عاشورا حسيني حق و باطل کے درميان ٹکراۆ کا مظہر تھا جس ميں ايماني لشکر، کافروں کے لشکر کے روبرو تھا - کربلا ميں پيش آنے والا يہ واقعہ کوئي معمولي واقعہ نہيں جو وقت کے ساتھ کم اہميت ہو جاۓ يا جسے لوگ بھول جائيں بلکہ يہ ايک قيام الہي تھا کہ جيسے جيسے وقت گزرتا جاۓ يہ اور بھي زيادہ دنيا ميں بسنے والے انسانوں کے ليۓ روشن ہوتا جاۓ گا اور يہ قيامت تک زندہ رہے گا -
حضرت امام حسين عليہ السلام ايک عظيم شخصيت کے مالک تھے - ايک ايسي ہستي جس کي پروان نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے خاندان ميں ہوئي اور جس کي تربيت حضرت علي عليہ السلام کے زير سايہ اور دامن صديقھ طاہرہ ( س ) ميں ہوئي - اس عظيم ہستي نے ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہو کر رہتي دنيا تک کے انسانوں کے ليۓ ايک عظيم سبق چھوڑا ہے جسے ہميشہ ياد رکھا جاۓ گا -
قيام حسيني کے بارے ميں مخلتف جہتوں سے بات کي جا سکتي ہے مگر ہم يہاں پر اس واقعہ سے ملنے والے سبق اور پيغام پر مختصر بات کريں گے -
1- پيغام آزادگي
يہاں پر آزادگي سے مراد اخلاقي قيد و بند سے رہائي نہيں ،حقيقت ميں يہ آزادگي کي وہ قسم ہے جس سے مراد نفس کي بندگي ہے بلکہ اس کا مقصد يہ ہے کہ انسان ظلم کے دباۆ کا شکار نہ ہو اور ظالموں کے آگے خود کو تسليم خم نہ کرے - انسان کو مکمل سرفرازي اور آزادگي کے ساتھ زندگي گزارنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے ليۓ ہر طرح کے ظلم کے خلاف ڈٹ جانا چاہيے - حضرت امام حسين عليہ السلام نے اپني تمام زندگي عزت اور سرفرازي کے ساتھ گزاري اور وہ جواني سے ہي اپني ان خصوصيات کي وجہ سے مشہور تھے اور انہيں " اياۃ الضيم " ( يعني ايسے افراد جو ظلم کے نيچے نہيں دبتے ) شمار کيا جاتا تھا - (1)
عزت و آزادگي کے متعلق حضرت امام حسين عليہ السلام کا ايک قول ہے کہ
" موت في عز خير من حياۃ في الذل " (2)
ترجمہ : عزت کے ساتھ موت ذليل زندگي سے بہتر ہے -
وہ زندگي کو جس نظر سے ديکھتے تھے اور عزت و وقار کو برقرار رکھنے کے جس حد تک قائل تھے واقعہ کربلا ان کي ايسي خوبيوں کا جلوہ گر ہے - دشمن حضرت امام حسين عليہ السلام کو کہتا تھا کہ
" يا ذلت کے ساتھ بيعت کے ليۓ ہاتھ آگے کرو اور يا مرنے کے ليۓ تيار ہو جاۆ "
حوالہ جات :
1- شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ج 3 ، ص 249
2- مناقب ابن شھر آشوب ، ج 4 ، ص 68
source : tebyan