شعوری یا غیر شعوری طور پر گردش کرنے لگے گا جسکی رو سے کائنات ایک کھلی کتاب کے مانند اشرف المخلوقات کے زیر مطالعہ ہے یہ دنیا آزمایش گاہ (examination center) ہے جہاں ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ئے امتحان ہے نیز ایک غیر مرئی ہستی لمحہ بہ لمحہ شب و روز امتحان دہندگان کو خوب دیکھ رہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں خداوندِ کریم فرماتا ہے کہ '' بے شک خدا سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے (آلِ عمران) وہ سمیع اور بصیر( دیکھنے اور سننے والا) ہے'' لھذا ہر شخص کی سنتا اور سب کو دیکھتا ہے ''(سورہ نساء آیت ١٣٤،١٣٦) ''وہ دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے ''(سورہ انعام آیت ١٩)وہ جانتا ہے کہ بحر و بر میں کیا کچھ ہے کوئی پَتا ایسا نہیں جھڑتا جسکا اسے علم نہ ہو زمین کے تاریک پردوں میں چھپا ہوا دانہ ایسا نہیں اور ہری یا سوکھی چیز ایسی نہیں جو اسکی کھلی ہوئی کتاب میں درج نہ ہو (انعام آیت ٥٩،٦٠)المختصر حاضر و ناظر ،سمیع و بصیر،علیم و خبیر، قادر وقدوس خدا، کا تصور ہر اعتبار سے مذکورہ مثال سے وسیع تر اور تمام نقائص اور مصائب سے منزہ ہے بلکہ کہنا یہ چاہیے یہ جدید نظام نگرانی اسلام کے اسی آفاقی تصور کی انتہائی ناقص تمثیل ہے البتہ یہ مجازی صورت حقیقت کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں اس تمثیل کو بیان کرنے کا مدعا و مقصد بھی یہی تھا کہ اس مثال کو مد نطر رکھکر ہم الھی نظام نگرانی سے کسی حد تک آشنا ہو جائیں ۔
قابل غور امر یہ ہے کے اگر ناقل اس خیال سے نقل کرنا چھوڑ دے کہ کوئی اتھارٹی جدید آلات کی مدد سے اس پر نظر رکھے ہوئی ہے تو اسلام کے تصور خداوندی پر ایمان لانے والا شخص کیوںکر گناہوں سے آلودہ ہو سکتا ہے جبکہ اول الذکر اتھارٹی آلات کی محتاج اور محدود نظر کی حامل ہے برعکس اسکے بقول امام علی '' خدا فاعل ہے لیکن آلات وحرکات کا محتاج نہیں ،وہ ہر شئے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جبکہ مخلوقات میں کوئی بھی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی وہ چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا،اور انکی حدود نہایت پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔''(نہج البلاغہ خطبۂ اول)
ما سواے اللہ، پوری کائنات میں ایسا کوئی ناظرو نگراں نہیں ہے،جو خود بھی اسکی نظروں میں نہ آئے جنکے لئے وہ نگراں مقرر ہو چکا ہو یہی وجہ کہ کسی بھی نظام حکومت میں انسداد جرائم، احتساب کمیشن، ویجی لینس آرگنائزیشن جیسے ادارے کلی طورپر خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ان اداروں سے وابستہ سر براہان و کارکنان بشری میلانات، تعلق داری، اور محدود وسائل اور احتمالی معلومات کے سبب اس پوزیشن میں نہیں ہوتے ہیں کہ وہ جرائم کا مکمل طور پر قلع قمع کر سکیں ۔نظامی نقائص اور اداروں سے وابستہ افراد کی ذاتی کمزوریوں نے مجرمانہ ذہنیت کو بچاو کے مختلف طریقے سجھا دیئے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسداد جرائم کے ادارے بنتے جا رہے ہیں اور جرائم کا گراف ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اول تو مشکل سے ہی کوئی مجرم ان اداروں کے ہاتھ لگتا ہے۔اور پھر اس بات کے امکانات نہایت ہی کم ہوتے ہیں کہ اسے ایسی قرارِ واقعی سزا مل جائے جو ضمیر ِمجرم کو ملامت کے کوڑوں سے بیدار کر دے کیونکہ اس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے والے افراد اگر خوف ِ خدا سے عاری ہوں تو وہ بھی حتماً مجرم کو راہ داری دینے کی کوشش کریں گے ۔تاکہ اس کا بھاری معاوضہ انہیں ملے۔ اکثر مجرم رشوت یا کسی با اثر شخص کا سہارا لے کر بغیر سزاہی چھوٹ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ رشوت خور انسان بھی حاصل شدہ رشوت کو استعمال کر کے قانون کے شکنجے سے گلو خلاصی کرواتا ہے بقول کسے
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
جن مجرموں کو سزا کے طورجیل بھیج دیا جاتا ہے ان میں سے بھی قلیل تعداد تائب ہو کر واپس اپنے معاشرے کا حصہ بن جاتی ہیں گویا آجکل کے تعذیب خانے ایک قسم کی بھٹیاں ہیں جن سے گزر کر ایک معمولی اور خام مجرم بھی پختہ اور بے خوف ہو جاتا ہے۔ بجا طور کہا جا سکتا ہے کہ انسداد جرائم کے مختلف اداروں کا سلسلہ جرائم پر کلی طور قدغن لگانے سے قاصر ہے۔اور بزبان حال پکار پکار کر کہتا ہے کہ انسان کے دل میں لازما ًکسی ایسی ہستی کا خوف ہونا چاہیے ۔جو تمام عیبوں سے مبرہ ہو، جو رشتہ داری اور تعلق داری سے ماورا ہو ۔(اللہ الصمد ،لم یلدولم یولد،) ایسا ناظر و نگراں جسکو نگاہیں تو نہیں پا سکتیں لیکن وہ نگاہوں کو پا لیتا ہو (انعام :١٠٣)جسکی عدالت میں مجرم کے حق میں کسی کی سفارش نہ چلتی ہو (من ذالذی یشفع عندہ، )وہ عالم وناطر کہ جس کے سامنے غیب و شہود اور ظاہر و باطن یکساں اور واضع ہو(یعلم سر واخفاء ، سورہ طہٰ آیت ،٧) ایسا عادل کہ جسکی عدالت میں مجرمین جھوٹے گواہوں کے سہارے بری ہو سکتے ہیں اور نہ اس کی عدالت گواہوں کی محتاج ہو کیوںکہ وہاں اپنے اعضا و جوارح مجرم اور گنہگار کے خلاف گواہی پیش کریں گے (سورہ یاسین )الغرض خدائے علیم و قدیم کی معرفت جسے حاصل ہو جائے اسکے دل میں خشیت الہی کا پیدا ہونا بدیہی امر ہے اورخوف خدا انسان کے باطن و ضمیرمیں ہی بد اندیشی کے خلاف مورچہ اور نفس و روح کی ان گہرایوں میں کھبی نہ سونے والی پہرہ داری قائم کرتا ہے جہاں دنیاوی حاکم ونظام کے خوف کا گزر نہیں۔
جلوت و خلوت میں تقوی الہی کا اثر یکساں رہتا ہے خدا کے تقوی ٰ شعار بندے تنہائی میں کچھ تو انجمن میں کچھ اور نہیں ہوتے ۔گھر کے نہاں خانے میں مجرم اور بازار میں منصف دکھائی نہیں دیتے انکے پہلو میں کوئی ہو نہ ہو مگر خوف ِخدا ہر وقت انکے ساتھ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ متقی افراد نہ صرف اپنے تئیں زر رساں نہیں ہوتے ہیں بلکہ انسانی معاشرہ بھی ان سے خیر ہی خیر پاتا ہے کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ شعاری ضبط نفس اور سماجی تحفظ کا ایسا انتظام ہے جسکے ہوتے ہوئے دنیاوی نگراں کی اداروں کی اہمیت ماند پڑھ جاتی ہے ۔اعمال ہوں یا معاملات خدا ترسیدہ مومن پروردگار کو حاضر ناظر جان کر خود فریبی اور دوسرے کے ساتھ معاملات میں دھوکہ دہی سے دور رہتا ہے ۔اگر دو افراد اس یقین کے ساتھ آپسی معاملات طے کریں کہ ایک عادل اور علیم ہستی بحیثیت ناظر و نگراں وہاں موجود ہے تو ہر گز معاملات میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہیں ہو گا ۔وہاں پر بد اعتمادی کا قطعی طور پر دخل نہ ہوگا خدا ترسی کے ماحول میں پنپنے والا اعتماد و اعتبار طرح طرح کے وسوسوں اور اندیشوں کو ختم کردیتا ہے ایسے ماحول میں چوری، ڈاکہ زنی، قتل وسازش ،دھوکہ دہی، بد اعتمادی، بد عہدی، حق تلفی وغیرہ نہیں پائی جاتی بر عکس اس کے جو ماحول خدائی خوف سے مثتثنیٰ ہو وہاں ہزاروں قسم کے وسوسے اور متعدد سماجی بیماریاں مستقل سکونت اختیار کر لیتی ہیں اور بالآخر یہ ماحول اس قدر مسموم ہو جاتا ہے کہ اسمیں انسانیت کا زندہ رہنا محال ہو جاتا ہے۔
یہاں پر یہ نکتہ موضوع سے باہر نہیں ہے کہ خوف الہی دہشت و وحشت سے عبارت نہیں ہے یہ اجباری نہیں بلکہ اختیاری کیفیت ہے با الفاظ دیگر خداوندِ کریم دنیاوی حکمرانوں کے مانند ڈرا دھمکا کر بندے کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ اسکا دل خوف خدا سے معمور ہو خشیت الہی شعور و وجدان سے قبول کی جاتی ہے نظام قدرت میں اس قسم کا جبر و اکراہ پایا نہیں جاتا کہ اگر کوئی بندہ دن میں عبادت ِپروردگار سے جی چراے تو شام کو اسکا جنازہ نکلے ۔ خشیت الہی کی ابتدا معرفت پروردگار سے ہوتی ہے اور محبت و حیا کے مقام پر پہنچ کر مستقبل صورت اختیار کرتی ہے عرفان خداوندی سے معمور دل یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ وہ معصیت پر آمادہ ہو کر اپنے عظیم محبوب کی ناراضگی مول لے یہ حیا آمیز خوف محرومی میں بھی اطمینان بخش ہے۔ اور اسے تہی دامنی مقصد برآوری کے بعد بھی اطمینان و سکوں سے ہمکنار نہیں کر سکتی ہے اس باریک نکتے کو اس مثال کے ذریعے بہتر طور ذہن نشین کرایا جا سکتا ہے کہ دو اشخاص ایک ہی جگہ اور یکساں منصب پر فائز ہوں ایک خوف خدا سے عاری رشوت خور، اور دوسرا خدا سے ڈرنے والا رشوت سے متنفر، رشوت خور اپنی مطلوبہ شئے پا کر بھی اس خیال سے مغموم رہتا ہے کہ حسب خواہش اس نے رشوت نہیں پائی اسکے بر عکس دیانت دار خالی ہاتھ لوٹ کر بھی جلوت میں ذہنی آسودگی، روحانی سکون ، قلبی انسباط جیسی بیش قیمت نعمتیں سمیٹتاہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ گنہگار بندے خوف الہی کے نتیجے میں ترک گناہ کی لذت سے آشنا ہو جائیں تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راہ معصیت ترک کرنے کے لئے از خود تیار ہوں گئے گناہوں سے بچنے والے کا دامنِ امید اخروی نعمتوں سے سر شار تو ہے ہی وہ اسی دنیا میں بھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ گناہ سے خود کو بچاتے وقت ہی دست غیب اسے انعام واکرام سے نوازتا ہے۔
غیب پر ایمان مومن کا اولین وظیفہ ہے ایمان بالغیب مومن کو راست اندیش ،راست بین، راست گو اور راست باز بناتا ہے ان دیکھے خدا پر ایمان ہی تقوای الہی کا اصلی محرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے غیب پر ایمان اور تقوی کو لازم ملزوم قرار دیا ہے یہ کیسے ممکن کہ وجود خدا پر یقین نہ ہو اور خدائی خوف دل میں ہو ناقص اورمجبورخدا کا تصور بھی ہر گز کسی انسان کو اس بات کے لئے آمادہ نہیں کرسکتا کہ وہ خواہشات نفس کو لگام دے اعمال صالح ایمان بالغیب کے مظاہر میں سے ہیں لہذا اگر انسان کو برے کاموں سے روکنا اور اچھے کاموں کی ترغیب دینا ہو تو اسکو سب سے پہلے خدا پر ایمان کی نعمت سے لذت آشنا ہونا چاہیے اور یہ ایمان اسی نوعیت کا ہونا چاہیے جسکا تقاضا روح قرآن کرتی ہے ناقص اور کمزور ایمان کردار سازی میں سود مند ثابت نہیں ہو سکتا بس یہی خوف انسان کو اپنا محاسب بناتا ہے۔
source : abna24